مولانا عبدالحمید:

جب تک خواتین اپنا جائز مقام حاصل نہیں کریں گی، ان کا احتجاج ختم نہیں ہوگا

جب تک خواتین اپنا جائز مقام حاصل نہیں کریں گی، ان کا احتجاج ختم نہیں ہوگا

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے سولہ جون دوہزار تئیس کے بیان میں ایرانی خواتین کے حقوق کی پامالی اور ان کے پیہم احتجاج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جب تک خواتین اپنے جائز حقوق حاصل نہ کریں، ان کی صدائے احتجاج خاموش نہیں ہوگی۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے نماز جمعہ سے پہلے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: افسوس کا مقام ہے کہ آج کل بہت سارے معاشروں اور مسلم ممالک میں خواتین کے مقام کے بارے میں جیسا کہ ہونا چاہیے، توجہ نہیں ہوتی۔ کچھ سختیاں اور پابندیاں ان پر عائد کی گئی ہیں جن کا شریعت اور قرآن و سنت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، حالانکہ خواتین انسانی آبادی کے ایک عظیم حصے ہیں اور ان میں توانائی اور قابلیت پائی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے معلوم ہوگا کہ خواتین نے کیسی کیسی بہادری دکھائی ہے۔ فرعون کی بیوی نے اس کے سامنے ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا اور حضرت موسیٰ ؑ اور حق کا دفاع کیا۔ حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ ایک بہادر خاتون تھیں جو ہزار مرد پر بھی بھاری تھیں؛ انہوں نے ایک بنجر زمین اپنے بیٹے کے ساتھ سختیوں کو برداشت کی۔ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم، اسماعیل اور ہاجرہ کی ہمت سے تعمیر ہوا۔ حضرت سارہ نے بھی حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ہجرت کرکے ہجرت کی سختیوں کو برداشت کی۔ حضرت مریم کی مثال لے لیں؛ جب حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی تو انہوں نے تہمتوں کے نشتر بھی سہہ کر حضرت عیسی کی پرورش کی اور آخر تک ان کی حامی رہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اسلامی تاریخ میں بھی دیکھا جائے تو حضرت خدیجہ ؓ کی مثال سامنے آتی ہے جنہوں نے پہلی دفعہ جب وحی نازل ہوئی، آپﷺ کو ہمت دلائی اور ان کی حمایت کرتے ہوئے اسلام کی خاطر ہر قسم کی مالی مدد پیش کی۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے حجاج بن یوسف کے مکہ مکرمہ پر حملے کے وقت اپنے بیٹے کو دین کے دفاع کے لیے ترغیب دی اور ظلم سے مقابلہ کے لیے ان سے مطالبہ کیا کہ بہادری سے لڑیں۔ان غیور ماؤں کے گود میں ہزاروں بہادر اور ظلم بے زار افراد تربیت پاچکے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا: آج کیوں خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز مقام نہیں مل رہاہے؟ آج خواتین کی آہ و پکار کی وجہ ان کی عزت اور احترام کی پامالی ہے۔ ان کی تعلیم پر جس طرح توجہ دینے کی ضرورت ہے، توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ جب تک خواتین کو ان کا جائز مقام حاصل نہ ہو، وہ آواز بلند کرتی رہیں گی اور خاموش نہیں بیٹھیں گی۔ جب تک علت ختم نہ ہو، معلول اور نتائج سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: خواتین اور سیاسی قیدیوں کو رہا کریں اور خواتین کا احترام کریں۔ نبی کریم ﷺ خواتین کو مسجد النبی میں مردوں کے پیچھے ایک ہی جگہ نماز کے لیے لاتے اور وہ آپﷺ کی تعالیم سے استفادہ کرتی تھیں۔ کچھ عرصے تک مردوں اور خواتین کے آنے جانے کا راستہ بھی ایک تھا، پھر باب النسا بن گیا۔ خواتین عید کی نماز میں بھی شرکت کرتی تھیں اور مردوں کے ساتھ ساتھ وہ تکبیر کہتی تھیں۔ مسجد النبی صرف جائے عبادت نہ تھی، بلکہ ایک دانش گاہ اور علمی مرکز بھی تھی جہاں خواتین بھی علم سیکھتی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا: کچھ لوگوں کا خیال ہے خواتین کا کام ہے بس کھانا پکانا اور بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کرنا، حالانکہ ان کا مقام اس سے کہیں اوپر ہے۔ خواتین ان کاموں کے علاوہ دیگر اہم مسائل بھی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں یا بعض ادارات میں جہاں خواتین کو کام کا موقع ملا ہے، انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لہذا سب مسلم قومیں خواتین کی عزت، احترام اور تعلیم پر خصوصی توجہ دیں۔
انہوں نے ایران میں اسکارف پہننے سے خواتین کے انکار کو ‘بہانہ’ یاد کرتے ہوئے کہا خواتین کی اصل شکایت یہی ہے کہ انہیں سماج میں ان کا جائز مقام نہیں ملا ہے۔ اگر ان کا احترام کیا جائے، دیگر مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔

قبرستانوں میں پولیس کی مداخلت غلط ہے
جو حاکم فراخدلی سے محروم ہو، وہ حکومت نہیں کرسکتا
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں کہا: دنیا میں سب کا ماننا ہے جب کسی پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کے اعزہ و اقارب سے ہمدردی کا اظہار کیاجاتاہے، یہ ایک انسانی اور اسلامی ذمہ داری ہے۔ آج کل بہت دیکھنے میں آتاہے کہ کچھ لوگ جب اپنے آداب اور روایات کے مطابق قبرستان جاکر سوگ مناتے ہیں، انسداد فسادات پولیس ان پر دھاوا بول کرعزادار شہریوں کو تنگ کرتے ہیں۔قبرستان شہر سے باہر ہوتے ہیں، یہ لوگ آنسو بھاکر واپس ہوتے ہیں، اگر کوئی بات بھی کریں، پھر بھی انہیں برداشت کرنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا: سب افراد جنہیں اللہ نے اقتدار عطا کیا ہے اور وہ عوام پر حکمرانی کرتے ہیں، ان کو میری نصیحت ہے کہ دل بڑا کریں؛ اگر ان کی نگاہیں محدود ہوں اور وہ فراخدلی سے محروم ہوں، یہ حکمرانی سے متصادم ہے۔حکمران کی نگاہیں بلند اور قوم کے فرد فرد پر باپ جیسا ہونا چاہیے؛ اسے گالی گلوچ سہنا بھی پڑے گا۔جو حکمران سخت بات برداشت نہیں کرسکتا، وہ حکمرانی کی قابلیت نہیں رکھتاہے۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: ہر ملک میں مختلف سلیقے، قومیتیں، مسالک اور مذاہب کے لوگ رہتے ہیں؛ حکمران سب کو برداشت کریں اور لوگوں کی تنقید اور سخت باتوں کو سہہ لیں؛ حکمرانی کی لذت اسی میں ہے۔ قرآن پاک نے نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کو حکم دیاہے کہ تم یہودیوں اور عیسائیوں کی تہمتوں کو برداشت کریں؛ اس اخلاق اور برداشت کو اسلام نے ہمیں سکھایاہے۔ لہذا اپنی برداشت بڑھائیں اور دل بڑا کریں۔

بہائیوں، دراویش اور پارسیوں سمیت سب کے انسانی اور شہری حقوق کا خیال رکھیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: بہائی برادری کے افراد کی شکایت ہے کہ بعض مقامات پر ان کے قبرستانوں کو سرکاری قبضہ میں لینے کی کوشش ہورہی ہے؛ انہیں شکایت ہے کہ بعض اوقات مرنے والوں کی لاشوں کو قبضہ میں لیاجاتاہے اور انہیں ان کے عزیزوں کے سپرد نہیں کیاجاتاہے۔ یہ انتہائی دکھ دینے والی بات ہے۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: یہ بات درست ہے کہ بہائی غیرمسلم ہیں، لیکن وہ انسان اور اس ملک کے شہری تو ہیں۔ کیا ان کے شہری حقوق کا خیال نہیں رکھنا چاہیے۔ کیا ان انتہاپسندوں کو نہیں روکنا چاہیے جو قبرستانوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں؟مجھے اطلاع ملی ہے کچھ بہائی خواتین کو پھانسی دی گئی ہے اور ان کی لاشوں کو اہلکاروں نے خود جاکر سپردِ خاک کیا ہے۔ جب ہم ایسی خبریں سنتے ہیں ایک انسان اور مسلمان کی حیثیت سے سر جھک جاتاہے۔ اسلام نے ہمیں ایسی کوئی تعلیم نہیں دی ہے اور یہ صرف انتہاپسندوں کی کارستانیاں ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: بہائی، دراویش اور پارسی بھی انسان ہیں اور ان کے کچھ حقوق ہیں۔ سب وہ لوگ جو ایران میں رہتے ہیں، چاہے مسلمان ہوں یا غیرمسلم، وہ ایرانی ہی ہیں اور ان کے حقوق کی پاسداری ضروری ہے۔ یہ اسلام کا حکم ہے۔ اگر اسلام کا حکم کچھ اور ہے، تو ہمیں تشفی بخش جواب دیں۔ جب تم کہتے ہو یہ ملک اسلامی ہے، تو سب مذاہب، مسالک، قومیتوں، خواتین اور دیگر برادریوں کے حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں