شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

پارلیمنٹ عوام کا گھر ہے، حکومت اور ریاست کا نہیں!

پارلیمنٹ عوام کا گھر ہے، حکومت اور ریاست کا نہیں!

خطیب اہل سنت زاہدان نے ایران کی اسلامی مجلس شورا (پارلیمنٹ) کو بنانے کی وجہ یاددہانی کرتے ہوئے ارکان پارلیمنٹ کے استقلال اور حریت پر زور دیتے ہوئے ‘داخلہ و خارجہ پالیسیوں پر نظر رکھنا’، ‘آئین کے نفاذ کی نگرانی’ اور ‘عوام کے حقوق سے دفاع’ کو پارلیمنٹ اور عوام کے نمائندوں کی سب سے اہم ذمہ داریاں یاد کی۔
مولانا عبدالحمید نے چھبیس مئی دوہزار تئیس کو زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: آج کل ملک میں پارلیمنٹ اور ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں باتیں گردش کررہی ہیں۔اس بارے میں ہم عوام کی شکایتوں اور توقعات کو پیش کرتے ہیں۔دنیا میں کیوں پارلیمنٹ بنائے جاتے ہیں؟آمر نظاموں کو چھوڑدیں تو جمہوری ریاستوں میں پارلیمنٹ کا کام عوام کی نمائندگی ہے۔ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ کو ‘‘اسلامی مجلس شورا’’ اور ‘‘عوام کا گھر’’ کہا جاتاہے۔ پارلیمنٹ ریاست اور حکومت کا گھر یا کوئی مرکز نہیں، عوام ہی کا گھر ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اب پارلیمنٹ کا کام پانی اور بجلی کے مسائل کی پیروی بن چکاہے، حالانکہ یہ حکومت کا کام ہے۔ بنیادی طور پر پارلیمنٹ عوام کے حقوق اور آزادیوں کی پیروی کے ذمہ دار ہے، اسے چاہے ریاستی اداروں پر نظر رکھیں اور حکومت کو چیلنج کریں، آئین کے نفاذ کی نگرانی کریں اور انصاف کی فراہمی کے لیے کوشش کریں۔رکن مجلس کوئی عام آدمی نہیں، وہ کوئی کاشتکار نہیں، اسے فکر و نظر کے حامل اور سمجھدار ہونا چاہیے۔

عوام مسائل کی دلدل میں؛ پارلیمنٹ کیوں خاموش ہے؟
مولانا عبدالحمید نے واضح کرتے ہوئے کہا: پارلیمنٹ قوم کی سب اکائیوں کا گھر ہے اور ہر برادری کو وہاں موثر آواز حاصل ہونی چاہیے۔ حالیہ پھانسیوں کے خلاف کیوں اس پارلیمنٹ سے کوئی صدائے احتجاج سننے میں نہیں آئی؟ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑدی ہے، ان نمائندوں نے عوام کے حقوق کے لیے کیوں موثر آواز نہیں اٹھائی؟ عشروں سے ملک میں امتیازی سلوک، ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم ہے؛ پارلیمنٹ کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟ پھر یہ پارلیمنٹ بنی ہی کیوں؟
انہوں نے مزید کہا: معاشی بحران نے عوام کی نیندیں اڑادی ہے، جیلوں میں قیدیوں سے بدسلوکی ہوتی ہے، خواتین کی عزت تارتار ہوتی ہے؛ یہ خواتین اسی قوم کی بیٹیاں اور بہنیں ہیں۔جبری اعترافات کا سلسلہ جاری ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو چاہیے تھا کہ جیلوں اور قیدخانوں کا دورہ کریں اور عوام کے حقوق کا دفاع کریں۔ علما کو جیلوں میں ڈالا جاتاہے؛ نمائندے دیکھ لیں کیا ان کا احترام کیا جاتاہے یا نہیں؟ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں پھر پارلیمنٹ کا کیا فائدہ ہے؟
خطیب اہل سنت نے کہا: آئین نے عوام کو پرامن احتجاج کا حق دیاہے؛ پارلیمنٹ چیک کرے کیوں جب عوام نے اپنے حقوق کے لیے پرامن احتجاج کیا تو سکیورٹی حکام نے کیوں انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا؟ زاہدان کا خونین جمعہ ایک مثال ہے؛ یہاں لوگ صرف نماز پڑھنے کے لیے آئے تھے اور کوئی موثر احتجاج بھی نہیں ہوا تھا؛ پھر کیوں اتنی بے دردی سے درجنوں افراد کو شہید اور تین سو کو زخمی کیا گیا؟

ملک میں کوئی دینی میرٹکریسی دیکھنے میں نہیں آئی
ایران کے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: اگر پارلیمنٹ کا دروازہ سب افکار و نظریات کے لیے کھول دیا جاتاآج ملک اتنے مسائل میں گرفتار نہ ہوتا۔ نمائندوں کی اہلیت کی تحقیق میں اتنی سختی کی گئی ہے کہ صرف مخصوص لوگ جو عام طورپر حکومت نواز ہوں، وہی رکنیت حاصل کرسکتے ہیں۔ کہا جاتاہے ‘دینی میرٹکریسی’ پر عمل ہورہاہے؛ یہ میرٹکریسی کہاں ہے جس کو ہم نہیں دیکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: تم نے لسانی برادریوں کی قابل شخصیات کو جو وزیر کی حد تک ہیں، صوبائی ڈائریکٹر بھی متعین نہیں کیا۔ تمہیں صرف ان لوگوں کی تلاش ہے جو تم سے وفادار ہوں اور ان کی قابلیت بعد کی بات ہے۔ نتیجہ یہی ہے جو سب کے سامنے ہے ؛ جب عہدے نالائق لوگوں کے سپرد ہوتے ہیں وہ خود بھی پھنس جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی مصیبت میں ڈالتے ہیں۔

اگر اظہارِ رائے کی آزادی ہوتی اتنے صحافی جیلوں میں بند نہ ہوتے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان میں ایرانی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح عمل کرو اور وزیر و رکن پارلیمنٹ کو اسی انداز میں مقرر اور انتخاب کرو۔ اب عوام اتنے مسائل کی دلدل میں گرفتار ہیں اور پارلیمنٹ کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ ارکان پارلیمنٹ عوام کے نمائندے حکومت کے خوش آمدی نہیں۔ تم نے کتنا عوام سے دفاع کیا؟ صحافی جیلوں میں بند ہیں، تم نے ان کے دفاع میں کیا کیا؟ وکیلوں کو عدالت میں ملزموں کی طرح پیش کیا جاتاہے اور ان پر دباؤ ڈالا جاتاہے؛ تم نے کیوں ان کا دفاع نہیں کیا؟
انہوں نے مزید کہا: وکلا ایسوسی ایشن کے سیکرٹری نے خبر دی ہے کہ کم از کم ستر وکلا کو عدالت یا سکیورٹی اداروں میں بلایاگیا ہے؛ دنیا کے کس ملک میں وکیلوں کو اس طرح دباؤ میں رکھاجاتاہے۔ ان کا کام ہی ملزموں یا مجرموں کے حقوق کا دفاع ہے۔ جب تم وکیلوں کو جیلوں میں ڈالتے ہو پھر کون وکالت کا پیشہ اپنانے کی جرات کرسکتاہے؟!
ممتاز سنی رہ نما نے کہا: ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہیے؛ یہ میری بات نہیں، قانون کا حکم ہے۔ میں ایک عام شہری ہوں، کوئی حکم نہیں دے سکتا، لیکن قانون کے ساتھ ساتھ، اسلامی شریعت کے مطابق اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی اور خلفائے راشدین کے دور میں بھی لوگ اپنے مطالبات پیش کرتے تھے اور بعض اوقات آپﷺ کا مشورہ قبول نہیں کرتے تھے، صرف نبی کی حیثیت سے جاری احکام کو مانتے تھے۔ حضرت علیؓ کو اتنے ولی ہونے کے باوجود تنقید سے معاف نہیں کرتے اور بآسانی اپنی بات کہہ دیتے۔جب اسلامی حکومت کا دعویٰ ہوتاہے یہی طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: اس سے پہلے بھی میں نے اسلامی سیاست کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ جمہور مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ سیاست کو اسلام کے تابع ہونا چاہیے؛ ایسا نہ ہو کہ اسلام سیاست کی پیروی کرے۔ اسلامی سیاست میں جھوٹ منع ہے اور حاکم اپنے طور پر جو چاہے حکم نہیں دے سکتاہے۔لیکن ‘سیاسی اسلام’ جو ایک اقلیت کا عقیدہ ہے کے مطابق جو کچھ سیاست کا تقاضا ہو، وہی اسلام ہے اور اسے درست سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اقتدار حاصل کرنے اور بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

پردے کا مسئلہ قانون پاس کرانے سے حل نہیں ہوسکتاہے
ایران میں پردے کے مسئلے کے بارے میں گرماگرم مباحثوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: آج کل ملک میں حکام اور بعض علمائے کرام کی پریشانی پردے کا مسئلہ ہے کہ کچھ خواتین سکارف نہیں پہنتی ہیں۔ دیکھنا چاہیے پردہ جو ایرانی اور مشرقی خواتین کی ثقافت کا حصہ تھا، آج کیوں چھوڑدیاگیا ہے اور بعض لوگ کیوں مخالفت پر تلے ہوئے ہیں؟!تم نے انہیں دشمنی پر مجبور کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: چالان کرنے اور قانون پاس کرانے سے پردے کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ تم ملک کے اہم مسائل پر توجہ دیں اور عوام کی مشکلات حل کریں، پردے کا مسئلہ خود حل ہوجائے گا۔خواتین کا احترام کریں؛ ان کی بے عزتی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے سے پردے کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، بلکہ مسائل مزید گھمبیر ہوجائیں گے۔ان کے ساتھ مشورت کریں اہم امور میں اور امتیازی رویوں اور پالیسیوں کا خاتمہ کریں جن سے خواتین کو شکایت ہے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: جب بحران کی علت اپنی جگہ موجود ہے اور تم اس کے نتائج کا مقابلہ کرتے ہو، واضح بات ہے کہ بحران حل نہیں ہوسکتا۔ سات تومان کا ڈالر پچاس ہزار تومان سے اوپر جاچکاہے؛ لوگ بھوکے ہیں اور انہیں آزادی اور انصاف نہ ہونے کی شکایت ہے۔عوام تمہارے ولی نعمت ہیں اور ان کا احسان تم پر ہے،ان کی اکثریت کا جو بھی مطالبہ ہو، اسے مان لیں تاکہ مسائل حل ہوجائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں