مولانا عبدالحمید:

ملکی مسائل کا حل ‘پالیسیوں کی تبدیلی’ اور ‘گہری تبدیلیاں’ لانے سے ممکن ہے

ملکی مسائل کا حل ‘پالیسیوں کی تبدیلی’ اور ‘گہری تبدیلیاں’ لانے سے ممکن ہے

اہل سنت ایران کے رہ نما شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اٹھارہ اگست دوہزار تئیس کو نماز جمعہ سے پہلے خطاب میں مجلس شورائے اسلامی کے انتخابات کے لیے پیشگی کاغذات جمع کرانے اور ماضی کی پالیسیوں اور طریقوں پر الیکشن منعقد کروانے کو بے فائدہ قرار دیا جو ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے میں ناکام رہے گا۔
ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا موجودہ مشکلات سے نجات کے لیے نگاہوں اور پالیسیوں میں تبدیلی لانے اور عوام کے مفادات کو سامنے رکھ کر گہری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

اگر کوئی واضح افق موجود ہے حکام قوم کو دکھائیں
مولانا عبدالحمید نے کہا: اس بار عام انتخابات کے لیے کاغذات جمع کرانا اور رجسٹریشن کے لیے کئی مہینے پہلے کام شروع ہوچکاہے۔ اب ملک میں پارلیمان بھی ہے، حکومت بھی ہے اور ماہرین کی مجلس (خبرگان) بھی قائم ہے۔ ان سب کو عوام نے براہِ راست ووٹ دے کر منتخب کیاہے۔
انہوں نے کہا: ان الیکشنز کے باوجود اور حکومت و پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے ملک میں آئے دن بحرانوں میں شدت آرہی ہے اور مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا اگر کوئی نئی مجلس یا نئی حکومت بن جائے عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے؟ ڈیڈلاک ختم ہوں گے؟ اگر مسائل حل ہوجائیں تو ٹھیک ہے، لیکن اگر مسائل اپنی جگہ باقی رہیں، پھر مکررات کی تکرار کا کیا فائدہ جب مسائل جوں کے توں باقی رہیں بلکہ بڑھتے ہی جائیں۔ کیا قوم کے سمجھداروں اور ذمہ داروں کو اس بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟
ممتاز عالم دین نے کہا: کیا کوئی واضح مستقبل پایاجاتاہے کہ نئی مجلس یا حکومت سے عوام کے لیے زندگی آسان ہوجائے گی؟ اگر کوئی واضح افق ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دیتا، حکام وہ افق قوم کو بھی دکھائیں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور ارکان پارلیمنٹ کا کام ہے بجلی، پانی اور سڑکوں کے مسائل اٹھانا جو حکومت کی ذمہ داری ہے، پھر اس پارلیمنٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت ان تقاضوں کو اس طرح فراہم کرے کہ عوام اور ان کے نمائندوں کے لیے کوئی پریشانی ہی باقی نہ رہے۔

قانون ساز اداروں کے ارکان حکومت اور ریاستی اداروں پر نظر رکھیں
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: دیگر ملکوں میں ارکانِ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنا ہے۔ رکن پارلمینٹ کا اصل کام نفاذ قانون کی نگرانی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ مختلف وزارت خانوں اور تصمیم ساز اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھیں، انہیں مانیٹر کریں چاہے ان کا عہدہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو؛ جب کوئی غلطی ہو تو یاددہانی کرکے تنقید کریں۔ اگر کسی رکن پارلیمنٹ نے تنقید کرکے اپنی ذمہ داری کسی طرح پوری کرلی، پھر اسے فون کرکے بتایاجاتاہے کہ تمہاری اہلیت ہم نے ہی تصدیق کی ہے اور کل دوبارہ تمہارا واسطہ ہم سے پڑے گا، یہ کس طرح اپنی ذمہ داریاں نبھائیں؟
انہوں نے کہا: ارکان پارلیمنٹ کو آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ انہیں سیاسی اور پارلمانی استثنا حاصل ہے اور وہ بات کرنے اور پالیسیوں اور قانون کے نفاذ کی نگرانی کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ارکان پارلیمنٹ حکومت اور ریاست کے نمائندے نہیں ہیں، بلکہ وہ عوام ہی کے نمائندے ہیں اور انہیں ہر حال قوم ہی کے ساتھ ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: اگر مقصد یہ ہے کہ لسانی برادریوں کے افراد کو الیکشن میں شریک کیا جائے اور اس کا مقصد دکھاوا اور مخصوص افراد کو پیسہ ملنا ہو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس سے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ حکومتیں بھی اگر اسی طریقے سے آئیں اور تبدیل ہوجائیں، ان کے پاس کافی اختیارات نہ ہو یا ان کا عمل صحیح نہ ہو، اس کا بھی فائدہ نہیں۔ ایک بنیادی سوچ اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔

سپریم لیڈر بھی مشورت کے محتاج ہیں؛ مجلس ماہرین کو چاہیے تھا عوامی مسائل ان کی اطلاع میں لاتے
خطیب زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: مجلس ماہرین کے ارکان کو بھی عوام ووٹ دے کر انتخاب کرتے ہیں۔ اگر ہر چھ مہینے کے بعد وہ اکٹھے ہوجائیں اور سپریم لیڈر کے ذیلی اداروں اور محکموں کی نگرانی نہ کریں جو بہت بڑے اور موثر ادارے ہیں، پھر اس مجلس کا کیا فائدہ؟!مجلس ماہرین کو چاہیے سپریم لیڈر کو تجاویز پیش کریں اور عوام کے مسائل سے انہیں آگاہ کریں۔ حال ہی میں انہوں نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ہم سب سے خطا اور لغزش سرزد ہوسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اس کائنات میں صرف خدا ہی ہر قسم کی غلطی اور خطا سے پاک ہے۔ کوئی بھی اس ذات پاک سے نہیں پوچھ سکتاہے؛ لیکن آپﷺ تمام تر مقام کے باجود مسؤل قرار پائے اور غزوہ تبوک کے موقع پر جب کچھ لوگوں نے آپﷺ سے اجازت مانگی اور عذر پیش کرتے ہوئے جنگ میں شرکت نہ کی، اور نبی کریم ﷺ نے انہیں اجازت دی، تو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو خطاب کرکے فرمایا کہ تم نے انہیں کیوں اجازت دی؟ ایک نابینا نے آپﷺ سے کچھ پوچھا اور آپﷺ نے جواب نہ دیا، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ڈانٹا اور سورہ عبس و تولی نازل ہوا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت عیسیؑ سے بھی پوچھے گا کہ کیا تم نے لوگوں کو کہا ہے کہ تمہیں اور تمہاری والدہ کو معبود بناکر پرستش کریں؟! لہذا اللہ کے سوا سب مسؤل ہیں اور انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ ہمارے ملک میں حکام اور ذمہ داروں کو ‘مسؤل’ کہاجاتاہے جس کا مطلب ہے وہ شخص جو جوابدہ ہوتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: سپریم لیڈر کو بھی مشوروں کی ضرورت ہے اور مجلس ماہرین کے ارکان ان سے قریب ہیں؛ لہذا وہ مسائل کو ان تک پہنچائیں اور انہیں مشورہ دیں۔ سپریم لیڈر کے پاس علم غیب نہیں ہے؛ یہ ماہرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں عوام کے آلام و مسائل سے آگاہ کریں۔ اگر ایسا نہیں ہوسکتا، پھر الیکشن کے لیے اتنا خرچہ کیوں ہوتاہے؟

جب تک پالیسیاں اور نگاہیں تبدیل نہ ہوجائیں، مسائل اپنی جگہ باقی رہیں گے
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: سب سے زیادہ اہم سوچ اور پالیسیاں ہیں۔ اگر نگاہوں اور پالیسیوں میں تبدیلی نہ آئے اور کوئی گہری تبدیلی عوام کے مفاد میں دیکھنے میں نہ آئے، یہ سب مسائل اور پریشانیاں اپنی جگہ باقی رہیں گی۔ ہم ارکان پارلیمنٹ، صدر اور ماہرین کی مجلس کے ارکان کو ووٹ دے کر انتخاب کرتے ہیں، پھر بھی ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں۔ لہذا حکام بنیادی تبدیلی لائیں۔
انہوں نے مزید کہا: اعلیٰ حکام پردوں کو ہٹائیں اور عوام کے ساتھ رہیں؛ موت تو آنی ہی ہے۔ سب سے بڑا خطرہ حکام کے لیے یہی ہے کہ عوام کی دسترسی ان سے بند ہوجائے اور عوام کی بات ان تک نہ پہنچے یا انہیں بات کرنے ہی نہ دیاجائے۔ افسوس ہے کہ بعض کو بات کرنے سے روکاجاتاہے اور کہا جاتاہے کہ بعض حکام کے نام نہ لیں اور ان کا نام سرخ لکیر ہے؛ سرخ لکیر صرف اللہ ہی ہے اور اس ذات پاک پر تنقید منع ہے۔

یورپ اور امریکا میں اچھائیاں بھی ہیں؛ انہیں اختیار کریں
اسرائیلوں نے حالیہ عوامی احتجاجوں میں اپنے عوام کو نہیں مارا
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: امریکیوں اور مغربی ممالک میں بہت ساری کمزوریاں پائی جاتی ہیں؛ مثلا امریکی حکام میں تکبر پایاجاتاہے۔ لیکن وہیں کانگریس صدر پر برس پڑتی ہے یا برطانیہ میں مجلس دارالعوام وزیرِ اعظم پر تنقید کرتی ہے۔ وہاں اظہارِ رائے کی آزادی ہے جو بہت قیمتی ہے۔ یہ وہی آزادی ہے جو قرآن اس کی بات کرتاہے۔ اگر آزادی نہ ہو بہت سارے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کی توہین کی جائے؛ سب کاا حترام کرنا چاہیے، کسی کی توہین یا تحقیر غلط ہے۔ ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے بات کرنی چاہیے۔ ہمارے ملکی مسائل کی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ تنقید کا راستہ بند کیا گیاہے۔
انہوں نے مزید کہا: دیگر ملکوں میں بعض اوقات صدر یا وزیرِ اعظم یا رکن پارلیمنٹ استعفا دیتاہے، لیکن ہمارے ملک کے عرف میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ اب تک دیکھنے میں نہیں آیاہے کہ کوئی ذمہ دار عوام کے دفاع میں احتجاج کرتے ہوئے استعفا دے۔ اگر کوئی استعفا دے، اسے دکھی کرکے مصیبتوں میں ڈالاجاتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اسرائیل جس نے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر رکھاہے اور ہم سب کا خیال ہے کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے، لیکن اس کے انتہاپسند وزیرِ اعظم کے خلاف پوری قوم اور مسلح افواج احتجاج کررہی ہیں کہ وہ عدلیہ کے اختیارات محدود کرکے وہاں آمریت پیدا کرنا چاہتاہے۔ بہت سارے افسروں نے اعلان کیاہے کہ وہ استعفا دیں گے اگر ایسا کوئی قانون پاس ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: یہ وہ حکومتیں ہیں جن پر ہم نے بارہا تنقید کی ہے اور ان کے بعض کاموں پر احتجاج کرتے چلے آرہے ہیں؛ ہم نے ان کی برائیوں کی مذمت کی ہے، لیکن ان کی اچھائیاں بھی ہیں؛ ان خوبیوں کو کیوں ہم نہ اپنائیں؟ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ اسرائیل کے حالیہ احتجاجوں میں کوئی اسرائیلی شہری کو فورسز نے قتل نہیں کیا۔ اسرائیلی فورسز فلسطینیوں کو مارتے ہیں، لیکن اپنی قوم کو نہیں۔کوئی اپنی قوم پر اسلحہ نہیں اٹھاتا۔

قوم کو دبانا غلط ہے
جامعہ دارالعلوم زاہدان کے صدر نے کہا: آج بہت سارے طبقوں کے افراد جن میں خواتین، صحافی، علما اور دانشور شامل ہیں، جیلوں میں قید ہیں۔ یہ اسی قوم کے افراد ہیں اور کسی کو احتجاج کی خاطر جیل میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ بسیج فورسز کے کسی ذمہ دار نے کہا ہے اگر دوبارہ احتجاج ہوجائے ہم اسے دبادیں گے۔ قوم کو دبانا غلط کام ہے۔ بسیج کو چاہیے عوام کے ساتھ ہوجائے اور ان کے مسائل کے بارے میں معلوم کرے؛ کیا عوام امریکا اور اسرائیل کی خاطر مارے گئے؟ کیا وہ مریکا کے لیے اپنی آنکھوں سے محروم ہوئے؟لوگ مغرب کی خاطر جیل گئے ہیں یا ان کے مسائل ہیں اور وہ بھوکے ہیں، ان کی عزت محفوظ نہیں رہی ہے اور وہ بند گلی میں پھنس چکے ہیں؟ تم ان کی باتیں سنو۔
انہوں نے سوال اٹھایا: اعلیٰ حکام اور مسلح اداروں کے سربراہان اور ججز جو عوامی مسائل سے آگاہ ہیں اور انہیں بہتر معلوم ہے عوام کن حالات سے گزررہے ہیں، وہ کیوں ان مشکلات کو سپریم لیڈر تک نہیں پہنچاتے ہیں؟ ہمیں تو ان تک رسائی نہیں ہے، تم تو چلو اور ان سے بات کرو بلکہ ان پر اصرار کریں کہ ملک کو اس صورتحال سے نکلنا چاہیے۔ چونکہ ان حالات کی برداشت عوام کے لیے بہت مشکل ہے۔ امورِ مملکت قابل اور اہلیت رکھنے والوں کے سپرد ہونا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں