محبت کی بے تابیاں کچھ نہ پوچھو

محبت کی بے تابیاں کچھ نہ پوچھو

«لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ» (سورۃ التوبۃ: 128)
ترجمہ: لوگو! تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے جسے تمہاری بھلائی کی دُھن لگی ہوئی ہے جو مومنوں کے لئے انتہائی شفیق نہایت مہربان ہے۔

توضیح:
اس امت پر بلکہ کائنات کے ہر ذرہ پر قدوتنا، امامنا، قرار قلوبنا، فداہ ابونا و امنا حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے انگنت احسانات ہیں بالخصوص انسانوں پر، آپﷺ نے انسانیت کی ایک ایک نوع کو اس کا مقام و مرتبہ دلوایا، انسانوں پر مقام انسانیت کو واضح کیا، اپنی غایت رأفت و رحمت سے ہر فرد بشر کو فلاح و کامرانی کا راستہ بتلایا، جس نے راہ فلاح و ہدایت کو اپنا لیا آپ نے اس کو عزیزتر از جاں بنالیا اور جس نے اس راہ سے منہ موڑا عمر بھر اس کی ہدایت کے تعلق سے فکرمند رہے، اس کی گمراہی سے رنج اٹھایا، اپنی امت سے اتنی محبت کہ شاید کہ کوئی ماں اپنے بچے سے کی ہو، راتوں میں اٹھ کر بلبلانا، دعاؤں میں آہ و زاری کرنا، ہر نماز کے بعد اپنی امت کی مغفرت کی دعا کرنا، بستر پر کسی کروٹ قرار نہ پانا، اپنے دانت شہید کروانا، اپنی صاحبزادیوں کے بیک وقت نکاح سے خارج ہونے کو برداشت کرنا، جسم لا لہو لہان ہوجانا، لقمہ زہر کا دھوکے سے کھالینا، سحر کے اثرات سے بے قرار ہوجانا، راہ میں کانٹوں کا بچھا دیا جانا، حالت سجدہ میں اوجھڑی کا ڈالا جانا، اس پر آپ کی ننھی صاحبزادی کا ننھے ہاتھوں سے اس غلاظت کو صاف کرنا، پھر اپنے والد کی طرف اشک بار نگاہوں سے دیکھنا اس منظر پر آپ کے جی کا بھر آنا، کبھی منازعہ کا سامنا کرنا، کبھی مقاطعہ کے روح فرسا مظالم کا تحمل کرنا، وطن سے بے وطن ہونا۔۔۔ یہ سب کس لیے تھا؟ یقیناً اس امت کی ہدایت کی چاہت میں تھا اور جب بات اہل ایمان کی آجاتی ہے تو یہی چاہت حرص میں بدل کر دو آتشہ ہوجاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ اٹوٹ محبت تھی اپنوں سے بھی اور غیروں سے بھلا کیا کوئی ماں اپنی کوکھ سے جنم لینے والے بچے سے اتنی محبت کرتی ہے؟ کہ وہ اس کے لیے اس قدر قربانیاں دے، اللہ اکبر! کیا جگر اور کس قدر وسعت ظرفی رہی ہوگی، غالباً یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کا کمالِ ایمان موقوف ٹھہرا نبی سے اشد محبت پر، حلاوت ایمان کا احساس، شفاعت خاص کا حصول بھی اسی کا مرہونِ منت بنا۔
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
عشاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہی بے لوث قربانیوں کی وجہ سے گرویدہ ہو کر رسالت مآب ﷺ کی ناموس کے خلاف حبہ برابر ہرزہ سرائی اور یاوہ گوئی بالکل برداشت نہیں کرسکتے، صحابہ کرام کو اپنے پیارے حبیب ﷺ سے روگ کے حد تک محبت تھی، ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے مقام حدیبیہ پر عشاق رسول کے عشق و وارفتگی کے ایمان افروز، روح پرور مناظر دیکھے تو بے ساختہ شہادت دینے لگے کہ میں نے قیصر و کسریٰ کے درباروں میں بادشاہوں کا ادب و احترام ہوتے دیکھا ہے (اس مشاہدے کی بنا پر کہتا ہوں) کہ جس قدر اصحاب محمد، محمدﷺ کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں اس قدر کوئی قوم اپنے بادشاہ کی نہیں کرتی، یہ تو وہ حق ہے جو امت پر اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا لازم کیا گیا ہے؛ قرآن مجید نے امت پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چار حقوق ذکر فرمائے ہیں:
(۱) ان پر ایمان لے آؤ؛
(۲) ان کی تعظیم و توقیر بجا لاؤ؛
(۳) ان کی مدد کرو، (دین پر چل کر، ناموس کا دفاع کرتے ہوئے، اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کوشش کرتے ہوئے)
(۴) قرآن و سنت کی پیروی کرو۔
یہ چار حقوق ہی فوز و فلاح کے ضامن ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے راہ محبت میں عشق و مستی کی ایسی نادر مثالیں پیش کی ہیں جو غیرعشاق کی سمجھ سے وراء الوراء ہیں، آگ میں کودنے کے لیے وہ تیار، سمندر میں غوطہ زنی کے لیے وہ مستعد، زخم خوردہ ہیں پھر زخم کھانے کے لیے راضی، حکم ہجرت کے آگے سر اُن کا خم، نبی کا کردار اپنانے میں وہ پیش پیش، نبی کی گفتار کے وہ محافظ، فدا ہوں آپ کی کس کس ادا پر، ادائیں لاکھ اور بے تاب دل ایک، یہ گرویدگی، وارفتگی کیوں نہ ہو، آپ اپنے کمال میں باکمال، جمال میں بے مثال، نوال میں بے لامثال، جب آپ کی ذات ان تمام اسباب محبت میں بے نظیر ہے تو پھر یہ آرزو انگڑائی لیتی ہے۔
بحر فے می تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از شوق حضوری طول دادم داستانے را


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں