حسن اخلاق کی اہمیت

حسن اخلاق کی اہمیت

انسانی زندگی میں حسن اخلاق کو جو اہمیت و عظمت حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، ہر مذہب اور ہر دم کے لوگ؛ بلکہ دنیا میں بسنے والا ہر انسان اچھے اخلاق و کردار اور اچھے برتاؤ کا قائل ہے اور یقینا کسی کو بھی اس سے انکار نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ اخلاق خوبیوں کو حاصل کرنا فطرت انسانی کا اہم تقاضہ ہے، بلکہ بنیادی ضروریات میں سے ہے، اس کے بغیر انسان میں انسانیت اور حسن و خوبی نہیں آتی، یہی وہ عظیم اور قابل قدر جوہر ہے جس کے ذریعہ معاشرے میں آپسی بھائی چارہ، اتحاد و اتفاق، پیار و محبت، عفو و درگزر، رفق و نرمی اور توافق و ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے اور اسی طاقت کے ذریعہ آپسی اختلاف و انتشار، باہمی چپقلش و نجش، نفرت و بعد، بڑی سے بڑی عداوت و دشمنی، بغض و کینہ، اور ہر طرح کے تضادات دور کیے جاسکتے ہیں، حسن اخلاق درحقیقت انسان کا زیور اور اس کا حسن و خوبصورتی ہے، اسی کے ذریعہ اجتماعی و انفرادی زندگیوں میں توازن اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کے دلوں پر فتح حاصل کی جاتی ہے، جب کہ بدخلقی اور بدسلوکی سے تمام برائیاں، نفرت و عداوت، اختلاف و انتشار باہمی چپقلش و رنجش و غیرہ جنم لیتی ہیں اور اخلاق سے عاری ہوجانے کے بعد انسان لوگوں کی نظر میں عیب دار ہوجاتا ہے، اس کے پاس کوئی قابل قدر شئ اور کوئی ایسی امتیازی صفت باقی نہیں رہتی جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرے۔ گویا حسن اخلاق اور حسن سلوک انسانی زندگی کا قیمتی سرمایہ اور عظیم اثاث ہے۔

حسن اخلاق کا معنی اور اس کی حقیقت
آج کل لوگوں نے حسن اخلاق کے مفہوم کو بہت محدود اور خاص کردیا ہے اور وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ حسن اخلاق کا مطلب صرف لوگوں سے خندہ پیشانی اور بشاشت کے ساتھ ملنا، مہربانہ اور شفقت کا معاملہ کرنا، مسکرا کر بات کرلینا اور ہمدردی کے الفاظ کہہ دینا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اپنے اندر پوری انسانی زندگی کے سمیٹے ہوئے ہے، وہ صرف مذکورہ چیزوں ہی کو شامل نہیں ہے، بلکہ اس کے بہت سے شعبے ہیں: شیریں و میٹھے بول، عفو و درگزر، رفق و نرمی، شفقت و مہربانی، انس و محبت، اکرام و اعزاز، حلم و بردباری، حیاء و شرم، وسعت ظرفی و سخاوت، صلہ رحمی و حاجت روائی، تعاون و امداد، صبر و شکر، متانت و سنجیدگی، عدل و انصاف، امانت و دیانت، ماں باپ، بھائی بہن، عزیز و اقارب، بیوی بچے، یتیموں مسکینوں، پڑوسی، مسلمان اور غیرمسلم حتی کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک و حسن معاملہ و غیرہ، یہ تمام حسن اخلاق کے شعبے ہیں جن کی شریعت مطہرہ میں تعلیم دی گئی ہے اور ان تمام شعبوں میں اچھا رویہ اختیار کرنے والا ہی اچھے اخلاق کا حامل اور اس عظیم صفت سے متصف کہلانے کا مستحق ہوگا۔ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اخلاق کے مفہوم میں وسعت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
آج کل عرفِ عام میں ‘‘اخلاق’’ کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آئے، مسکرا کر اس سے ملے اور نرمی سے بات کرلے، ہمدردی کے الفاظ اس سے کہہ دے، بس اسی کو اخلاق سمجھا جاتا ہے۔ خوب سمجھ لیجیے کہ شریعت کی نظر میں ‘‘اخلاق’’ کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے، اس مفہوم میں بیشک یہ باتیں بھی داخل ہیں کہ جب انسان دوسرے سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے، اظہار محبت کرے اور اس کے چہرہ پر ملاقات کے وقت بشاشت ہو، نرمی کے ساتھ گفتگو کرے، لیکن ‘‘اخلاق’’ صرف اس طرز عمل میں منحصر نہیں ہے، بلکہ ‘‘اخلاق’’ درحقیقت دل کی کیفیات کا نام ہے، دل میں جو جذبات اٹھتے ہیں اور جو خواہشات دل میں پیدا ہوتی ہیں، ان کا نام اخلاق ہے۔ پھر اچھے اخلاق کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے جذبات میں اچھی اور خوشگوار باتیں پیدا ہوتی ہوں اور برے اخلاق کے معنی معنی یہ ہیں کہ اس کے دل میں خراب جذبات اور غلط خواہشات پیدا ہوتی ہوں۔ (اصلاحی خطبات، 85/15، میمن اسلامک پبلشر کراچی)

حسن اخلاق قرآن کی روشنی میں
اور حسن اخلاق کی قدر و قیمت اس وقت مزید دو چند ہوجاتی ہے جب ہم اسے اسلام اور شریعت کی نظر سے دیکھتے ہیں، کیوں کہ قرآن و سنت میں کی بڑی اہمیت وارد ہوئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا: [و انک لعلی خلق عظیم] [القلم: ۴] ترجمہ: اور بیشک آپ (ﷺ ) اخلاق (حسنہ) کے اعلی پیمانے پر ہیں۔ (بیان القرآن) اس آیت میں اللہ رب العزت نے دین اسلام، شریعت مطہرہ اور قرآنی تعلیمات کو خلق عظیم فرمایا ہے، گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی ایک ایک آیت کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمدشفیع دیوبندی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ خلق سے مراد دین عظیم ہے کہ اللہ کے نزدیک دین اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ آپ کا خلق خود قرآن ہے یعنی قرآن کریم جن اعلی اعمال و اخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ ان سب کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: کہ خلق عظیم سے مراد آداب القرآن ہیں یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں حاصل سب کا تقریبا ایک ہی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باوجود میں حق تعالی نے تمام ہی اخلاق فاضلہ بدرجہ کمال جمع فرمادیے تھے۔ (معارف القرآن، 532/8، مکتبہ معارف القرآن کراچی)
اسی طرح جب صحابہ رضی اللہ عنہم سے غزوۂ احد میں مقررہ اور متعینہ جگہ چھوڑنے کی جو خطا اور لغزش صادر ہوئی، جس کی وجہ سے جنگ کی فتح شکست سے بدل گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی اور جسمانی تکلیف بھی پہنچی اور غم اور صدمہ بھی لاحق ہوا، اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ پر اپنے طبعی اخلاق و عادات اور عفو کرم کی بنیاد پر کوئی ملامت اور سختی نہیں کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی شان کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا: [ فبما رحمة من اللہ لنت لھم و لو کنت ۔۔۔] [آل عمران: 159] ترجمہ: بعد اس کے خدا ہی کی رحمت کے سبب آپ ان کے ساتھ نرم رہے اور اگر آپ سخت زبان، سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے سب منتشر ہوجاتے، سو ان کو معاف کردیجے آپ ان کے لیے استغفار کیجیے اور ان سے خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے (تاکہ اس سے اور دونا ان کا جی کوش ہوجائے) [بیان القرآن] آپ ﷺ کے اس حسن اخلاق، عفو و درگزر اور نرم طبیعت ہونے کی وجہ سے صحابہ کو آپ ﷺ سے اور زیادہ محبت اور انسیت ہوگئی۔
اللہ تعالی حضور ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘‘خذ العفو۔۔۔الجاھلین’’ [الاعراف: 199] ترجمہ: اے محمدﷺ آپ معافی کو اختیار کیجیے، بھلی باتوں کا حکم کیجیے اور جاہلوں سے منھ پھیر لیجیے!
اللہ تعالی فرماتے ہیں: «فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» [المائدہ:13] ترجمہ: تو آپ (ﷺ) ان کو معاف کیجیے اور درگزر سے کام لیجیے۔ بیشک اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں: «وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ» [النور: 22] ترجمہ: اور چاہیے کہ لوگ معاف کریں اور درگزر سے کام لیں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھارے مغفرت فرمائے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں: «وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ» [لقمان:17] ترجمہ: اور برداشت کیجیے ان (تکلیفوں) کو جو آپ کو پیش آئیں۔ بیشک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں: «وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ » [آل عمران: 134] ترجمہ: اور غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے اور اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
مذکورہ بالا آیات اور اس طرح کی دیگر آیات میں اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو عفو و درگزر کرنے کا حکم فرمایا ہے، صابرین اور کاظمین غیض کی تعریف فرمائی ہے اور اسے ہمت کے کاموں میں سے بتایا ہے اور یہ سب حسن اخلاق کے مختلف شعبے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن اخلاق
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اخلاق حسنہ، حسن معاشرت، عمدہ طرز زندگی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے برتاو اور حسن کا عمدہ نمونہ اور عملی پیکر ہے، حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کی تعلیم، ترویج و اشاعت اور اس کی دعوت و تبلیغ کو اپنی بعثت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا: ‘‘بُعثتُ لِأُتَممَ حُسنَ الاخلاق’’ (الموطا للامام مالک، ص: 705) یعنی میری بعثت ہی اس لیے ہوئی ہے کہ میں حیاتِ انسانی میں اخلاق حسنہ کے فضائل کی تکمیل کروں اور اسے کمال اور عروج پر پہنچاؤں؛ چنانچہ آپ ﷺ نے امت کو اخلاق فاضلانہ و کریمانہ سے متصف اور مزین کرنے کے لیے عملی نمونہ بھی پیش کیا اور مختلف مواقع پر قولی تعلیم بھی دی۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ‘‘احیاء العلوم’’ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے محاسن اخلاق کو بڑے ہی عمدہ انداز میں بیان کیا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
آپ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ بردبار، سب سے زیادہ بہادر، سب سے زیادہ انصاف پسند، سب سے زیادہ پاکدامن اور سب سے زیادہ سخی تھے؛ یہاں تک کہ کوئی رات ایسی نہیں آتی جس میں آپ ﷺ کے پاس کوئی درہم دینار بچتا ہو (رات آنے سے ہی پہلے سب خرچ کر ڈالتے تھے) اور اگر کبھی کچھ درہم یا دینار بچ جاتا اور اسی حالت میں رات آجاتی تو آپ ﷺ اس وقت تک گھر تشریف نہ لے جاتے جب تک اسے کسی ضرورت مند کو دے کر فارغ نہ ہوجاتے۔ آپ ﷺ اتنے باحیا تھے کہ اپنی نظریں کسی چہرے پر نہیں جماتے تھے، خود ہی اپنا نعل مبارک سی لیتے، کپڑوں میں بیوند خود ہی لگا لیا کرتے، گھریلو کام کاج میں بیویوں کا تعاون فرماتے، غلام اور آزاد سب کی دعوت قبول فرماتے، ہدیہ قبول فرماتے خواہ دودھ کا ایک گھونٹ ہو یا خرگوش کی ران ہی کیوں نہ ہو، باندیوں اور مسکینوں کی حاجت روائی میں تکبر نہیں فرماتے، ولیمہ کی دعوت قبول فرماتے، بیماروں کی عیادت کرتے، جنازوں میں تشریف لے جاتے، فقراء کے ساتھ بیٹھتے، مسکینوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے، مزاح فرماتے، لیکن سچ بولتے، ہنستے؛ لیکن قہقہہ نہ لگاتے، بااخلاق لوگوں کی عزت کرتے، کسی پر ظلم نہ کرتے، معذرت خواہ کا عذر قبول فرماتے، کسی کو حقیر نہ جانتے اور نہ ہی کسی پر برتری اختیار فرماتے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالی نے آپ ﷺ کی ذات اقدس میں تمام محاسن اور خوبیان جمع کردی تھیں۔ (المستفاد: احیاء العلوم، 711/4، ط: دارلمنھاج السعودیۃ جدۃ)

حسن اخلاق احادیث کی روشنی میں
حضور ﷺ کے نزدیک حسن اخلاق کی اتنی اہمیت تھی کہ اپنے لیے حسن اخلاق کی دعائیں کیا کرتے تھے: ‘‘اللھم احسنت خلقی فاحسن خلقی’’ (رواہ احمد فی المسند، 403/1 )
ترجمہ: اے اللہ تو نے میری بناوٹ کو سنوارا ہے، تو میرے اخلاق بھی سنوار دے اور بدخلقی سے بچنے کی بھی توفیق مانگتے تھے اور یہ دعا کرتے۔ ‘‘اللھم انی أعوذبک من منکرات الأخلاق و الأعمال و الأھواء’’ (رواہ الترمذی، رقم الحدیث: 3591) ترجمہ: اے اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں برے اخلاق، برے اعمال اور بری خواہشات سے۔
آپ ﷺ نے متعدد احادیث میں بھی حسن اخلاق کی اہمیت و فضیلت کو امت کی تعلیم کے لیے بیان فرمایا ہے؛ چنانچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان من اخیرکم احسنکم خلقا۔ (رواہ البخاری، رقم: 6029) ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سب میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے قریب وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہونگے۔ (ترمذی، رقم: 2018)
ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ‘‘ان المومن لیُدرکُ بحسن خلقہ درجۃ الصائم القائم’’۔ (رواہ ابوداؤد، باب فی حسن الخلق، رقم: 4798) ترجمہ: مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزہ رکھنے والے اور رات بھر عبادت کرنے والے کے درجہ کو حاصل کرلیتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غیروں کے ساتھ برتاؤ
حضورصلی اللہ علیہ وسلم اپنوں سے تو پیار و محبت اور شفقت و ہمدردی کے ساتھ ملتے ہی تھے، جس کی بے شمار مثالیں ہیں، غیر بھی آپ کے رحم و کرم، عفو و درگزر اور خوش خلقی سے محروم نہ رہے۔ اس کی ایک عظیم مثال فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ کا کفار مکہ کے لیے عام معافی کا اعلان کرنا ہے؛ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ انداز میں شان و شوکت کے ساتھ داخل ہوئے، تو کفار و مشرکین جنھوں نے ہر قدم پر آپ کو اور آپ کے صحابہ کو تکلیفیں پہنچائی تھیں، جو آپ کے جانی دشمن تھے، آپ کے قتل کی تدبیریں اور سازشیں کرتے تھے اور جنھوں نے اسلام دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، وہ سہمے ہوئے تھے، انھیں سزائے موت کا یقین تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی یہی خیال کر رکھا تھا ‘‘الیوم یوم الملحمۃ’’ آج بدلے کا دن ہے، آج جوشِ انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے؛ لیکن تاریخ نے دیکھا اور اسے نوٹ کیا کہ رحمت دو جہاں کے پیکر اور محسن انسانیت ﷺ کی شفقت نبوی جوش میں آئی اور زبان رسالت سے یہ اعلان کردیا ‘‘لا تثریب علیکم الیوم و اذھبوا فأنتم الطلقاء’’ کہ جاؤ آج تم سب آزاد ہو، تمھیں معاف کردیا گیا، تم پر کوئی جرم نہیں ہے اور تم سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمنوں کے ساتھ برتاؤ اور حسن سلوک، جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔ اور اس سلوک اور برتاؤ کی وجہ سے فتح مکہ کے موقع پر بکثرت لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
اسلام اس پر کہ جس نے دشمنوں کو معاف فرمایا

سفر طائف میں لوگوں کا برتاؤ اور حضور ﷺ کا طرز عمل
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کے لیے طائف کا سفر کیا اور وہاں کے سرداروں کو توحید کی دعوت دی تو وہ لوگ بڑی بے رخی اور ذلت کے ساتھ پیش آئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگوں سے بھی گفتگو فرمائی؛ لیکن انھوں نے بجائے قبول کرنے کے یہ کہا کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ اور اسی پر بس نہیں کیا؛ بلکہ انھوں نے شہر کے اوباش لڑکوں کو پیچھے لگادیا کہ وہ آپ کا مذاق اڑائیں، تالیاں بجائیں اور پتھریں ماریں، حتی کہ آپ ﷺ کے دونوں جوتے خون کے جاری ہونے سے رنگین ہوگئے، ان سب کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غلط نہیں ٹھرایا، ان کو برا بھلا نہیں کہا؛ حتی کہ جب پہاڑوں کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور سلام کے بعد عرض کیا: اگر ارشاد ہو تو دونوں جانب کے پہاڑوں کو ملا دوں جس سے یہ سب درمیان میں کچل جائیں یا جو سزا آپ تجویز فرمائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے عقاب اور سزا تجویز نہیں کی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ مسلمان نہیں ہوئے، تو ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوں، جو اللہ کی عبادت کریں۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ ‘‘فضائل اعمال’’ میں سفر طائف کا قصہ نقل کرنے کے بعد فائدہ کے تحت لکھتے ہیں:
‘‘یہ ہیں اخلاق اس کریم ذات کے جس کے ہم لوگ نام لیوا ہیں کہ ہم ذرا سی تکلیف سے، کسی کے معمولی سی گالی دے دینے سے ایسے بھڑک جاتے ہیں کہ پھر عمر بھر اس کا بدلہ نہیں اترتا، ظلم پر ظلم اس پر کرتے رہتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں اپنے محمدی ہونے کا، نبی کے پیرو بننے کا، نبی کریم ﷺ اتنی سخت تکلیف اور مشقت اٹھانے کے باوجود نہ بد دعا فرماتے ہیں نہ کوئی بدلہ لیتے ہیں’’۔ (فضائل اعمال، 23/1، ط: ادارہ دینیات ممبئی)

ایک بدزبان یہودی کا واقعہ
زید بن سعنہ یہودی سے کسی موقع پر آپ ﷺ نے قرض لیا تھا، وہ یہودی وقت مقررہ سے تین دن پہلے ہی قرض کا تقاضہ کرنے لگا اور بڑے گستاخانہ انداز میں شانہ مبارک سے چادر کھینچتے ہوئے بدزبانی شروع کردی اور کہنے لگا تم بنی عبدالمطلب بڑے وعدہ خلاف ہو۔ اس کو بدکلامی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہیں موجود تھے ، ان سے برداشت نہیں ہوا، انھوں نے جھڑک کر اسے روکنا چاہا، تو حضور ﷺ نے انھیں روک کر فرمایا: اے عمر! تم نے ہم دونوں سے وہ طرز عمل نہیں اختیار کیا جو ہونا چاہیے تھا، مناسب یہ تھا کہ تم اسے جھڑکنے کے بجائے مجھے ادائے قرض اور وعدہ پورا کرنے کی تلقین کرتے اور اسے حسن طلب اور نرمی سے تقاضا کرنے کی ہدایت کرتے، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ یہودی کا قرض ادا کریں اور اسے مزید بیس صاع جو دیں۔
اس طرز عمل اور عفو و درگزر کو دیکھ کر یہودی بہت متاثر ہوا اور مسلمان ہوگیا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ یہودی کہا کرتا تھا کہ نبی آخر الزمان میں مجھے ساری نشانیاں معلوم تھیں؛ لیکن دو باتوں کو میں نے آزمایا نہیں تھا: ایک یہ کہ آپ کا حلم آپ کے غصہ سے زیادہ ہے، دوسرے یہ کہ ان پر جتنی سختی کی جائے اتنی ہی نرمی اور مہربانی بڑھتی چلی جاتی ہے، ان دو علامتوں کو بھی میں نے دیکھ لیا، اب آپ کی رسالت پر مجھے کوئی شک نہیں۔ (مستفاد: المہذب: 2178/4)

عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ
سیرت ابن ہشام میں پورا قصہ ابن اسحاق رحمہ اللہ کے حوالے سے مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ مذہب عیسائیت کے پیروکار تھے، اپنے قبیلہ کے سردار تھے اور قبیلہ بنی بے سے ایک چوتھائی مال غنیمت وصول کرکے گزر بسر کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ جب کسی نے مجھے محمد بن عبداللہ (حضور ﷺ) کے بارے میں بتایا، تو ان کا نام سنتے ہی مجھے شدید نفرت محسوس ہوئی اور جب ان کی فوجیں مدینہ کے اردگرد علاقوں میں نکلنے لگیں، تو مجھے فکر ہونے لگی اور میں نے اپنے ایک عربی غلام سے کہا: تیرا بھلا ہو! میرے لیے موٹے تازے تیز رفتار اونٹوں کا ایک گلہ تیار رکھنا، جوں ہی محمد (ﷺ) کے لشکروں کی خبر پہنچے، مجھے مطلع کردینا۔ ایک دن وہ دوڑتا بھاگتا ہوا میرے پاس آیا اور کہا: محمد (ﷺ) کے لشکر آگئے ہیں، یہ سنتے ہی میں اہل و عیال کو اونٹ پر بٹھا کر اور ضروری ساز و سامان لے کر ملک شام کی جانب اس خیال سے چل دیا کہ وہ میرے ہم مذہب ہیں اور بھگدڑ میں میری بہن سفانہ پیچھے رہ گئی جو روانگی کے وقت کسی ضروری کام سے کہیں گئی ہوئی تھی۔
اسلامی فوج بنوطے کو شکست دے کر بہت سی عورتوں اور بچوں کو قید کرکے مدینہ لے گئی، ان قیدیوں میں میری بہن سفانہ بنت حاتم بھی تھی اور ان سب کو مسجد کے قریب احاطہ میں رکھا گیا۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے، تو وہ کھڑی ہوئی اور کہا: ‘‘یا رسول اللہ! ھلک الوالد و غاب الوافد فامنن علی من اللہ علیک’’ یعنی یا رسول اللہ! میرا باپ فوت ہوگیا اور سرپرست بچھڑ گیا، آپ مجھ پر احسان فرمائیں، اللہ آپ پر احسان فرمائیں گے۔ آپ ﷺ نے پوچھا تمھارا سرپرست کون ہے، انھوں نے جواب دیا: عدی بن حاتم۔ آپﷺ نے پوچھا: کیا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے دور بھاگتا ہے؟ یہ کہہ کر آپ ﷺ چلے گئے، دوسرے دن بھی جب بھی آپ ﷺ کا قیدیوں کے پاس سے گزر ہوا، تو مذکورہ سوال و جواب ہوئے اور تیسرے دن جب سفانہ بنت حاتم نے درخواست دہرائی تو حضور ﷺ نے فرمایا: میں نے تم پر احسان کیا اور تم سب کو آزادی دے دی ہے، جاتے وقت انھوں نے آپ ﷺ کو اطلاع دی تو آپ ﷺ نے جوڑا عنایت فرمایا، سواری اور سفر خرچ و غیرہ دے کر اعزاز و اکرام کے ساتھ رخصت کیا۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اپنی بہن کے حوالے سے بہت پریشان تھا اور اسی فکر میں رہتا تھا، ایک دن وہ شام کے قافلے کے ساتھ میرے پاس ملک شام آپہنچی اور پہنچتے ہی مجھے کو سنا شروع کردیا کہ قطع رحمی کرنے والے ظالم تو نے اپنے بال بچوں کے ساتھ راہ فرار اختیار کرلی اور اپنے باپ کی بیٹی اور اس کی عزت کو چھوڑ آیا۔ معافی تلافی کے بعد میں نے اس سے پوچھا: تم نے اس شخص (محمد ﷺ) کو کیسا پایا اور اس کے بارے میں تمھارے کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا میری رائے یہ ہے کہ تم فوراً اس کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ۔ اگر یہ شخص اللہ کا نبی ہے، تو اس کی جانب جلدی جانا باعث فضیلت ہے اور اگر وہ بادشاہ ہے، تو لوگوں کی قدر کرنا جانتا ہے، اس کے یہاں عزت والوں کو ذلیل نہیں کیا جاتا اور تمہارا مقام و مرتبہ ہر ایک جانتا ہے۔
میں نے اس کی رائے پر مدینہ کا رخ کیا۔ مدینہ پہنچا تو حضور ﷺ مسجد میں تشریف فرماتھے، میں نے سلام کیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا: کون؟ میں نے کہا: عدی بن حاتم طائی۔ آپ ﷺ نے میرا پر جوش استقبال کیا اور مجھے اپنے گھر لے گئے، راستے میں ایک کمزور بوڑھی عورت نے انھیں روک لیا، آپ ﷺ دیر تک اس کی باتیں سنتے رہے اور وہ اپنی مشکلات اور ضروریات بیان کرتی رہی۔ میں نے اپنے دل میں کہا: خدا کی قسم یہ بادشاہ تو نہیں ہیں ۔ پھر گھر پہنچ کر آپ ﷺ نے کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا چمڑے کا گدا میری طرف بڑھایا اور فرمایا: اس کے اوپر بیٹھ جاؤ، میں نے کہا: نہیں، آپ اس پر تشریف رکھیں؛ مگر آپ نے حکم دیا: تم اس پر بیٹھو۔ میں گدے پر بیٹھ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر تشریف فرما ہوئے۔ اب میں نے پھر دل میں کہا: خدا کی قسم یہ تو بادشاہوں والا معاملہ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عدی! کیا تو رکوسی (ایک مذہبی گروہ) فرقہ سے تعلق نہیں رکھتا؟ میں کہا: جی ہاں! میں رکوسی ہوں۔ آپ ﷺ کا دوسرا سوال تھا۔ کیا تم اپنی قوم سے مال غنیمت کا چوتھا حصہ وصول نہیں کرتے تھے؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وصولی تمھارے دین کے مطابق حلال نہ تھی؟ میں نے کہا: جی! آپ کا فرمان درست ہے۔ اب میں بخوبی جان گیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں؛ کیوں کہ جو باتیں عربوں کو بالکل معلوم نہیں تھیں، آپ ان سے واقف ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا کہ اے عدی! شاید دین اسلام میں داخل ہونے سے یہ امر مانع ہے کہ مسلمانوں کی مالی حالت بہت کمزور ہے؟ خدا کی قسم مال و دولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ دینے ولاے سبھے ہوں گے اور لینے والا کوئی نہ ہوگا اور شاید یہ بات بھی مانع ہو کہ یہ لوگ تعداد میں بہت کم ہیں اور پوری دنیا ان کی دشمن ہے؟ خدا کی قسم دین کا غلبہ اس طرح ہوگا کہ تو سنے گا اور دیکھے گا کہ ایک خاتون زیورات سے لدی تن تنہا اپنے اونٹ پر سوار ہو کر قادسیہ سے سوار ہوگی اور حج بیت اللہ کے لیے مکہ کا سرف کرے گی اور اسے کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ اسے عدی! ممکن ہے کہ تو نے سوچا ہو دنیا میں بہت سے بادشاہ اور سلاطین ہیں اور ان لوگوں میں کوئی تاجدار نہیں ہے۔ بخدا تو سن لے گا کہ بابل کے سفید محلات ان لوگوں کے ہاتھوں فتح ہوجائیں گے، قیصر و کسری ہلاکت سے دوچار ہوں گے اور کوئی کسری پھر اس تخت پر نہ بیٹھے گا۔
عدی کہتے ہیں یہ سن کر میں نے اسلام قبول کرلیا اور وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے دو باتیں دیکھ لی ہیں: بابل کے محلات بھی فتح ہوچکے ہیں اور قادسیہ سے تنہا سفر کرنے والی عورت بھی میں نے دیکھی ہے، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تیسری بات بھی ضرور پوری ہوگی اور صدقہ و خیرات لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ (مستفاد: سیرت ابن ہشام، قدوم عدی بن ابی حاتم، 220/4، ط: دارالکتاب العربی)
اس پورے واقعہ پر نظر ڈالیں تو اس میں حضور ﷺ کے حسن اخلاق کی حسین اور خوبصورت تصویر موجود ہے کہ آپﷺ نے حضرت عدی رضی اللہ عنہ کی بہن کے ساتھ کیسا اچھا برتاؤ کیا کہ انھیں صرف آزاد ہی نہیں کیا؛ بلکہ اعزاز و اکرام کے ساتھ جوڑا عنایت فرما کر اور سواری اور سفر خرچ کا انتظام کرکے رخصت کیا۔ پھر حضرت عدی رضی اللہ عنہ کی آمد پر ان کا پرجوش استقبال کیا اور صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ انہیں اپنے گھر لے گئے اور خود زمین پر بیٹھ کر انھیں گدے پر بٹھایا۔ آپ ﷺ کے انھیں اخلاق اور برتاؤ سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلام کا دامن تھاما۔
غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر طرح کے افراد کے ساتھ حضور ﷺ کے حسن اخلاق اور عمدہ حسن معاشرت کی مثالیں بھری پُری ہیں؛ حتی کہ بے زبان جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی اچھے سلوک کی تعلیم دی ہے اور مختلف قسم کی احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بھی اسی کی تعلیم دی ہے؛ چنانچہ اسی تعلیم کی بدولت اور مسلمانوں کے عمدہ اخلاق اور حسن معاشرت کو دیکھ کر بے شمار لوگ دامن اسلام میں داخل ہوئے، اور حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور یہ ایک بدیہی اور واضح حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں اسلام ی نشر و اشاعت میں اچھے اخلاق کا بڑا اہل رول ہے؛ لیکن بدقسمتی سے آج مسلمانوں کے اندر سے یہ صرف بالکل معدوم سی ہوگئی ہے۔ تاجر ہو یا کاشتکار، ڈاکٹر ہو یا انجینئر، استاد ہو یا شاگرد، ملازم ہو یا نوکر، مزدور ہو یا مستری اور مرد ہو یا عورت سبھی کسی نہ کسی درجہ میں بداخلاقی کا شکار ہیں؛ جب کہ حسن خلق فطری تقاضہ ہونے کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا بھی بہت اہم حصہ ہے اور بے شمار فضائل قرآن و احادیث میں خوش خلقی پر وارد ہوئے ہیں۔ دوسری طرف غیروں کے اخلاق، سلوک اور رویے میں نسبتاً بہت بہتری ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ؛ بلکہ مسلمان بھی غیروں کی دکانوں پر سامان لینے کے لیے جانا اور ان سے معاملات کرنا پسند کرتے ہیں، جب کہ مسلمانوں کی بدخلقی کی وجہ سے مسلمان بھی ان کی دکانوں سے کتراتے ہیں اور ان سے معاملات کرنا گوارہ نہیں کرتے؛ چنانچہ غیرلوگ ترقی کرتے جارہے اور مسلمان محنت کرنے کے باوجود بھی دن بدن پستی کی طرف جارہے ہیں۔
اور مسلمانوں کی اسی بدخلقی، فریب، دھوکہ دہی، خیانت اور معاملات و غیرہ میں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام سے بدظن ہو رہے ہیں، گویا مسلمان اسلام کی طرف دعوت دینے کے بجائے جانے انجانے لوگوں کے قبول اسلام میں رکاوٹ بن رہے ہیں اوریہ کتنی بڑی بدنصیبی اور کتنا بڑا جرم ہے!!۔
اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو اور تمام امت مسلمہ کو خوش خلقی، حسن اخلاق، حسن معاملہ، صلہ رحمی، وسعت ظرفی اور حسن معاشرت جیسی عظیم صفات سے متصف و مزین فرمائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں انہیں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے! آمین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں