مولانا عبدالحمید:

مسئلہ فلسطین کا حل ‘عادلانہ معاہدہ’ میں ہے

مسئلہ فلسطین کا حل ‘عادلانہ معاہدہ’ میں ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے تیرہ اکتوبر دوہزار تئیس کے خطبہ جمعہ میں فلسطین میں پیش آنے والے تازہ ترین واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ‘‘عادلانہ اور انصاف پر مبنی معاہدہ’’ اور ‘‘دارالحکومت بیت المقدس میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام’’ کو پچھتر سالہ اختلاف کا بہترین حل قرار دیا۔

اسرائیل اور فلسطین کے اکثر پشتیبان اپنے ہی مفادات کے پیچھے ہیں
مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا: ارضِ فلسطین میں انتہائی سخت اور بے رحم جھڑپیں جاری ہیں جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بہت ہی دل دہلادینے والے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہر آدمی جس میں انسانیت کی ذرہ برابر بو ہو، یہ دیکھ کر چونک اٹھتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: پچھتر سال قبل سے ارضِ فلسطین میں اختلافات پیش آچکے ہیں اور اب تک یہ اختلافات باقی ہیں اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مصالحت کے لیے کوششیں بھی ہوئیں، لیکن سپر پاورز نے اسرائیل کی حمایت کی اور کچھ حکومتوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں صفیں باندھیں، صلح کی کوششیں ناکام ہوئیں۔
ممتاز عالم دین نے کہا: جنہوں نے اسرائیل یا فلسطینیوں کی حمایت میں اقدامات اٹھائے، ان کی اکثریت کے لیے ان کے اپنے ہی مفادات اہم تھے۔ فلسطین ایک اہم اور سٹریٹجک علاقہ ہے؛ جو اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہیں، ان کا مقصد پورے مشرق وسطیٰ پر اپنا قبضہ جماکر اپنے مفادات یقینی بنانا ہوتاہے۔ دوسری جانب بھی کچھ ممالک ہرچند وہ دنیا کی سپر پاورز کی نسبت سے کمزور ہیں، فلسطین سے حمایت کرکے وہ در اصل اپنے ہی مفادات یقینی بناتے ہیں۔ بہت کم ہیں ایسے ممالک جو اخلاص اور جذبہ خیرخواہی سے فلسطینی قوم کی حمایت کریں۔
انہوں نے کہا: اگر فلسطین کی پشت پناہی خدا کی خاطر اور انسان دوستی اور اس مسئلے کے حل کے جذبہ سے ہوتی، مسئلہ فلسطین اتنا طول نہ پکڑتا اور اس سے بہت پہلے حل ہوچکا ہوتا۔

ہمارے لیے انسانیت ہی مسئلہ ہے؛ دونوں طرف جنگ کے بین الاقوامی قوانین کا خیال رکھیں
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا:ہمارے لیے انسانیت ہی اہم ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم مسلمان ہیں، لیکن ہمیں حق اور عدل و انصاف کی حمایت کرنی چاہیے۔ آنکھیں بند کرکے ہم کسی کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ انتہاپسندی اور خواتین و بچوں کو قتل کرنا کسی بھی جانب سے ہو، ناقابل قبول ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے شریعت کے قوانین اور بین الاقوامی قراردادوں کا خیال رکھیں۔بچوں اور خواتین پر حملہ آور ہونا جنگی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ فلسطینی مسلمان اپنی دفاعی جنگ میں اسلامی قوانین کا خیال رکھیں۔ اسی طرح اسرائیل اور جو یہودی وہاں رہتے ہیں وہ بھی جنگی قوانین اور بین الاقوامی عرف کو نظرانداز نہ کریں۔
انہوں نے حالیہ جھڑپ میں کوتاہیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: غزہ میں جو حالات پیش آئے ہیں ایک پورا شہر تباہ ہونے والا ہے۔کیا عالمی برادری کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ اس تباہی کو روکے؟بیس لاکھ سے زائد افراد اس شہر میں رہتے ہیں؛ اگر یہ شہر تباہ ہوجائے لوگ کہاں جائیں؟ چار لاکھ افراد اب تک بے گھر ہوچکے ہیں جنہیں کوئی بھی ملک پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ غزہ سے شائع ہونے والے مناظر کسی بھی انسان کے لیے قابل برداشت نہیں ہیں۔

پچھتر سالہ اختلاف کیوں حل نہیں ہوتا؟
دنیاوالے یکطرفہ حمایت کے بجائے مسئلہ فلسطین حل کرانے میں مدد دیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: میری یہ باتیں کسی کے جواب میں نہیں ہیں اور نہ ہی کسی نے مجھ سے یہ باتیں زبان پر لانے کو کہا ہے؛ میں صرف بعض حقایق بیان کرتاہوں۔ ہوسکتاہے بہت سارے مسلمان بھی میری باتیں پسند نہ کریں۔ لیکن میں چاہتاہوں جو بات حق اور عادلانہ سمجھتاہوں، اسے بتاؤں۔ یہودی اور فلسطینی دو قومیں ہیں جو پچھتر سالوں سے ساتھ رہتے ہیں۔ دونوں قوموں نے ایک دوسرے کو نقصان پہنچایاہے اور جو نقصان فلسطینی قوم کو پہنچا ہے وہ بہت زیادہ سخت اور سنگین رہاہے؛ وجہ یہ رہی ہے کہ مد مقابل والے کے پاس زیادہ وسائل موجود ہیں اور وہ زیادہ آزادی کے ساتھ عمل کرتاہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا: یہ دو قومیں کب تک ایک دوسرے کو مارتی رہیں گی؟ ستر سال سے زائد کا عرصہ گزرچکاہے کہ یہ آپس کی جھڑپوں میں مصروف ہیں؛ مزید کتنے سال لڑنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا مسلمانوں اور یہودیوں کو اپنی آنے والی نسلوں اور بچوں کی فکر نہیں کرنا چاہیے کہ وہ سکون سے رہ سکیں؟! یہ پرانا اختلاف کیوں حل نہیں ہوتاہے؟
خطیب زاہدان نے کہا: دونوں طرف مستقل حل پر سوچیں۔ انہیں کچھ کھوئے بغیر ایک عادلانہ اور منصفانہ حل حاصل نہیں ہوسکتاہے۔ مسلمان اس سوچ میں ہوں کہ یہودیوں کو کیسے ختم کرائیں اور یہودی اس سوچ میں کہ مسلمانوں کو کیسے ماریں اور ان کے شہروں کو تباہ کرکے انہیں خانہ بدر کریں، مسئلہ حل نہیں ہوسکتا؛ انہیں چاہیے ساتھ بیٹھیں۔ عالمی برادری بھی ایک طرفہ حمایت کے بجائے دونوں طرف کو ایک ہی ٹیبل پر لاکر مسئلہ حل کرائیں۔
انہوں نے مزید کہا: نبی کریم ﷺ نے اپنے بدترین دشمنوں یعنی اہل مکہ سے بات چیت کی اور ان سے صلح کا معاہدہ طے کیا جس کا نتیجہ مسلمانوں کی کامیابی اور فتح ہوا؛ حالانکہ اہل مکہ نے آپﷺ اور صحابہ کو مکہ سے نکال کر ان سے جنگیں لڑی تھیں۔ مسئلہ فلسطین میں بھی ایک عادلانہ مصالحت کی ضرورت ہے۔

آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: شاید بہت سارے لوگ تنقید کریں اور یہ کہیں کہ اسرائیل کو مٹانا چاہیے اور اسرائیلی کہیں اور سے آئے ہیں اور انہیں واپس جانا ہوگا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ ہی مسلمانوں کے بس میں ہے یہودیوں کو ہلاک کریں یا انہیں نکالیں، اور نہ اسرائیلی مسلمانوں کو تباہ کرنے کی قوت رکھتے ہیں؛ اگر ایسا ہوتا اب تک وہ اپنا عزم جامہ عمل پہناچکے ہوتے۔ لہذا یہ ہونہیں سکتا اور جو چیز ناممکن ہے، اس پر اصرار کیوں ہوتاہے؟! انہیں آپس میں بیٹھ کر دو مستقل ریاستیں قائم کرنے پر معاہدہ کرنا چاہیے۔ یہ میری رائے ہے۔
انہوں نے مزید کہا: سب لوگ انصاف کو مدنظر رکھ سوچیں؛اسرائیل اور فلسطین دونوں کے مخالفین کو چاہیے منصفانہ موقف اختیار کریں۔ انصاف اسی میں ہے کہ دونوں جانب کے لیے مسئلہ حل ہوجائے۔ دنیا کے اکثر ممالک کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دو آزاد اور مستقل ریاستیں قائم ہوجائیں۔ فلسطینی ریاست کا مرکز بیت المقدس (یروشلم) ہونا چاہیے جو مسلمانوں کا قبلہ اول رہاہے اور عالم اسلام کے لیے مقدس ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ماہرین کا خیال ہے جب تک دو ریاستیں قائم نہیں ہوتیں، یہ دو قومیں موجودہ صورتحال کو برداشت نہیں کرسکتی اور اب تک کے تجربے سے یہی ثابت ہوتاہے۔ امید ہے مستقبل میں ایک عادلانہ معاہدہ طے ہوجائے۔عالمی برادری کو چاہیے جنگ اور شہروں کی تباہی خاص کر غزہ کی تباہی روک دیں۔ جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کوئی بھی دوسرے کی تباہی اور ہلاکت کی کوشش نہ کرے۔ دوراندیشی کریں اور اور اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی زندگی کے لیے سوچیں۔

جبر و زبردستی سے اصلاحِ معاشرہ ممکن نہیں ہے
ممتاز عالم دین نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ایران کے داخلی مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دین کے بارے میں زبردستی کرنے کی اجازت نہیں دی ہے؛ ہدایت دلائل کی روشنی میں گمراہی سے الگ ہوجاتی ہے۔ اسی لیے فرمانِ الہی آیاہے کہ تم کسی کو زور زبردستی سے دین قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ہو۔
انہوں نے کہا: مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اصل دین ماننے کے لیے کسی کو مجبور کریں اور زبردستی سے کام لیں۔ بہترین راہ یہ ہے کہ دعوت و ارشاد سے کام لیاجائے۔ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ جبر و زبردستی سے اصلاح نہیں ہوا ہے۔ زبردستی والے کاموں اور عبادتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے انہیں قناعت دینا چاہیے۔ پردے کے بارے میں بھی مالی جرمانہ عائد کرنے سے کوئی بھی خاتون باپردہ نہیں ہوسکتی۔ اس کے بجائے عدل و انصاف قائم کریں، امتیازی پالیسیاں ختم کریں اور عوامی مسائل حل کرائیں۔ حکام خود موجودہ قوانین پر عمل کریں تاکہ عوام کے لیے بھی ان قوانین کو تسلیم کرنا آسان ہوجائے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں افغانستان کے صوبہ ہرات میں پیش آنے والے تباہ کن زلزلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے متاثرین کی ہرممکن مدد کے لیے اپیل کی۔ دریں اثنا ہرات زلزلے کے متاثرین کے لیے اجتماعی چندہ ہوا جو جلد از جلد متاثرین کو پہنچایا جائے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں