تقوی اور پرہیزگاری کے دنیاوی منافع

تقوی اور پرہیزگاری کے دنیاوی منافع

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا» (الاسراء:۱۱) یعنی قدرتی طور پر انسان بڑا سریع الطبع اور جلدباز واقع ہوا ہے، ہر چیز کا ثمرہ اور ہر کام کا نتیجہ نقد چاہتا ہے، جب کسی شئ کے منافع بالفعل نظر آتے ہیں تو اس کی طرف لپکتا ہے، اور کسی عمل کے نتائج وقت طلب ہوں تو اس کی طرف اقدام سے توقف کرتا ہے، چوں کہ دنیا انسان کے لیے قریب اور حاضر ہے اور دنیا میں ملنے والی منفعت کی طرف انسان طبعی طور پر راغب ہوتا ہے، اس لیے اگلی سطور میں آیات قرآنیہ کی روشنی میں تقویٰ اللہ اور پرہیزگاری کے وہ منافع اور فوائد جو انسان کو دنیا میں ہی مل جاتے ہیں ذکر کیے جاتے ہیں۔
تقویٰ ‘‘وقایہ’’ سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی ہے ‘‘حفظ الشییء مما یوذیہ و یضرہ’’ یعنی مضرت رساں چیزوں سے بچنا، تقویٰ کی شرعی مراد کی توضیح میں سلف سے مختلف باتیں منقول ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ تقویٰ کا مطلب ‘‘رب جلیل سے ڈرنا، تنزیل مجید (قرآن پاک) پر عمل کرنا، شئ قلیل پر قناوت کرنا، اور یوم رحیل یعنی روز قیامت کی تیاری کرنا’’ ہے۔ (ص174 ارشیف ملتقی اھل الحدیث شاملہ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ تقویٰ کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ تم کبھی خاردار راستے سے گزرے ہو؟ تو اس نے کہا جی ہاں! تو آپ نے اس سے سوال کیا تم اس وقت کیا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا میں اپنے دامن کو محفوظ رکھتے ہوئے، کانٹوں سے بچتے ہوئے، نہایت احتیاط کے ساتھ وہاں سے گزرتا ہوں، تو حضرت نے فرمایا اسی کا نام تقویٰ ہے۔ (رواہ البیہقی فی الزھد الکبیر)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تقویٰ کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے، اس کی نافرمانی سے مکمل طور پر بچا جائے، اس کو ہمیشہ اس طرح یاد کیا جائے کہ کبھی نسیان نہ ہو اور اللہ تعالی کا شکر بجا لایا جائے اور ناشکری سے بچا جائے۔ (مستدرک حاکم 294/2)
مفسر قرآن ابو سعود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تقویٰ کا مطلب آخرت میں نقصان دینے والی چیزوں سے مکمل طور پر بچنا ہے۔ (تفسیر ابوسعود: 27/1) حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دنیا اور آفات دنیا سے بچنے کا نام تقویٰ ہے۔ غرض علماء کے مختلف اقوال ہیں، تمام کا حاصل اور خلاصہ وہ ہے جس کو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ماموراتِ الہیہ کا التزام کرے اور منہیات شرعیہ سے اجتناب کرے۔ (مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 120/30)
تقویٰ کا اصل فائدہ تو انسان کو آخرت میں ملے گا، اور تقویٰ اختیار کرنے میں نیت بھی آخرت ہی کی ہونی چاہیے، لیکن عنداللہ یہ اتنی محبوب اور پسندیدہ شئ ہے کہ اللہ تعالی اپنے متقی اور پرہیزگار بندوں کو دنیا ہی میں طرح طرح کے انعامات سے سرشار فرماتے ہیں۔

تقویٰ اللہ تعالی کی معیت اور نصرت کا ذریعہ ہے
تقوی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ متقی بندوں کو اللہ کی معیت اور ساتھ نصیب ہوتا ہے، نیز وہ اپنے ہر معاملے میں ایک خاص نوعیت کی مدد و نصرت شامل حال پاتے ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ» (البقرہ: 194) ‘‘اور جان لو کہ اللہ تعالی متقی لوگوں کے ساتھ ہے’’ اور جس شخص کو اللہ تعالی کی دوستی اور ساتھ حاصل ہو اس کو دنیا کی کسی بھی چیز کا نہ ڈر ہوتا ہے نہ خطرہ، وہ بالکل بے خوف ہو کر زندگی گزارتا ہے، فرماتے ہیں: «أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ» (یونس:62) ‘‘خبردار! اللہ کے اولیاء پر نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے’’۔

متقی بندوں سے اللہ تعالی اور زمین و آسمان کی ساری مخلوق محبت کرتی ہے
تقویٰ کا ایک فائدہ جلیلہ یہ بھی ہے کہ متقی بندہ اللہ تعالی کا محبوب اور چہیتا بن جاتا ہے، قرآن پاک کا ارشاد ہے: «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ» (التوبة: 4) ‘‘بے شک اللہ سبحانہ و تقدس متقی بندوں سے محبت کرتے ہیں’’ اور جس بندے سے اللہ محبت کرتے ہیں اس سے زمین و آسمان کی ساری مخلوق محبت کرتی ہے، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بُلا کر کہتے ہیں کہ اے جبرائیل! میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو، تو حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر آسمان میں ندا لگاتے ہیں کہ اے آسمان والو! فلاں بندے سے اللہ تعالی محبت کرتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو، تو تمام آسمانی مخلوق یعنی فرشتے اس سے محبت کرتے ہیں، پھر دنیا والوں کے دلوں میں اس کی قبولیت کو ڈال دیا جاتا ہے۔ (بخاری، باب بدء الخلق، باب ذکر الملائکہ رقم الحدیث: 3209)
قبولیت کی تشریح میں شرّاح حدیث لکھتے ہیں کہ اہل دنیا کے دلوں میں اس کی محبت، عظمت اور احترام و میلان کو ڈال دیا جاتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ اولیاء عظام و علماء کرام معاشرے اور سوسائٹی میں کس قدر عزت و وقعت رکھتے ہیں، اور کتنا زیادہ لوگ ان کا احترام کرتے ہیں، حتی مرنے کے بعد بھی ان کو یاد کیا جاتا ہے ان کی برکات سے استفادہ کیا جاتا ہے، ان کو اس مقام پر پہنچانے والی چیز یہی وصف تقویٰ ہے۔

اسباب معاش کی فراہمی کے ساتھ بابرکت روزی نصیب ہوتی ہے
انسان کے لیے دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ اس کی روزی اور معاش کا ہے، اس کی ساری تگ و دو، دوڑ دھوپ تحصیل معاش کے لیے ہی ہوتی ہے، اور یہی فکر اس کو ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے، مگر جو بندے تقویٰ اختیار کرتے ہیں اللہ تعالی غیب سے ان کے لیے رزق کے فراہمی کی شکلیں پیدا فرماتے ہیں اور ایسی جگہ سے ان کو روزی مقدر کرتے ہیں جس کا ان کو گمان تک نہ ہو، چنانچہ باری تعالی کا ارشاد ہے: «مَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ‎﴿٢﴾‏ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ» (طلاق: 2-3) ‘‘اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے مصائب سے نکلنے کی راہ بنادیتے ہیں اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتے ہیں جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا’’۔ نیز اگر روزی حاصل بھی ہو تو اس میں بے برکتی اور ناکافی ہونے کی شکایت تو برابر لگی رہتی ہے، لیکن تقویٰ کی برکت سے اللہ تعالی بندے کی اس الجھن کو بھی ختم کردیتے ہیں، اور پرہیزگار بندوں پر زمین و آسمان کی ایسی برکتیں نازل فرماتے ہیں جس سے ان کو توافر اور تسلسل کے ساتھ روزی ملتی رہتی ہے، اور وہ فاقہ کشی اور تنگ دستی سے محفوظ رہتے ہیں، اللہ پاک کا ارشاد ہے: «وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» (الاعراف: 96) ‘‘اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور ڈرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے نعمتوں کے دروازے کھول دیتے۔’’
اس آیت کی تفسیر میں امام بغوی رحمہ اللہ نے برکات کا مطلب ‘‘تسلسل کے ساتھ رزق کا حاصل ہونا، بارشوں کی کثرت، غلّوں کی خوب پیداوار اور قحط و خشک سالی سے حفاظت’’ بیان کیا ہے۔

علم صحیح نصیب ہوتا ہے
نیز جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں اللہ تعالی ان کو اپنے فضل خاص کے ذریعہ ایسی معرفت اور باطنی طاقت عطا فرماتے ہیں جس کے ذریعہ وہ حق و باطل، غلط اور صحیح میں تمیز کرسکتے ہیں، اور پیچیدہ مواقع میں اصابت رائے کو پالتے ہیں، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: «إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا» (انفال: 29) ‘‘جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں اللہ تعالی ان کو (حق و باطل میں) فرق کرنے والا (علم) عطا فرماتے ہیں۔’’

مشکلات و پریشانیوں سے نکلنے کے اسباب فراہم ہوتے ہیں
انسانی زندگی مخالف و موافق حالات اور آلام و مصائب کا محور ہے، اور سفر حیات میں راحت و مشقت سہولت و صعوبت کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، نیز بسا اوقات انسان ایسے پر پیچ حالات کی گرفت میں آجاتا ہے کہ بظاہر ان کے حل سے وہ عاجز ہوتا ہے، لیکن تقویٰ کی برکت سے اللہ تعالی دشوار مواقع سے باہر نکلنے اور ناموافق حالات کی گردش سے بچنے کا راستہ بتلادیتے ہیں، اللہ تعالی فرماتے ہیں: «وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا» (طلاق:۲) ‘‘اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے مصائب سے نکلنے کی راہ بنادیتے ہیں’’۔

کاموں میں سہولت اور آسانی پیدا ہوتی ہے
انسان کو اپنے کاموں میں سہولت اور آسانی مطلوب ہوتی ہے، وہ چاہتا ہے کہ بآسانی اپنے مطلوب و مقصود کو پالے، اور بہ سہولت اس کو کامیابیاں نصیب ہوں، مگر زندگی میں درپیش صعوبتوں اور دشواریوں کے سبب کبھی وہ اپنی مراد کو حاصل کرلیتا ہے تو گاہے ناکام بھی ہوتا ہے، لیکن متقی بندوں کو اس مشقت سے بچانے کے لیے اللہ تعالی ایک غیرمعمولی تیسیر و سہولت ان کے کاموں میں فرمادیتے ہیں، اور خدا کے یہ خداترس بندے آسانی کے ساتھ اپنے کاموں کی تکمیل کرلیتے ہیں، قرآن پاک کا فرمان ہے: «وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا» (طلاق:۴) ‘‘اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتے ہیں’’۔
غرض ان سب دنیاوی ثمرات و برکات کے علاوہ تقویٰ تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کا نچوڑ اور ساری عبادتوں کی روح ہے، صرف تقویٰ ہی کے ذریعہ انسان اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے، تقویٰ کے بغیر نہ وہ کسی اُخروی منزل سے کامیابی کے ساتھ گزر سکتا ہے نہ دنیا میں چین و سکون کی زندگی بسر کرسکتا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو تقویٰ و پرہیزگاری کی دولت سے مالا مال فرمائے، اور اپنے منتخب و محبوب بندوں میں ہمیں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں