مولانا عبدالحمید:

کسی بھی حاکم کو مطلق اختیارات حاصل نہیں ہیں؛ ‘مطلق ولایت’ صرف اللہ ہی کو حاصل ہے

کسی بھی حاکم کو مطلق اختیارات حاصل نہیں ہیں؛ ‘مطلق ولایت’ صرف اللہ ہی کو حاصل ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے آٹھ ستمبر کو اسلامی اور ڈیموکریٹک حکومتوں کی ذمہ داریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ‘تواضع’، ‘عوام کی خدمت’ اور ‘عوامی ہونے’ کوایسے سیاسی نظاموں میں کسی حکمران کی سب سے اہم خصوصیات یاد کی۔ انہوں نے کہا کوئی بھی حکمران یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ مجھے مطلق اختیارات حاصل ہیں؛ مطلق ولایت اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔

حکومت قیمتی ہوگی اگر عوام کی خدمت کے لیے ہو
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایرانی بلوچستان کے صدرمقام میں ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ نے انسان کو خبردار کیا ہے کہیں دنیا کے دھوکے میں نہ آئیں۔ بعض اوقات جائیداد اور مال کی وجہ سے انسان مغرور ہوجاتاہے جیسا کہ قرآن میں آیاہے۔ کبھی نسب کی وجہ سے اور کبھی جاہ و مقام اور اقتدار اسے مغرور بنادیتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب اللہ کی نعمتیں جن کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا: اگر انسان کے پاس اقتدار اور عنانِ حکومت ہے، اسے چاہیے مغرور نہ ہوجائے؛ چونکہ اقتدار بھی اللہ کی نعمت اور آزمائش ہے۔ کتنے ہی اصحابِ اقتدار گزرے ہیں جو اقتدار سے محروم ہوئے اور زندگی گزارنے کے لیے انہیں کوئی جگہ نہیں ملی ہے۔ کوئی بھی نعمت ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ کچھ لوگ جب اقتدار پر پہنچے، انہوں نے عوام کے سامنے تواضع اختیار کی؛ انہیں معلوم تھا اقتدار ہمیشہ کے لیے نہیں بچے گا۔ انہوں نے اقتدار خدمتِ خلق کے لیے موقع سمجھا۔ حکومت اور طاقت اس وقت قیمتی ہوگی جب عوام کی خدمت کے لیے ہو۔ لیکن بعض لوگ جوں ہی اقتدار حاصل کرتے ہیں، تکبر اور غرور کا شکار ہوجاتے ہیں اور آنے والوں سے اچھا برتاؤ نہیں کرتے ہیں۔

حکمران متواضع، عوامی اور عوام کی خدمت میں ہوں؛ اسلام اور جمہوریت کی روح یہی ہے
عوام ناراض ہوں، حکومت چلانا مشکل ہوجائے گا
خطیب اہل سنت زاہدان نے واضح کرتے ہوئے کہا: اسلام اور جمہوریت بہت ساری مشترکہ باتیں پائی جاتی ہیں۔ ان دونوں میں آمریت کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام اور جمہوریت کے مطابق حکمران کو چاہیے عوامی ہو، عوام کی خدمت کرے اور عوام ہی اس کو چن لیں۔ حکمران اس وقت تک اقتدار پر قابض رہ سکتاہے جب تک عوام کی اکثریت اس کی حمایت کرکے اس سے راضی ہوں، اگر عوام ناراض ہوں تو حکومت کا دوام خطرے میں پڑجائے گا۔ حکمران اکثریت کی رائے سے منتخب ہوجاتاہے اور اکثریت ہی کی رائے سے حکومت کا دوام ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا: کسی بھی حکمران کے پاس مطلق اختیارات نہیں ہیں۔ مطلقہ ولایت صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ حقیقی حکمران اللہ ہی ہے اور دنیا کی حکومتوں کو مجازی ولایت حاصل ہے جو مشروط اور قانون کے دایرے میں ہے۔ اسلامی نظام میں یہ ولایت اسلامی شریعت کے دایرے میں ہے۔ صرف اللہ ہی ہر قسم کی قید و بند اور شرط سے آزاد ہے؛ چونکہ پادشاہی اسی کی ہے اور سب لوگ اس کے بندے ہیں۔ انسان شریعت کے خلاف اور اس قانون کے خلاف نہیں جاسکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اقتدار پر قابض ہوچکے ہیں اور عوام انہیں براہ راست یا واسطے کے ساتھ منتخب کرتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: کلی طور پر کہتاہوں۔ اسلام اور جمہوریت کی رو سے کوئی بھی حکومت ملک کو ایک ایسے گروہ کے ہاتھوں یرغمال نہیں بناسکتی جو قومی مفادات اور عوام کی رضامندی کے خلاف عمل کرتاہے۔ یہ اہم ہے کہ قوم حکمران کی حمایت کرے اور اور حکمران بھی قوم کی خدمت میں ہو اور اس کے مطالبات پر کان دھرلے اور عوام کے مطالبات اس کے لیے اہمیت کی حامل ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: حکمران کو چاہیے تواضع اختیار کرے یہاں تک کہ عوام اس کی تواضع اور فروتنی سے لطف اندوز ہوجائیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سارے ذمہ داران تواضع سے دور ہیں۔ حکمرانوں اور ذمہ داروں کو چاہیے عوام کے سامنے اپنے عہدے کو نہ لائیں اور اس وجہ سے انہیں نظرانداز نہ کریں۔ کچھ عرصے تک بعض ذمہ داران کہتے تھے ہم عوام کے نوکر ہیں، لیکن اب ایسی باتیں سننے میں نہیں آتیں۔

سب کو معلوم ہے زاہدان کے خونین جمعہ میں عوام کا کوئی قصور نہیں تھا
یہ تمہاری ذمہ داری تھی کہ غمزدہ لوگوں کے پاس جاتے اور ان کے مسائل حل کراتے
ممتاز عالم دین نے کہا: ایک صوبائی ذمہ دار نے زاہدان کے خونین جمعہ کے بارے میں کہا تھا کہ یہ لوگ میرے پاس نہیں آئے تاکہ میں ان کا مسئلہ حل کرادوں، حالانکہ یہ کام میرے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے اس حال میں یوں کہا ہے کہ عرف کے مطابق یہ حکمرانوں ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جس کا نقصان ہوا ہے اور وہ غمزدہ و عزادار ہے، تم اس کے پاس چلے جاؤ۔ یہ تمہاری ذمہ داری تھی کہ اس مسئلے کی پیروی کرتے۔ اگر کسی ذمہ دار کے بس میں ہے، اسے چاہیے کہ ذمہ داری کا احساس کرکے خود کیس کی پیروی کرے، اس کا انتظار نہ کرے کہ کوئی اس کے پاس چلاجائے۔ اچھا ہوتا کہ تم باربار سوگواروں کے پاس چلے جاتے اور ان کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے۔ لگتاہے یہ کوئی بہانہ تھا جس کو مذکورہ حکمران نے ذمہ داری سے بھاگنے کی توجیہ میں پیش کیا ہے۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: تم اور سب حکام اچھی طرح جانتے ہو کہ زاہدان کے خونین جمعہ میں عوام کا کوئی قصور نہیں تھا۔ حکام نے مختلف مواقع پر اس کا اعتراف کیا ہے اور مرشد اعلیٰ سے لے کر دیگر حکام تک سب کو معلوم ہے کہ یہاں حق تلفی ہوئی ہے؛ جب غلط کام ہوا ہے اور لوگوں کا حق ضائع ہوا ہے تمہیں چاہیے تھا کہ انصاف فراہم کرتے۔ یہ تمہارے ہی شہری تھے اور ان کی جان کی حفاظت حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔

اگر اسلامی نظام میں انصاف ناپید ہو تو اس کی شامت قریب ہے
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے زاہدانی نمازیوں سے اپنے ہفتہ وار خطاب میں کہا: اسلامی نظاموں میں عدل و انصاف سب سے اہم محور ہے۔ اگر کسی اسلامی نظام اور کسی بھی حکومت میں انصاف ناپید ہو، تو اس نظام اور حکومت کی شامت قریب ہے۔ وہ تباہ ہوجائے گا۔ جمہوری حکومتوں کی بنیاد انصاف پر ہے۔ اگر انصاف نہ ہو تو جمہوریت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اظہارِ رائے کی آزادی اسلامی اور جمہوری نظاموں کی اصل خصوصیات میں شمار ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: حالیہ ملک گیر احتجاجوں میں بہت سارے شہری مارے گئے یا ان کے بعض اعضا کٹ گئے، اگر یہ افراد مسلح تھے اور وہ کسی اہلکار کو مارنا چاہتے تھے، تو انہیں مارنے کا حق اہلکاروں کو حاصل تھا، لیکن اگر کسی کے ہاتھ میں پتھر یا کوئی لکڑی تھی، تو پتھر کا جواب گولی نہیں ہے۔ علما اس سوال کا جواب دیں کہ ان اہلکاروں کی سزا کیا ہے جو ایسے نہتے شہریوں کو قتل کرچکے ہیں؟ کیا وہ عوام کو مارنے کا حق رکھتے تھے؟ اگر انہیں حق نہیں تھا، پھر ان کا ٹرائل ہونا چاہیے۔ اگر نبی کریم ﷺ ، یا خلفائے راشدین اور حضرت علیؓ کی حکومت ہوتی یہ کیا کرتے؟ قیدخانوں میں قیدیوں کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ یہ ایسے مسائل ہیں جو توجہ طلب ہیں؛ اگر تم نے یہ مسائل آج حل نہیں کیا، پھر یقین جانیں کہ خدا موجود ہے اور حساب و کتاب کا میدان آگے ہے۔ ہم صبر کرتے ہیں اور عوام نے بھی صبر کیا ہے، لیکن اس صبر کا معنی یہ نہیں کہ انہوں نے اپنا حق معاف کرایاہے؛ اس امید پر ہم نے صبر کیا کہ لوگ اپنا حق حاصل کریں۔

تنقید کرنے والا تمہارا دشمن نہیں، محسن و خیرخواہ ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ایک مسئلہ جو ماضی سے اب تک چلاآرہاہے، وہ یہ کہ حکمران ذمہ دار نہیں ہیں۔ بہت سارے بڑے حکمرانوں کو خطوط لکھے جاچکے ہیں، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ بعض حکام نے عوام کو ملاقات کے لیے وقت نہیں دیا ہے کہ لوگ جاکر اپنے مسائل بیان کریں۔ دنیا کی دیگر جگہوں میں بہت کم ایسا ہوتاہے؛ حکمران اپنے عوام کی باتیں سنتے ہیں اور ان کے خطوط کو جواب دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: بہت سارے ممالک میں انسپکٹرز اور تحقیقاتی ادارے عوام کے پاس آتے جاتے ہیں اور مخالفین کی آرا کو معلوم کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں ناقدین پر توجہ دی جاتی ہے، لیکن افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں تنقید کرنے والے کو دشمن تصور کیاجاتاہے، حالانکہ ناقد دشمن نہیں ہے، ‘محسن’ اور ‘خادم’ ہے۔ جو ناقد کسی ذاتی غرض کے بغیر تنقید کرتاہے، اس کی بات پر توجہ دینی چاہیے۔ میں پوری جرات کے ساتھ کہتاہوں کہ جو کچھ اس منبر پر (زاہدان کی نماز جمعہ) کہا جاتاہے، اس میں کوئی ذاتی مفاد پیش نظر نہیں ہے۔ یہ باتیں قومی مفادات اور حکمران و قوم کے مفادات کو مدنظر رکھ کر بولی جاتی ہیں۔ ناقد تمہارا دشمن نہیں، دوست اور خیرخواہ ہے۔ اگر تم نے تنقید سے منہ موڑ لیا، ایک دن آئے گا کہ تمہیں پچھتاوا ہوگا اور تم ناقدین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پھروگے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: ہم ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن کا حق ضائع ہوا ہے اور ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہم ان کی باتیں بیان کرتے رہیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں