ممتاز عالم دین نے بیس اکتوبر کے خطبہ جمعہ میں فلسطین میں جاری لڑائیوں اورانسانی جانوں کے ضیاع پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خطے کی سب حکومتوں اور عالمی طاقتوں سے اپیل کی فوری جنگ بندی کے لیے کردار ادا کریں۔
غزہ کے حالات ‘انسانی المیہ’ بننے والے ہیں
زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: آج کل پوری دنیا دیکھ رہی ہے فلسطین اور غزہ میں کیا ہورہاہے اور کیسے ہزاروں خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ انسانوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں جو ایک انسانی المیہ کی صورتحال پیش آنے والی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ شروع میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں یہودیوں اور اسرائیلیوں کا نقصان ہوا، لیکن اس کے بعد پیش آنے والے واقعات خطرناک سمت میں جارہے ہیں۔ ایک طرف ایک ایسی قوت ہے جس کی پشت پناہی پوری دنیا کرکے اپنے سب وسائل سمیت اس کے ساتھ کھڑی ہے اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جن کے پاس اتنی قوت اور وسائل نہیں؛ اس کے انفراسٹکچر اور شہر تباہ ہورہے ہیں۔ غزہ اکثر عام شہری ہی شہید ہورہے ہیں جو ایک بڑا انسانی نقصان ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: غزہ کے تلخ اور المناک واقعات سے سب آنکھیں تاریک اور دل غمزدہ ہوتے ہیں۔ بارش کی طرح شہر پر بم برس رہاہے جہاں گنجان آبادی ہے اور لوگ بے گھر ہورہے ہیں؛ کوئی بھی حکومت انہیں اپنے ہاں جانے نہیں دیتی۔ پانی، بجلی، روٹی اور اشیائے خوردونوش کی رسد اہلیانِ غزہ پر بند ہے اور اس شہر کی آبادی تباہ ہورہی ہے۔ صرف شہر کے محاصرہ ہی سے بہت سارے لوگ بھوک سے مرجائیں گے۔
غزہ میں لڑائی جاری رہے نقصان اسرائیل کا ہوگا
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ایک لمبا عرصہ ہوا تھا کہ مسلم اور غیرمسلم ممالک نے فلسطین کو بھول چکے تھے اور اس کے حالات کے بارے میں بے حسی کا مظاہرہ کررہے تھے، لیکن اب جو واقعات پیش آئے ہیں یہ سب انسانوں کے لیے الارم ہیں کہ ان لوگوں کی فکر کریں جو فلسطین میں رہتے ہیں۔ مسلم اور عرب ممالک اور وہ سب حکومتیں جو انسانی حقوق کا درد رکھتی ہیں اس مسئلے کے حل سے غافل نہ رہیں اور اس جنگ کو ختم کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش سے گریز نہ کریں۔
اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس جنگ کے جاری رہنے کے حوالے سے اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا: اگر یہ جنگ جاری رہے، اس کا نقصان اسرائیل ہی کو پہنچے گا؛ چونکہ دنیا کے لوگ دیکھ رہے ہیں غزہ میں کیا ہورہاہے اور فلسطینیوں کی تباہی دیکھ کر افکار عامہ اور دنیا کے لوگ یہ برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے جو افراد وہاں مارے جارہے ہیں دونوں گروہ انسان ہیں اور انسان دوستی کا تقاضا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کریں۔ غزہ کے باشندے انسان ہیں اور اس طرح ان کا قتل عام اور نسل کشی نہیں ہونی چاہیے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: غزہ میں جاری بمباری کی مذمت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم حکومتوں اور تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسیروں کی آزادی اور اس تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور عوام کو بچانے کے لیے کوئی درست حل اور عادلانہ فیصلہ پیدا کریں۔
غزہ اسپتال پر حملہ خوفناک تھا
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب میں غزہ کے المعمدانی اسپتال پر حملہ اور سینکڑوں افراد کی شہادت اور زخمی ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: غزہ کے ایک اسپتال پر حملہ سے بڑا جانی نقصان ہوا ہے۔ ہم اس جنایت کی پرزور مذمت کرتے ہیں جو انتہائی خوفناک حادثہ تھا۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارا طریقہ اعتدال پر مبنی ہے، اور مذکورہ حادثے کے ذمہ داروں کے حوالے سے دونوں جانب ایک دوسرے پر الزام لگارہے ہیں، عالمی برادری سے ہماری درخواست ہے کہ غیرجانبداری سے اچھی طرح اس واقعے کی چھان بین کریں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افکار عامہ کے نزدیک اسرائیل ہی قصوروار ہے اور فلسطینیوں کے پاس ایسے مخرب اور تباہ کن اسلحہ نہیں جو بڑے پیمانے پر درجنوں افراد کو موت کی نیند سلادے۔ لہذا اس مسئلے کی غیرجانبدارانہ تحقیق ہونی چاہیے اور عالمی برادری بے حسی کا مظاہرہ نہ کرے۔
بانی انقلاب کے حکم کے باوجود اہل سنت کو تہران میں مسجد کی تعمیر سے روک دیا گیا
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں تہران میں اہل سنت کے مرکزی نمازخانہ (پونک) کے لیے پیش آنے والے مسائل پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ گزشتہ ہفتہ تہران میں اہل سنت کے ایک نمازخانے کے لیے ایک حیرت انگیز، دل دہلا دینے والے اور پریشان کن واقعہ پیش آیا ۔ کئی سالوں سے پونک کے نمازخانہ میں نماز قائم ہورہی تھی کہ سرکاری افسروں نے نمازخانہ لاک کرکے عمارت کا ایک حصہ مسمار کیا اور اس کے کاغذات بھی دیگر افراد کے نام منتقل کیے۔
انہوں نے تہران میں اہل سنت کے لیے مسجد تعمیر کروانے کی کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جب مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ تہران کے شہید رجائی اسپتال میں زیرِ علاج تھے، وہیں بانی انقلاب بھی علاج کے غرض سے موجود تھے۔ انہوں نے مولانا عبدالعزیز کی عیادت بھی کی اور دوسروں کو بھی ان کی عیادت کو جانے کے لیے کہا۔ مولانا عبدالعزیز نے سپریم لیڈر سے کہا کہ تہران سنی برادری کی کافی تعداد رہتی ہے اور ان کے پاس کوئی جائے عبادت نہیں؛ لہذا انہیں مسجد تعمیر کروانے کے لیے کوئی زمین الاٹ کیاجائے۔ وقت کے سپریم لیڈر نے بھی اسے منظور کیا اور سرکاری ٹی وی کی موجودہ جگہ ایک زمین بھی الاٹ کی گئی جس کی خبر سرکاری ریڈیو اور بعض اخبارات میں شائع بھی ہوئی۔ سنی رہ نماؤں نے متعلقہ اداروں سے رجوع کیا اور کام کسی حد تک آگے بڑھا، لیکن بعض چھپے ہاتھوں نے رکاوٹیں کھڑی کرکے یہ سلسلہ روک دیا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: انتہاپسند اور متعصب افراد جو دوسروں کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں، انہوں نے مسجد کی تعمیر روک دی۔ رکاوٹیں کھڑی کرنے والے معمولی لوگ نہ تھے، لیکن ہمیں معلوم نہیں یہ کہاں سے آئے کہ کوئی مسجد اہل سنت کو تہران میں نہ مل جائے۔
تہران میں اہل سنت کی مسجد کا فائدہ انقلاب اور حکومت کو پہنچ جاتا
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: اب تہران میں اہل سنت کی کوئی مسجد نہیں، حالانکہ یہ ان کا مسلمہ حق ہے۔ جب تم کہتے ہو شیعہ اور سنی بھائی بھائی ہیں اور ان کا دین، قرآن، پیامبر اور قبلہ ایک ہی ہے، پھر کیوں اپنے بھائیوں کو مسجد تعمیر کروانے کے اجازت نہیں دیتے ہو؟ اگر یہ باتیں محض نعرے نہیں ہیں اور ان میں کوئی حقیقت بھی ہے، پھر چاہیے تھا کہ تم خود اہل سنت کوئی مسجد بنانے میں مدد دیتے؛ اگر اہل سنت کے پاس اپنی مسجد ہو، اس کا فائدہ سب سے زیادہ انقلاب، حکومت اور حکام کے مقاصد کو پہنچ جاتا۔ سیاسی مہمان اور سالانہ وحدت کانفرنس کے لیے آنے والے مہمان جب تہران آتے ہیں اور اہل سنت کی مسجد کا پتہ پوچھتے ہیں، تو انہیں پتہ چلتاہے وہاں کوئی مسجد نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اگر تہران میں کوئی مسجد اہل سنت کے لیے ہو، اس کا فائدہ عالم اسلام اور شیعہ حضرات کو پہنچے گا۔ حکام فراخدلی دکھائیں اور مسجد بنانے دیں؛ مسجد اللہ کا گھر ہے ۔ اس کا نقصان کسی کو نہیں پہنچتا۔
پونک نمازخانے کی بندش سے اہل سنت اور حریت پسند اہل تشیع پریشان ہوئے
نامور عالم دین نے مزید کہا: جب تہران میں اہل سنت کو مسجد بنانے کی اجازت نہ ملی، انہوں نے مختلف محلوں میں چھوٹے چھوٹے نمازخانے اپنالیے۔ بعض مکانات کو کرایے پر لے کر نمازخانہ بنایا گیا۔ کچھ لوگوں نے اپنے مہمان خانوں کو نمازخانہ بنایا۔ اہل سنت کا سب سے بڑا نمازخانہ پونک کا نبی رحمت نمازخانہ تھا۔ ان نمازخانوں میں صرف عربی کا خطبہ پڑھاجاتاہے اور کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوتی تاکہ کوئی حساس نہ ہوجائے۔ انہوں نے ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کا خیال رکھاہے اور انتخابات میں حصہ بھی لیاہے۔
انہوں نے کہا: اس کے باوجود حکام نے پونک نمازخانے کے وضوخانہ اور بعض حصے چند سال قبل مسمار کیا۔ اب گزشتہ ہفتہ جب سب غزہ کی صورتحال کی وجہ سے غمزدہ ہیں، حکام نے پورا نمازخانہ قبضہ میں لیا اور جس حصے میں نماز پڑھی جاتی ہے، وہاں دیوار لگادی۔ اس واقعے سے سب اہل سنت اور یہاں تک کہ آزادخیال شیعہ بھی پریشان ہوئے۔ اس نمازخانے کا حکومت اور شیعہ برادری کو کیا نقصان پہنچتا؟ وہ خاموشی سے اپنی نمازیں وہاں قائم کرتے، نماز جمعہ ادا کرتے جو اہل سنت کے یہاں فرض ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: یہ سب حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ نماز قائم کرنے کے لیے کوشش کریں۔ ہمارے ملک میں اقامہ صلوۃ کے نام پر بجٹ خرچ ہوتا ہے اور سرکاری طورپر کام ہوتاہے۔ اسلامی اور اخوت کا تقاضا تھا کہ تم ان لوگوں کی حمایت کرتے جو وہاں نماز پڑھتے ہیں۔ تعاون علی البر کا تقاضا بھی ہے کہ جو لوگ اچھا کام کرتے ہیں، ان کے ساتھ تعاون کیا جائے، انہیں منع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایک اسلامی اور جمہوری نظام میں کیوں عوام اپنے بنیادی حق سے محروم ہوں اور انہیں کوئی جائے عبادت میسر نہ ہو؟یہ واقعہ صرف مسلکی تعصب اور نماز کی ممانعت ہے۔
صدر رئیسی عالم دین ہوتے ہوئے کیسے نماز سے روکنے کی اجازت دیتے ہیں؟
شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ہمیں اعلیٰ حکام، رئیسی کی حکومت اور مسٹر رئیسی سے سخت شکوہ ہے۔ تم عالم دین ہو اور دینی مدارس میں تمہاری پرورش ہوئی ہے اور ہمارا دیرینہ تعلق ہے۔ تم اہل سنت کے نمازخانے کو کیسے بند کراتے ہو؟کس منطق کی بنیاد پر تم نے ایسا کیا؟ پورے ملک کی بھاگ دوڑ تمہارے اختیار میں اور تہران میں ایک نمازخانے کی برداشت تم سے نہیں ہوسکتی؟
انہوں نے کہا: بعض حکام ماضی کے واقعات ازالہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ سب سے پہلے تم ان حکام کو سمجھادو کہ پہلے سے موجود مسائل ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں اور تم مزید مسائل پیدا کرنے میں مصروف ہو۔ جب تم لوگوں کی جائے عبادت بند کرتے ہو، وہ کیسے تمہارے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: زاہدان کی عیدگاہ میں نماز جمعہ پڑھنے والوں پر تمہارے اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ایک سو افراد کو قتل کیا اور تم مذاکرہ کرنا چاہتے ہو؛ مذاکرہ اچھی بات ہے، لیکن دوسری طرف تم نمازخانے پر یلغار کرتے ہو اور دیوار بناکر لوگوں کو نماز سے منع کرتے ہو۔ کیا اس نمازخانے میں نماز کے علاوہ کوئی اور کام ہوتا؟ کس منہ سے تم مذاکرات کے لیے آتے ہو؟
حکام علمائے اہل سنت کو زاہدان کے دورے سے کیوں منع کرتے ہیں؟
خطیب زاہدان نے اپنے بیان کے آخر میں سنی علمائے کرام کو زاہدان سے واپس بھیجنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: گزشتہ ہفتہ صوبہ خراسان سے علمائے کرام کا ایک وفد زاہدان آرہا تھا کہ انہیں واپس کردیا گیا۔ اسی طرح اندرونِ بلوچستان سے مولانا فضل الرحمن کوہی کو زاہدان داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
انہوں نے کہا: علما سب کے خیرخواہ ہیں۔ یہ ایرانی شہریوں کا حق ہے کہ جہاں چاہیں سفر کرسکتے ہیں۔ انہیں محدود کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
آپ کی رائے