مولانا عبدالحمید:

دنیا کی حکومتیں اسرائیل کو روکیں

دنیا کی حکومتیں اسرائیل کو روکیں

ممتاز عالم دین نے اپنے تازہ ترین بیان میں غزہ پر اسرائیلی یلغار اور نہتے شہریوں کے قتل عام کو انسانیت کے خلاف جنایت یاد کرتے ہوئے سب مسلم اور غیرمسلم ممالک سے مطالبہ کیا اسرائیل کو روکنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ موقف اپناتے ہوئے عدل و انصاف کا خیال رکھیں اور حقایق سے آنکھیں نہ چھرائیں۔ ہم مسلمان صرف کسی کے مسلمان ہونے کو دیکھیں نہ ہی یہودی صرف یہودی ہونے کو دیکھیں، اس سے قطع نظر کہ غزہ کے باشندے مسلمان ہیں، وہ انسان ہیں اور جو کچھ غزہ میں جاری ہے کسی بھی انسان کے لیے جس کا ضمیر بیدار ہو، قابل برداشت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسرائیلی حکام اور فوج کا دعویٰ ہے کہ ہم پر ظلم ہوا ہے؛ جو کچھ ہوا قابل قبول نہیں، لیکن اب تم خود جرم کا ارتکاب کررہے ہو۔ کیا بین الاقوامی قوانین، عقل اور منطق تمہیں اجازت دیتے ہیں کہ اس طرح تم لوگوں کا قتل عام کررہے ہو؟! اگر تم سے ڈیڑھ سو مارے گئے ہیں تو دوسری جانب دس ہزار کے قریب افراد کی جانیں گئی ہیں جن کی اکثریت بچے اور خواتین ہیں۔چار ہزار کے قریب صرف بچے تمہاری بمباریوں میں شہید ہوئے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اسرائیل کا کہنا ہے حماس ہمارا دشمن ہے، لیکن تم کس قانون اور اجازت کے بنا پر کچھ حماس فورسز کی خاطر ایک ایسے شہر کو مکمل طورپر تباہ کررہے ہو جس میں بیس لاکھ سے زائد لوگ آباد ہیں جو اکثر عام شہری ہیں۔ تم سب کو ماررہے ہو اور ان کی زندگی اور جائیداد سب تباہ کررہے ہو۔ تمہارا واسطہ کسی حکومت سے نہیں ایک گروہ سے ہے لیکن تم خواتین، بچوں اور نہتے شہریوں کا قتل عام کررہے ہو۔ ایسے لوگوں کو مارنا چاہے مسلمان ہوں یا یہودی یا کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں، غلط ہے اور یہ ایک انسانی المیہ اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
انہوں نے مزید کہا: مجھے حیرت ہے کہ دنیا کی حکومتیں کیوں اب تک اسرائیل کو لگام لگانے اور اس کا ظلم روکنے میں ناکام ہوئی ہیں؟مسلم ممالک سمیت سب علاقائی اور یورپی ممالک کہاں ہیں اور وہ کیوں اسرائیل کو منع نہیں کرتے؟ امریکا جہاں اقوام متحدہ سمیت بہت ساری انسانی حقوق کی تنظیمیں وہاں موجود ہیں اور ہمیشہ انسانیت سے محبت اور انسانی حقوق کی باتیں کرتاہے،جو اسرائیل کو سپلائی کرتاہے اور اس کی حفاظت کی خاطر جہازبردار بیڑا بھیجتاہے، وہ کیوں اسرائیل کا ہاتھ نہیں روکتا جو عام شہریوں کو ہلاک کررہاہے۔ دنیا کی حکومتوں کو چاہیے تھا اس سے قبل ہی اسرائیل کو منع کرتیں اور اجازت نہ دیتی کہ حالات یہاں تک پہنچ جاتے۔ اب حالات انتہائی حساس موقع پر پہنچ چکے ہیں اور بڑی تباہی پیش آئی ہے، لہذا اسرائیل کو روک کر سیاسی طریقوں سے مسائل حل کرائیں۔ ان مسائل کو بات چیت اور مذاکرات سے حل کرانا چاہیے۔

فلسطین کی مستقل اور آزاد ریاست جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو بہترین حل ہے
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: دو جمعے قبل بندہ نے کہا پچھہتر سال ہوچکے ہیں کہ ارضِ فلسطین میں اختلافات چل رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی بیسیوں اور سینکڑوں قراردادوں کو اسرائیل نے نظرانداز کیاہے۔ اقوام متحدہ کی ایک قرارداد نے تجویز کی دو مستقل ریاستیں بنانے سے موجودہ اختلاف کا خاتمہ ہوسکتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: حال ہی میں بعض عرب ممالک نے اقوام متحدہ میں موجود حالات اور جنگ کے خاتمے کے لیے تجویز پیش کی ہے جس میں دو مستقل ریاستی حل اور آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل پر زور دیاگیاہے جس کے دارالحکومت یروشلم ہو۔اقوام متحدہ کے اکثر ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیاہے اور خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیاہے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: بندہ نے بھی یہی کہا تھا کہ بہترین حل دو مستقل ریاستوں کی تشکیل ہے۔ لیکن کچھ افراد برداشت نہ کرسکے اور انہوں نے بندہ کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی آخری قرارداد کا مضمون یہی تھا جسے ہمارے ملک نے بھی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے کہا: بندہ دنیا کی تمام حکومتوں اور ان سب افراد سے جو انسانی حقوق کے لیے متفکر رہتے ہیں مطالبہ کرتاہے کہ اسرائیل کو اپنے حال پر مت چھوڑیں؛ اسرائیلی حکام کو سمجھائیں کہ اس بربریت اور جرائم کو بند کرے۔ اللہ تعالیٰ فلسطینی عوام کے مسائل ہمیشہ کے لیے حل کرائے۔

حکومتیں فراخدلی کا مظاہرہ کرکے پوری قوم کو دیکھ لیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ‘‘اللہ’’ اور ‘‘قوم’’ کو دو اہم محور یاد کرتے ہوئے کہا: جیسا کہ بندہ پہلے بھی عرض کرچکاہے دنیا کی حکومتوں کو چاہیے اپنے سب امور میں اللہ اور قوم کے دو محوروں پر بھروسہ کرکے آگے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاہے کہ اللہ اور تابعدار مومنین ہی تمہارے لیے کافی ہیں۔ ہم بھی اور حکام بھی اللہ کو مدنظر رکھیں اور قوم کو بھی نظرانداز نہ کریں۔ قوم کو دیکھنا اور اس کے مطالبات پر توجہ دینا اور جمہور کی رضامندی کو اہمیت دینا بہترین پالیسی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: حکومتیں جب تک برداشت نہ دکھائیں اور فراخدلی کا مظاہرہ نہ کریں، وہ پوری قوم کو نہیں دیکھ سکتی ہیں۔ تنگ نظری سے عوام ناراض ہوجاتے ہیں اور مسائل پیش آتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ اور صدر اسلام کے حکمرانوں کا شیوہ عوام کے ساتھ عفو کا معاملہ تھا۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں مہاجرین کو نصیحت کی کہ مہاجرین سے کوئی غلطی یا کوتاہی ہوئی تو برداشت کرکے معاف کریں۔اسی طرح اہل ذمہ اور غیرمسلموں کے حقوق کا خیال رکھیں جو مسلمانوں کی حکومت میں رہتے ہیں۔

آزادی اور انصاف ایرانی قوم کے اصل مطالبات ہیں
مولانا عبدالحمید نے ایران کے مختلف بحرانوں کو تنگ نظری کا نتیجہ یاد کرتے ہوئے کہا: افسوس سے کہنا پڑتاہے ملک کے مسائل کی جڑ تنگ نظری میں ہے۔ جب نگاہیں بلند ہوں، تو وہ سب کو خود سے قریب کرتاہے، ان سے کام لیتاہے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ لیکن جب نگاہیں محدود ہوں، تو ایسے افراد صرف اپنی ہی برادری کے افراد کو دیکھتے ہیں جو ہم خیال ہیں، حالانکہ وہ افراد جو کچھ اور سوچتے ہیں، وہ بھی ایرانی قوم ہی کے حصے ہیں اور انہیں برداشت کرکے انہیں بھی دیکھنا چاہیے۔ صرف ہم خیال لوگوں کو ساتھ رکھنے اور ان کی باتیں ماننے سے دیگر لوگ ہاتھ سے چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ملک میں مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں اور عوام سخت معاشی بحران سے دوچار ہیں۔ حکام بھی ان مسائل کے حل سے عاجز نظر آرہے ہیں اور کوئی روشن افق نظر نہیں آتا۔کوئی بنیادی قدم نہیں اٹھایاگیاہے اور مسائل جوں کے توں باقی ہیں۔ ان مسائل کا حل بلند نگاہوں اور تغیر لانے سے ممکن ہے۔سب کے ساتھ بات چیت کریں اور قابل افراد ہی کو عہدوں پر بٹھائیں جو کہ مسائل حل کرانے کی قدرت رکھتے ہیں۔
ممتاز عالم دین نے کہا: آزادی، حریت اور انصاف بہت اہم ہیں جو ایرانی قوم کے اصل مطالبات ہیں۔ عدل و انصاف قائم کرکے موجودہ امتیازی رویوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ اظہارِ رائے کی آزادی سب کا حق ہے۔ تنقید برداشت کریں تاکہ صحافی اور لکھاری حقایق کو پیش کرسکیں۔ سیاسی قیدی اور جیلوں میں بند صحافیوں کی رہائی ایک عوامی مطالبہ ہے۔ملک میں اس وقت یکجہتی اور اتحاد کی فضا قائم ہوجاتی ہے جب سب عوام کو دیکھاجائے اور ان کے مطالبات پر توجہ دی جائے۔

پونک نمازخانہ کھلوانا سب کا مطالبہ ہے
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطبہ جمعہ میں تہران کے علاقہ پونک میں اہل سنت برادری کے نمازخانے کی تعطیلی اور سرکاری قبضہ سے تنقید کرتے ہوئے کہا: ان حالات میں جب لوگ غزہ کی صورتحال کی وجہ سے پریشان ہیں تم نے چارسو پانچ سو کے ایک نمازخانے کو برداشت نہ کرسکے اور اسے بند کرایا۔ سنی برادری سمیت سب حریت پسند ایرانی اس واقعے سے سخت شکایت کرتے ہیں۔ کاش تم اجازت دیتے ان دنوں میں ہم غزہ کے مظلوموں کی بات کریں اور مظلوم نمازیوں کی پکار سے بات کرنے پر مجبور نہ ہوجائیں۔
انہوں نے مزید کہا: موجودہ حالات میں جب سیاستدانوں کے غلط رویوں اور پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں دین بے زاری بڑھ چکی ہے اور ایک اسلامی ملک میں عوام کو نماز کی ترغیب دینا ضروری ہے، جو لوگ نمازخانہ اور جائے عبادت کو بند کراتے ہیں وہ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ اس نمازخانے کو دوبارہ فعال کرانا چاہیے۔
ممتاز سنی عالم دین نے اپنے خطاب کے آخر میں زاہدان کے آس پاس بستیوں میں عوام کے گھروں کو مسمار کرنے پر تنقید کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا بے گھر عوام کو زمین الاٹ کی جائے تاکہ وہ اپنے لیے گھر بناسکیں۔
مولانا عبدالحمید نے خاش کے شہدا کی یاد تازہ کرتے ہوئے زاہدان اور خاش کے خونین جمعوں کے قاتلوں اور ذمہ داروں کے ٹرائل کو عوامی مطالبہ یاد کیا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں