مولانا عبدالحمید:

قوم محتاج ہے؛ بیت المال دوسری جگہیں خرچ نہ کریں

قوم محتاج ہے؛ بیت المال دوسری جگہیں خرچ نہ کریں

ممتاز عالم دین نے پچیس اگست دوہزار تئیس کو ایران کے بحرانی حالات اور بطورِ خاص معاشی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بیت المال کو دیگر ملکوں میں اور بعض مذہبی تقریبات پر خرچ کو غلط یاد کرتے ہوئے کہا کوئی بھی حکومت جب اس کی اپنی قوم مشکل گھڑی میں ہو اور محتاج ہو، عوام کا پیسہ دیگر جگہوں پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں رکھتی ہے۔

ملک کی دولت قوم ہی کی ہے اور اسی پر خرچ ہونی چاہیے
مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ایران کی عزیز قوم بہت سخت اور دشوار ایام سے گزررہی ہے، خاص طورپر معاشی طورپر اس کے حالات بہت برے ہیں؛ کاروبار معطل ہے اور قومی کرنسی کی قدر گرنے کی وجہ سے تجارت ماند پڑچکی ہے اور قحط کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: کسی ذمہ دار نے کہا تھا کہ آج ملک کا بحران صرف بچے جنم دینا ہے اور ایرانی ماں باپ بچے پیدا نہیں کرتے ہیں۔ عقل بھی اچھی چیز ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی کو عطا فرمائے۔ لوگ اگر بچے پیدا کریں پھر انہیں کیا کھلائیں؟ تم سب سے پہلے ایرانیوں کی جیب پیسے سے بھردو اور انہیں خوشحال بنادو تاکہ وہ اپنے لیے کچھ اکٹھے کرسکیں، پھر شکوہ کرو کہ یہ لوگ کیوں بچے پیدا نہیں کرتے ہیں۔ آج لوگ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے مشکلات سے دوچار ہیں۔ ملک میں ہر سو بحران اور مشکلات ہیں اور مختلف طبقوں اور برادریوں کے افراد آواز اٹھارہے ہیں کہ ان کا دسترخوان خالی ہے۔ بہت سارے لوگ زبان پر شکوہ نہیں کرتے ہیں، لیکن ان کا دل پکاررہاہے۔
اہل سنت ایران کی سرکردہ شخصیت نے کہا: مسلح اداروں کے کارکنوں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور ملازم مشکلات سے دوچار ہیں؛ ان کی تنخواہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے ختم ہوجاتی ہے۔ یہ بات مشہور تھی کہ ایران میں سب سے زیادہ غریب برادری ملازمین ہیں۔ سابقہ حکومت میں پارلیمنٹ کے ایک رکن جن کی اہلیہ بھی ایک بڑے عہدے پر فائز تھیں، کہتے تھے ان کی تنخواہ ملا کر مہینے کے بیس دنوں تک ختم ہوجاتی ہے۔ یہ ایک رکن پارلیمنٹ کا حال ہے جن کی بھاری تنخواہوں کے بارے میں افواہیں گردش کررہی ہیں۔ شہدا کے لواحقین اور ملک و ملت کی خاطر جان کی بازی لگانے والے بھی مشکل حالات سے گزررہے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔ سب لوگ مشکلات سے دوچار ہیں۔ گاؤں والوں کی پوری زندگی تباہ ہوکر رہ گئی ہے اور ان کی کسمپرسی اور بری صورتحال پر خون کے آنسو بہانا چاہیے۔

کیا یہ عادلانہ ہے کہ موجودہ حالات میں کھربوں روپے بیت المال سے ایک مذہبی تقریب پر خرچ ہوجائیں؟
خطیب اہل سنت زاہدان نے واضح کرتے ہوئے کہا: بعض اعداد و شمار کو دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتاہے کہ ایسی تقریبات کے لیے عوام کا پیسہ خرچ کیا جارہاہے جن کی مانند صدر اسلام اور حضرت علی، حسن ، حسین، فاطمہ اور خدیجہ کی سیرت میں نہیں ملتی؛ کھربوں روپے ایسی تقریبات پر خرچ کرنا وہ بھی ان سخت معاشی حالات چہ معنی دارد؟ شاہراہوں اور شہری ترقی کے وزیر نے اعلان کیا ہے آنے والی مذہبی تقریب (چہلم) کے لیے تین ہزار ارب تومان ملکی اور غیرملکی مہمانوں پر خرچ ہوجائے گا۔کھانا، سہولیات اور دوائیاں جو ان پر خرچ ہوں گی، اعداد و شمار سے خارج ہیں۔ ان حالات میں جب عوام ایک انجکشن کے لیے پریشان ہیں اور بھاری قیمت ادا کرکے اسے فری مارکیٹ سے خریدتے ہیں، کیا یہ عادلانہ ہے کہ عوام ہی کی جیب سے ہزاروں ارب کسی مذہبی تقریب پر خرچ کیا جائے؟!
انہوں نے مزید کہا: ان اخراجات کے علاوہ، قوم کا پیسہ دیگر جگہوں پر بھی خرچ ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کے سلامتی کمیشن کے سابق سربراہ نے کہا ہے کہ شام پر ہمارا تیس ارب ڈالر قرضہ ہے اور بظاہر اس پیسے کی واپسی کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ صدر مملکت نے ایک غیرملکی دورے پر کہا ہے کہ ایران وہاں بڑا اسپتال بنائے گا۔ بلاشبہ ایرانی قوم اچھی قوم ہے، لیکن یہ مت بھولیں کہ خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے ایران کے بعض پروکسی وار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جب ایرانی قوم خود محتاج ہے، اس کا پیسہ کیوں دیگر ملکوں میں خاص کر جنگوں میں خرچ ہوتاہے؟ جنگ سے تباہی آتی ہے۔ امریکا اپنی افواج افغانستان سے نکالنے پر مجبور ہوا چونکہ اس کے فوجی ہلاک ہورہے تھے اور مالی طورپر بھی اس کی معیشت نقصان سے دوچار ہوا تھا۔ اس جنگ کو جاری رکھنا امریکا کے لیے سمجھدارانہ نہیں تھا؛ اسی لیے سب گالیاں اور احتجاج کو برداشت کرتے ہوئے اس نے افغانستان سے اپنی افواج نکال دی۔
انہوں نے کہا: جنگ سے ملکوں کو بڑا نقصان ہوتاہے۔ اگر کسی ملک پر حملہ ہوجائے اور وہ اپنے دفاع کے لیے جنگ پر مجبور ہوجائے، یہ الگ بات ہے؛ ایسی جنگوں سے بھی بڑا نقصان ہوتاہے۔ جب عراق نے ایران پر حملہ کیا اس وقت قوم حکومت کے ساتھ تھی۔

پوری توجہ ایرانی قوم پر رکھیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایرانی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: موجودہ حالات میں تم دیگر ملکوں کے مسائل اور حاجات سے معذور ہو اور تمہاری تمام تر توجہ ایرانی قوم پر ہونی چاہیے۔ لیکن صرف توجہ مذہبی امور پر نہیں ہونی چاہیے۔ مذہبی مسائل کو زیادہ اہمیت دینا اور حتیٰ کہ مذہبی حکومت اور ریاست کا نتیجہ سب کے سامنے ہے جسے ہم نے ایران میں تجربہ کیا اور پتہ چلا یہ نقصان دہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: کسی حکومتی عہدیدار نے کہا تھا کہ صرف مذہبی لوگ ہمارے لیے کافی ہیں۔ حالانکہ اب یہی مذہبی لوگ جو تمہارے ساتھ رہ کر تمہارے لیے کام کرتے ہیں، وہ بھی اپنے اخراجات کے لیے پریشان ہیں۔ ان کا پیٹ بھی نہیں بھرتا اور اپنے گھروالوں کے لیے پریشان ہیں۔ کاش حکام شروع ہی سے قوم اور مذہب دونوں کے بارے میں سوچتے۔ میرا خیال ہے تم مذہب پر پیسہ نہ لگاؤ، بلکہ قوم کے لیے سوچو اور ان ہی پر پیسہ لگاؤ۔ عوام کو ساتھ رکھنے کی کوشش کریں۔ ایک شہری کی حیثیت سے کہتاہوں کہ یہ عادلانہ اور معقول نہیں کہ بیت المال دیگر ملکوں میں خرچ ہوجائے اور اپنی قوم ہاتھ سے نکل جائے۔ تم اگر اپنی قوم کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کروگے، تو دنیا میں کامیاب اور مقتدر بنوگے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: ماضی میں اگر تم نے کسی ملک میں پیسہ لگایا ہے اور وہ ہاتھ سے نکل چکاہے، اس کے بعد خیال رکھو جو نیا پیسہ آتاہے اسے اپنے ہی عوام پر خرچ کرو۔ دوسروں کو بتاؤ اب ہمارا اپنا ملک محتاج ہے۔ دوسروں کو ہماری قومی دولت کی لالچ نہیں کرنی چاہیے۔ اگر یہ ملک خوشحال ہوجائے، پوری قوم خوشحال ہوجائے گی اور اگر کوئی دباؤ اور تنگی ہو، ہم سب دباؤ میں آجائیں گے۔

گزشتہ سال کی احتجاجی تحریک میں مرنے والوں کے لواحقین کی گرفتاری تشویشناک ہے
کالجوں اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کی برطرفی سے علمی سطح گرجائے گی
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے خطاب جاری رکھتے ہوئے ملک کے مختلف علاقوں میں گرفتاریوں پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: حالیہ احتجاجوں میں مرنے والوں کے لواحقین کو گرفتار کرنا تاکہ وہ اپنے عزیزوں کے لیے برسی نہ منائیں دکھ دینے والی خبر ہے۔ان لوگوں کے جذبات مجروح ہیں اور ان سے محبت کرنی چاہیے۔ انہیں گرفتار کرنا یا دھمکانا ان گھرانوں کے لیے المناک اور انتہائی دکھ دینے والی بات ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی زد میں آیاہے اور درجنوں اساتذہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے برطرف یا معطل ہوچکے ہیں اور جامعات سے انتہائی ماہر اساتذہ کا تصفیہ کیا جارہاہے۔ یہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔ میڈیا میں آیاہے کہ ان جامعات کے ذمہ داران برطرف اور معطل اساتذہ کی جگہ نئے اور کمزور اساتذہ بھرتی کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کاموں سے ہمارے جامعات کی علمی سطح بری طرح گراوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ طلبہ کو تجربہ کار اور ماہر اساتذہ کی ضرورت ہے۔ علمی سطح گرنے کے باجود شاید کچھ لوگ پڑھنے کے لیے داخلہ لیں، لیکن مجموعی طورپر علم و دانش کو نقصان پہنچے گا۔
خطیب اہل سنت نے کہا: پوری دنیا میں ایران سے نکلنے والے ماہرین، ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی مانگ ہے اور وہ ہمارے ماہرین کے ملک سے نکلنے کے انتظار میں ہیں کہ انہیں شکار کرکے ان کے علم اور مہارتوں سے فائدہ اٹھائیں۔مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض ماہرین اور اساتذہ کے لیے باہر جھگڑا ہوا ہے اور ہر کوئی ان کو اپنے اداروں میں بھرتی کرنے کی کوشش کرتاہے۔دارالعلوم زاہدان کے بعض اساتذہ کو ملک بدرکیاگیا، مختلف مدارس اور عصری جامعات ان کی بھرتی کے لیے کوشش کرتے ہیں۔

گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں
مولانا نقشبندی اور دیگر علما و سیاسی قیدیوں کو رہا کریں
مولانا عبدالحمید نے علمائے کرام کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ایک بار پھر علما کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوچکاہے جو تشویشناک ہے۔ مولانا مرادزہی، مولانا کوہی اور ماموستا خضرنژاد جو انتہائی معتدل عالم دین ہیں متعدد علما کے ساتھ جیلوں میں ہیں۔ مولانا فتحی محمد نقشبندی خطے کے مفید اور ممتاز علما میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی گرفتاری پریشان کن ہے اور اس کے منفی اثرات پڑیں گے۔ عوام اس واقعے سے پریشان ہیں۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: ہمارا خیال ہے بہترین طریقہ بات چیت ہے۔ اگر کسی عالم دین نے کوئی بات کہی ہے اور اس حوالے سے کوئی اعتراض ہے، بہترین طریقہ بات چیت ہے۔ ہم بہت سارے مسائل کو جو اہم اور مفید بھی ہیں چھپاتے ہیں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہوجائے۔ جو بات کہتے ہیں، اسے نرم کرکے کہتے ہیں۔

جب تک دردوں کا مداوا نہ ہوجائے، پکار بند نہیں ہوگی
خطیب زاہدان نے کہا: مولانا فتحی محمد نقشبندی کی باتیں قابل برداشت ہیں۔ اگر کوئی شکایت ہے، تم خود ان سے بات کرو یا دوسروں سے کہو کہ ان کے ساتھ بات کریں۔ یہ گرفتاری سے بہتر ہے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ گرفتاری کسی بھی درد کی دوا نہیں ہے۔ جب تک جسم میں درد موجود ہے ، پکار کی آواز بھی سننے میں آئے گی۔ جب درد سے جسم نڈھال ہے، اگر نرس آکر آہ و پکار سے منع کرے کہ تم دوسروں کو تکلیف دیتے ہو، یہ سمجھ سے دور ہے۔نرس کو چاہیے کہ بیمار کو دوائی پہنچائے تاکہ اس کا درد کم ہوجائے۔ لہذا تم جتنا کہو کہ بات نہ کرو، احتجاج نہ کرو، اس قوم کی پکار اور صدائے احتجاج بند نہیں ہوگی؛ تم اس کے دردوں کا علاج کرو تاکہ آہ و پکار بند ہوجائے۔
انہوں نے کہا: علما کو رہا کرو۔ علما کا تعلق سب کے ساتھ ہے اور خیرخواہی ان کی اصلی ذمہ داری ہے۔سیاسی قیدیوں سمیت علمائے کرام کو رہا کرو۔ گرفتاری اور قید کرنے کی بجائے، ان افراد کے ساتھ بات چیت کرو۔

اپنی اصلاح کرکے عوام پر رحم کریں
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: یہ قوم وہی ہے جس نے چوالیس سال قبل اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دے کر تمہیں اقتدار پر لایا۔ اگر یہ قوم اسلامی جمہوریہ ایران کو ووٹ نہیں دیتی اور بانی انقلاب کو ساتھ نہ دیتے، یہ نظام کیسے وجود میں آتا؟ تم اگر پوری دنیا کے علما کے ساتھ مل کر محنت کرتے ، پھر بھی انقلاب کامیاب نہ ہوتا۔ یہی اساتذہ، یونیورسٹیوں کے طلبا اور خواتین نے تمہاری حمایت کی اور تمہیں حکومت ملی،لہذا ان کی قدر کریں اور یہ مت سوچیں کہ عوام کے ساتھ بیٹھنے سے تم سے کچھ کم ہوگا۔ اپنی اصلاح کرکے عوام کا خیال رکھیں اور ان پر رحم کھائیں۔ اب ملک میں لوگوں کا تم سے اطمینان اٹھ چکاہے اور ناراضگی عام ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا: اگر عوام نے تمہاری پٹائی بھی کی پھر بھی تم صبر سے کام لو۔ جس طرح زاہدان کے خونین جمعہ میں ہمارے لوگ بلاوجہ شہید اور زخمی ہوئے اور اب تک ایک قاتل سے بھی قصاص نہیں لیاگیاہے، لیکن ان لوگوں نے صبر سے کام لیاہے۔ انہوں نے اپنا حق معاف نہیں کیا ہے، لیکن صبر سے کام لیا ہے اور وہ انصاف مانگ رہے ہیں۔ اگر یہی مصیبت مد مقابل کے لیے پیش آتی تو وہ کیا کرتے؟!


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں