مولانا عبدالحمید: پرائیویٹ گفتگو کا فائدہ نہیں؛ کھل کر بات کرنے کا وقت آپہنچاہے

مولانا عبدالحمید: پرائیویٹ گفتگو کا فائدہ نہیں؛ کھل کر بات کرنے کا وقت آپہنچاہے

زاہدان (سنی آن لائن اردو) اہل سنت ایران کے ممتاز دینی و سماجی رہ نما شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے خاش، تفتان اور میرجاوہ اضلاع کے علمائے کرام سے جامع مسجد مکی زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے نجی بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں؛ کچھ مسائل کو کھل کر منبر پر علانیہ کہنے کا وقت ہے۔
سنی آن لائن اردو نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، ممتاز عالم دین نے سترہ ستمبر کو زاہدان کے جنوبی و مشرقی اضلاع کے سرکردہ علما، دینی مدارس کے مہتممین اور خطبائے جمعہ سے ملاقات کرکے مختلف موضوعات پر گفتگو کی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ خیرخواہی اور قوم کی بیداری کے لیے محنت کرنا علمائے کرام کی اصل ذمہ داری ہے۔ بعض مذہبی نعرے اور افکار سے انسان محدود ہوجاتاہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ علما اپنی سوچ وسیع کریں اور پوری انسانیت کے لیے غور و فکر کریں۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے اہل سنت ایران کو دیے گئے وعدوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: علمائے اہل سنت گزشتہ چوالیس سال سے اپنی برادری کے حقوق حاصل کرنے کے لیے پرامن جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہواہے کہ صدر مملکت کے پاس کوئی اختیار نہیں اور اصل فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ایک مرتبہ صدر احمدی نژاد کو ہم نے کہا ہمارے دینی مدارس کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ یہ تم ملاؤں کا اپنا مسئلہ ہے؛ آپس میں بیٹھ کر اسے حل کرائیں۔ انہوں نے الیکشن سے قبل یہ بھی کہا تھا کہ اہل سنت سے وزیر متعین کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: درست پالیسی یہی ہے کہ سب مسالک اور قومیتوں کے قابل افراد اور خواتین سے کام لیا جائے اور سب کو ان کا جائز مقام دیا جائے۔ ملک چلانے میں شیعہ برادری کے قابل افراد کو بھی نظرانداز کیاجارہاہے۔ اگر تمہیں اہل سنت پر بھروسہ نہیں، کم از کم شیعہ برادری کے قابل اور ماہر افراد سے کام لیں تاکہ عوام پریشان نہ ہوجائیں۔
مولانا عبدالحمید نے ایک اور موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: جب میں تنقید کرتا، حکام کہتے تم کیوں کھلے عام تنقید کرتے ہو؟ اپنی بات نجی طور پر ہم تک پہنچادو۔ میں نے کہا: کس سے کہوں؟ اگر ہمیں ملاقات کا وقت ملے گا تب ہم بلاواسطہ اپنی بات کہہ دیتے ہیں، منبر پر نہیں۔ حساس ادارے کے اہلکاروں سے ہم نے کہا ہے کہ تم خفیہ پولیس ہو، سکیورٹی کے مسائل تم سے شیئر کرتے ہیں، لیکن میری باتیں سیاسی ہیں اور انہیں سیاستدانوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ صدر مملکت اپنا دروازہ کھلا رکھے، میں منبر پر کچھ نہیں کہتا۔ میں صدر، وزرا اور سپریم لیڈر سے اپنی بات کہہ دیتاہوں۔ مسلح اداروں کے سربراہان سے بات نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا: ہم پرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور بات چیت کا سہارا لیتے ہیں۔ خفیہ بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے؛ اسی لیے ہم منبر پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ ہرچند ہم بات نرم کرکے کہتے ہیں تاکہ حکام کے لیے قابل برداشت ہوں۔

خونین جمعہ نے پورے حالات بدل دیے
قاتلوں کے ٹرائل سے کم پر عوام رضامند نہیں ہوتے
خطیب اہل سنت زاہدان نے علمائے کرام سے اپنی گفتگو میں کہا: گزشتہ سال ستمبر کو میں نے دو ہفتے تہران میں گزارے۔ وہاں مجھے پتہ چلا مسائل کے حل کی کوئی امید نہیں۔ جب میں واپس زاہدان آیا تو تیس ستمبر کے خونین جمعہ کے المناک حادثہ پیش آیا۔ اس حادثے نے پورے حالات بدل دیے۔ ہمارے لوگوں کا مطالبہ ہے نہتے شہریوں کے قاتلوں اور ان کے قتل کے آرڈر دینے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایاجائے؛ اس سے کم پر انہیں تشفی نہیں ہوتی۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارا مسئلہ صرف زاہدان کا خونین جمعہ نہیں؛ امتیازی سلوک اور عدم مساوات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اگر امتیازی سلوک نہ ہوتا اور مسلح اداروں میں ہمارے لوگ اونچی سطح پر ہوتے، اتنا بڑا حادثہ پیش نہ آتا اور لوگ ڈیزل فروخت کرنے کی سزا میں قتل نہ ہوتے تھے۔ہمارے مطالبات قومی ہیں اور ہم پوری قوم کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں