گنگوہ ضلع سہارنپور کا قدیم قصبہ ہے، عرصہ قدیم سے بڑے بڑے اولیاء اللہ کا مولد اور مدفن ہے، سہارنپور سے تقریباً سولہ میل اور تھانہ بھون سے تیرہ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت قصبہ گنگوہ محلہ سرائے متصل خانقاہ حضرت شاہ عبدالقدوس صاحب گنگوہی رحمہ اللہ، مولانا ہدایت احمد صاحب کے گھر میں ۶؍ذی القعدہ ۱۲۴۴ھ بروز شنبہ بوقت چاشت ہوئی، آپ کے والد ماجد کا نام مولانا ہدایت احمد صاحب بن قاضی پیربخش صاحب ہے۔ اور آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔
ابتدائی تعلیم گنگوہ کے ایک میاں جی صاحب سے حاصل کی پھر عربی و فارسی مولانا عنایت صاحب اور مولانا محمدتقی صاحب سے پڑھی بعد ازاں ۱۲۶۱ھ میں تحصیل علم کے لئے دہلی کا سفر کیا اور چند دنوں قاضی احمدالدین پنجابی سے کچھ کتابیں پڑھیں اور پھر اسی سال حضرت مولانا مملوک علی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہاں دلجمعی سے پڑھنا شروع کیا، حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمہ اللہ ۱۲۶۰ھ میں دہلی پہنچ چکے تھے اور شروع سے مولانا مملوک علی صاحب کی خدمت میں رہتے تھے تھوڑے دنوں بعد علم و فضل کے یہ دونوں شمس و قمر ایک ساتھ ہوگئے اور تا حیات ساتھ رہے، یہ دونوں شمس و قمر مولانا مملوک علی صاحب کی خدمت میں عرصہ تک پڑھتے رہے، معقولات کی مشکل اور انچی کتابیں صدرا، شمس بازغہ، میر زاہد قاضی و غیرہ ایسے پڑھا کرتے تھے۔ ذکاوت و ذہانت میں یہ دونوں حضرات دہلی میں مشہور ہوگئے تھے اسی وجہ سے اساتذہ خصوصاً مولانا مملوک علی صاحب کو ان دونوں سے بہت زیادہ محبت تھی۔ اگر طبیعت ناساز ہوتی تو عیادت فرماتے اور قیام گاہ پر جا کر ان حضرات کو پڑھاتے تھے، علم حدیث آپ نے ہندوستان میں خاندان ولی اللہی کے آخری چشم و چراغ حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلوی رحمہ اللہ سے حاصل کیا ہے شاہ صاحب علم ظاہر و باطن میں شہرہ آفاق ہیں۔ الحاصل حضرت گنگوہی رحمہ اللہ ۲۱سال کی عمر میں تمام علوم و فنون سے مکمل ہوگئے اور واپس وطن تشریف لے گئے اسی سال آپ کا نکاح آپ کے بڑے ماموں مولانا محمدتقی صاحب کی صاحبزادی سے ہوا جو آپ کے استاذ بھی تھے اور بڑے پاکباز بزرغ تھے، حضرت گنگوہی رحمہ اللہ جب دہلی سے واپس تشریف لائے اور وطن عزیز میں قیام پذیر ہوئے تو بمقتضائے طبیعت آپ کو شوق ہوا کہ کوئی طالب علم دین مل جاتا تو اس کو پڑھانا ہی شروع کردیتے اللہ تعالی نے اس خواہش کو پورا کیا اور ایک صاحب سید مومن علی صاحب کو بھیج دیا ان ہی ایام میں ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت مولانا شیخ محمد صاحب تھانوی رحمہ اللہ کی تحریر دربارہ مسئلہ روضہ اقدس سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم میں جو جگہ ایک قبر کے لئے افتادہ ہے اس میں حضرت عیسی علیہ السلام مدفون ہوں گے، شیخ صاحب نے حکم لگایا تھا کہ یہ امر قطعی ہے اور اس کا منکر ایسا ہے ویسا ہے، یہ تحریر کسی نے حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کردی آپ نے اس پر تحریر فرمایا کہ سارا ثبوت باحادیث اخبار احاد ہے اس لئے اس سے علم ظنی حاصل ہوگا، قطعیت کا ثبوت دشوار ہے۔
یہ جواب جس وقت حضرت شیخ صاحب رحمہ اللہ کی نظر سے گزرا تو جوش و غضب میں بھر گئے اور پھر کیا تھا طرفین سے سوال و جواب شروع ہوگئے۔ بالآخر مولانا گنگوہی رحمہ اللہ نے بغرض مناظرہ ایک بارات کے ساتھ تھانہ بھون کا سفر اختیار کیا اور بارات کے متعلق امور نکاح و غیرہ سے فارغ ہوکر حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بعد استفتار آنے کا منشاء ظاہر کیا تو حضرت حاجی صاحب قدس سرہ نے یہ کہہ کر وہ ہمارے بڑے ہیں۔ مناظرے سے منع فرمایا۔ چنانچہ آپ نے حضرت حاجی صاحب کی بات مان لی اور مناظرے سے باز آئے اور اپنا ارادہ بیعت ظاہر کیا تب حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ نے باصرار و بسفارش حضرت حافظ ضامن شہید بیعت کر لیا۔ بیعت ہونے کے بعد آپ نے بموجب ارشاد حضرت صاحب ذکر و شغل شروع کیا اور بقول خود ’’کہ پھر تو میں مر مٹا‘‘ چنانچہ حضرت حاجی صاحب نے آٹھویں دن فرمایا: ’’میاں رشید احمد جو نعمت حق تعالیٰ نے مجھے دی تھی وہ آپ کو دیدی آئندہ اس کو بڑھانا آپ کا کام ہے‘‘
جب آپ کو بیالیس دن رہتے ہوئے ہوگئے تب آپ نے وطن عزیز رخصت ہونے کی اجازت چاہی، حضرت حاجی صاحب نے گنگوہ کے لئے رخصت کرتے وقت خلافت اور اجازت بیعت ان الفاظ کے ساتھ عنایت فرمائی: ’’اگر تم سے کوئی بیعت کی درخواست کرے تو بیعت کرلینا‘‘
خدا کی دین کا موسی سے پوچھئے حال
کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل جائے
اس خدائی نعمت کو (جس کے لئے وَر وَر کی خاک چھانی جاتی ہے) پا کر جب آپ گنگوہ تشریف لائے تو خانقاہ شاہ عبدالقدوس گنگوہی رحمہ اللہ کو جو تین سو سال سے ویران اور خراب و خستی پڑی تھی مرمت کر کے آباد کیا اور رات دن ذکر و فکر الہی میں مشغول رہتے، راتوں کو رویا کرتے تھے اور جو لحاف آپ اوڑھا کرتے تھے باران اشک سے داغدار ہوگیا تھا۔
شب وصل بھی کیسی شب ہے الہی
نہ سوتے کٹے ہے نہ روتے کٹے ہے
غرض یہ کہ ذکر الہی کی خوشبوؤں نے جب گنگوہ کے کوچہ و بازار اور خانہ و صحرا کو معطر کرنا شروع کیا تو ایک نیک بخت خاتون نے حضرت گنگوہی رحمہ اللہ سے بیعت کی درخواست کی لیکن آپ نے انکار فرمادیا، اتفاق سے چند دنوں بعد حضرت حاجی صاحب تشریف لے گئے اور خاتون موصوفہ نے موقع کو غنیمت جان کر بتوسط حضرت حاجی صاحب پھر درخواست کی بالآخر حضرت حاجی صاحب کی تعمیل حکم میں آپ نے بیعت فرمالیا۔ سلسلہ بیعت میں داخل ہونے والی یہ سب سے پہلی خاتون تھیں۔
معمولات پر مداومت اور استقامت مشائخ دیوبند کی خصوصی شان ہے اور حقیقۃً یہی کمال ولایت اور علامت عبدیت ہے چنانچہ ان مشائخ کے یہاں جو چیز روز اول معمولات میں داخل ہوئی اس کو ہمیشگی اور دوام حاصل رہا ان حضرات نے احب الاعمال عنداللہ اور مہا کو دل نشین کرکے اعمال میں شان محبوبیت پیدا کی اور تقرب و ولایت کے اعلی منازل کو طے کیا چنانچہ حضرت گنگوہی قدس سرہ کے مجاہدات و ریاضات کا پیرانہ سالی میں یہ عالم تھا کہ دیکھنے والوں کو رحم آتا تھا۔ دن بھر صائم رہتے اور بعد مغرب ۴ رکعت نوافل کی بجائے بیس رکعت صلوۃ الاوابین پڑھا کرتے تھے جس میں تقریباً دو پارے قرآن شریف تلاوت فرماتے تھے، نماز سے فارغ ہو کر جب دولت کدہ برائے تناول طعام تشریف لے جاتے تو اثنا راہ اور گھر ٹہرنے کے وقفہ میں کئی کئی پارہ تلاوت فرمالیتے تھے اور بعد نماز عشاء تھوڑی دیر تک استراحت فرماتے اور دو بجے تہجد کے لئے کھڑے ہوجاتے، بعض نے آپ کو ایک بجے بھی وضو کرتے دیکھا ہے، اور ڈھائی تین گھنٹے صلوۃ اللیل میں مشغول رہتے اور صبح کی نماز سے فارغ ہوکر ڈاک و جوابات استفتاء میں مصروف ہوتے اور دو پہرہ کو قیلولہ فرما کر بعد نماز ظہر تا عصر تلاوت کلام پاک میں مشغول رہتے، رمضان شریف میں تو آپ کے یہاں دن رات مساوی ہوتے تھے۔
آپ اپنے وقت کے فقہ و حدیث کے امام تھے اور تمام علوم کے بحر ذخار تھے لیکن حدیث و فقہ سے آپ کو بہت زیادہ شغف تھا، آپ نے چودہ مرتبہ سے زیادہ ہدایہ کو پڑھایا ہے اور تقریباً صحاح ستہ کی تمام کتابیں آپ نے پڑھائی ہیں۔ غرضیکہ آپ کے عملی و روحانی کمالات کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے صرف اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ آپ کے فیض صحبت اور کفش برداری سے شیخ الہند مولانا محمود الحسن حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ، حضرت مولانا عبدالرحیم رائپوری رحمہ اللہ اور حضرت مولانا حسن احمد مدنی رحمہ اللہ جیسے حضرات فلک ہند کے نیر اعظم ہوئے ہیں۔ آپ کے علمی و روحانی کمالات کے متعلق حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ آپ کے شیخ طریقت کا خراجِ عقیدت ہی کافی ہے وہ فرماتے ہیں کہ: ’’جو آدمی اس فقیر امداداللہ سے محبت و عقیدت و ارادت رکھتا ہے وہ مولوی رشید احمد سلمہ اور مولوی محمد قاسم صاحب سلمہ کو جو تمام کمالات علوم ظاہری اور باطنی کے جامع ہیں بجائے میرے بلکہ مجھ سے بھی بڑھ کر شمار کرے اگر معاملہ برعکس ہے وہ بجائے میرے اور میں بجائے ان کے ہوتا، ان کی صحبت غنیمت جاننی چاہئے کہ ان جیسے آدمی اس زمانہ میں نایاب ہیں‘‘ (ضیاء القلوب)
حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کا ایک ملفوظ ہے کہ: ’’اگر حق تعالی مجھ سے دریافت کرے گا کہ امداد اللہ کیا لے کر آیا تو میں مولوی رشید احمد صاحب اور مولوی محمد قاسم صاحب کو پیش کردوں گا کہ یہ لے کر حاضر ہوا ہوں‘‘ (تذکرۃ الرشید)
جب ۱۸۵۷ء کو ہولناک حادثہ ختم ہوا تو حکومت برطانیہ نے ہر اس آدمی کو تختہ دار پر لٹکا دیا یا گولی کا نشانہ بنادیا جس کے متعلق ذرا بھی شبہ تھا، چنانچہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی، مولانا محمدقاسم نانوتوی اور مولانا گنگوہی رحمہم اللہ کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے، حضرت حاجی صاحب مکہ مکرمہ ہجرت فرما گئے، مولانا محمد قاسم صاحب اور مولانا گنگوہی رحمہمااللہ روپوش رہے لیکن مخبر کی خبررسانی سے آپ کو گرفتار کیا گیا اور سہارنپور جیل کی کال کوٹھڑی میں رکھا گیا بالآخر جب حکومت کو کوئی ثبوت آپ کے متعلق نہ ملا تو رہا کردیا گیا۔
چونکہ اللہ نے آپ سے دین کا کام لینا تھا اس لئے حکومت آپ کا بال بھی بیکا نہ کرسکی، آپ نے زندگی میں تین دفعہ حج کی سعادت حاصل کی اور تمام عمر دین کی خدمت میں مصروف رہے۔ فتاویٰ رشیدیہ آپ کا علمی شاہکار ہے اس کے علاوہ کئی تصانیف لکھی ہیں اور ہزاروں علماء و مشائخ آپ کے فیض علمی و روحانی سے مستفید ہوئے ہیں۔
بالاخر ۹؍ جمادی الثانی ۱۳۲۳ھ مطابق ۱۱؍اگست ۱۹۰۵ء کو واصل بحق ہوگئے۔ اناللہ و اناالیہ راجعون
آئے عُشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر
اکابر علمائے دیوبند، ص۲۷۔۳۲
حضرت مولانا رشید احمد گنگو ی
Deoband