مولانا عبدالحمید:

مذہبی حکومت ایران میں برابری نہیں لاسکی

مذہبی حکومت ایران میں برابری نہیں لاسکی

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے سترہ مارچ دوہزار تئیس کے خطبہ جمعہ میں ایران کی داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں ڈیڈلاک کو ملک پر نافذ مذہبی و مسلکی نگاہوں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کسی بھی ملک میں ایک ہی مسلک یا جماعت برابری اور انصاف فراہم نہیں کرسکتا۔ انہوں نے ایران کے جاری مسائل کے پرامن حل پر زور دیتے ہوئے اکثریت کے مطالبات مان لینے کو اس کا بہترین حل یاد کیا۔

زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت نے ملک میں جاری تنگ نظریوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: گزشتہ چوالیس سالوں میں ملک کی پالیسیوں پر میرا ایک خیرخواہانہ تجزیہ ہے؛ کسی بھی ملک میں حکمرانی کے لیے نقطہ نظر اور نگاہیں بہت اہم ہیں۔ اگر نگاہیں محدود اور تنگ ہوں، مسائل پیش آئیں گے۔
انہوں نے مزید کہا: رب العالمین کی نگاہ بہت فراخ اور وسیع ہے اور اسی نگاہ سے دنیا کو چلاتاہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو روزی دیتاہے۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی جو اس کے ساتھ شریک بناتے ہیں یا اس ذات پاک کو نہیں مانتے ہیں یا اس کی توہین کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ اتنی بلند ہے کہ بعض اوقات ہم بندے تنگ آتے ہیں کہ اللہ انہیں کیوں نہیں پکڑتا، لیکن اللہ تعالیٰ حکیم اور علیم ہے اور انہیں موقع دیتاہے تاکہ توبہ کریں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: سب کو اللہ کا طریقہ اور اخلاقِ الہی اختیار کرنا چاہیے۔ جب نگاہ محدود اور نظر تنگ ہو، اگر ایسی نگاہ گھر ہی میں کیوں نہ ہو، پھر بھی مسائل پیش آتے ہیں۔ اگر کوئی حکمران تنگ نظر ہو، اس سے عوام مشکلات سے دوچار ہوجائیں گے۔ فراخدلی اور وسیع نگاہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔

سب عوامی احتجاجوں کی اصل وجہ حکومت کی مذہبی سوچ ہے
مولانا عبدالحمید نے ملک پر نافذ مذہبی و مسلکی سوچ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمارے ملک میں جب سے نگاہیں مسلکی ہوئیں، مسائل پیدا ہوئے۔ مسلک کوئی بھی ہو، اسلام سے ایک فہم اور شعبہ ہے۔ دین کا دائرہ وسیع ہے، لیکن مسلک کا دائرہ محدود ہے۔ جب سے ملک میں نگاہیں مسلکی ہوئیں، تنگ نظری پیدا ہوئی۔ اسی لیے آج ملک کے مختلف شہری، چاہے شیعہ ہوں یا سنی یا کسی بھی مذہب کے پیروکار یا مختلف لسانی برادریوں سے ہوں، سب کی صدائے احتجاج بلند ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: ایران میں اہل سنت کو شکوہ ہے کہ وہ گزشتہ چوالیس سالوں سے امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ اہل سنت کے قابل افراد کو صوبائی اور قومی اداروں میں ان کا جائز مقام نہیں دیاجارہاہے۔ ایران میں دوسری بڑی اکثریت اہل سنت کی ہے، ان کا سوال ہے کہ مقتدر اداروں، مسلح افواج اور عدلیہ میں ہمارا مقام کہاں ہے؟

اہل تشیع کے قابل افراد کو بھی نظرانداز کیا گیاہے
ایران کے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: ملک میں مسلکی نگاہ کی وجہ سے بعض اہل تشیع کی صدائے احتجاج بھی بلند ہوچکی ہے اور انہیں بھی امتیازی رویوں کی شکایت ہے۔ بعض شخصیات جو ماہر بھی ہیں اور اپنے شعبے میں ماسٹرمائنڈ اور انتہائی قابل سمجھی جاتی ہیں، لیکن مذہبی مسائل میں زیادہ پابند نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: جب ملک میں مسلکی نگاہیں پیدا ہوئیں، سخت فلٹر پیدا ہوئے اور سیلیکش بورڈز بنے جنہوں نے ان لوگوں کو ترجیح دی جو بظاہر مذہبی تھے۔ کچھ لوگوں نے اپنی شکل و صورت دیندار بنایا اور اس رویے سے غلط فائدہ اٹھایا۔ میں نہیں کہتا سب افسران اور حکمران صرف ظاہر سے مذہبی تھے، بعض واقعی دیندار تھے، لیکن بہت سارے قابل سنی اور شیعہ شہری جو ماہر تھے، سرکاری اداروں سے دور رکھے گئے۔ ہرگز ایرانی قوم کی مختلف مسلکی اور لسانی برادریوں میں جن کی تعداد زیادہ ہے، توازن قائم نہیں رہاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: یہ بات واقعی درست ہے کہ ایرانی قوم ایک دھنک اور قوس قزح کی مانند ہے۔ اس بڑی قوم میں مختلف رنگ پائے جاتے ہیں اور مسلکی نگاہ سے ان میں مساوات اور برابری نافذ نہیں ہوسکتی ہے۔ آج اگر ملک میں پریشانی پائی جاتی ہے اور داخلی و بین الاقوامی پالیسیوں میں ملک ڈیڈلاک کا شکار ہے، یہ سب اسی محدود نگاہ کی وجہ سے ہیں۔

پولیس گردی اور سکیورٹی نگاہوں سے ملک گھٹنوں کے بل گرتاہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے ملک میں پولیس گردی اور سکیورٹی نگاہوں سے ملک چلانے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ یاد کرتے ہوئے کہا: ہم نے بہت سارے صدور کو اس شرط پر ووٹ دیا کہ ہمارے صوبے میں پولیس گردی ختم ہو اور یہاں سے سکیورٹی نگاہیں اٹھ جائیں۔ لیکن اب پورے ملک میں پولیس اور مسلح اداروں کا راج ہے۔ حکومتی عہدے فوجیوں کو دیے جاتے ہیں۔ ہم فوجیوں اور سکیورٹی اداروں کے مخالف نہیں، ان کے خیرخواہ ہیں، لیکن کوئی بھی ملک جس میں پولیس کا راج ہو اور سب مسائل سکیورٹی نقطہ نظر سے دیکھے جائیں،وہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے مزید کہا: سکیورٹی نگاہوں اور پولیس گردی سے ملک گھٹنوں کے بل گرجائے گا اور معیشت تباہ ہوکر رہ جائے گی۔ حکومت کی نگاہ عام اور قومی ہونی چاہیے۔ مسلکی نہیں ہونی چاہیے۔ مسلکی نگاہ شکست سے دوچار ہوجائے گی۔مسلکی نگاہ کسی بھی مسلک کی ہو، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ میرا اشارہ کسی مخصوص مسلک کی طرف نہیں۔ نگاہوں کو قومی اور کسی بھی مسلک، جماعت اور قومیت سے بالاتر رکھنا چاہیے۔ ایک مخصوص پارٹی، لسانی گروہ اور مسلک ملک نہیں چلاسکتا۔ ان نگاہوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

سڑکوں پر پولیس کی موجودی کی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیے
مولانا عبدالحمید نے زاہدانی عوام سے خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا: سرحدی علاقوں میں رہنے والے اپنے ملک کی سالمیت، اتحاد اور سرحدوں کی حفاظت پر یقین رکھتے ہیں۔ سب برادریوں کے قابل افراد سے کام لینا چاہیے۔ عوام کے مسلک اور عقیدہ نہیں دیکھنا چاہیے۔ اسی صورت میں ملک کو بند گلی سے نکالنا ممکن ہوگا ۔ یہاں پولیس گردی اور فوجی راج نہیں ہونا چاہیے؛ ایک بڑی اور وسیع نگاہ سے ملک کو داخلہ و خارجہ مسائل سے نجات دلانا ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ملک کو ایسے مقام پر پہنچانا چاہیے کہ سڑکوں پر پولیس کی ضرورت ہی نہ ہو۔ بعض دیگر ملکوں میں لوگ سڑکوں پر کوئی پولیس اہلکار نہیں دیکھتے ہیں۔ میں خود کسی ملک میں مسافر تھا۔ ایک ہفتہ وہاں رہا، لیکن میں نے کوئی پولیس اہلکار نہیں دیکھا۔ لوگ کہتے تھے ایک قیمتی اور مہنگی کار کو پوری رات سڑک پر چھوڑدیں، کوئی بھی اسے چرانے کی کوشش نہیں کرے گا۔اگر کوئی خاتون رات کے کسی بھی وقت اکیلی چلی جائے، کوئی اسے نہیں دیکھے گا۔
ممتاز عالم دین نے مسلکی نگاہوں کے نتائج پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا: جب حکمرانوں کی نگاہیں بلند ہوں، قیدوبند کی صعوبتیں اور سب دباؤ ختم ہوجائیں گی، عوام کا پیٹ بھرجائے گا اور قومی کرنسی کی قدر بڑھ جائے گی۔ ہماری کرنسی کیوں دنیا کی سب سے کم قدر رکھنے والی کرنسیوں میں شمار ہو؟ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ ایک ڈالر کا بھاؤسات تومان تھا(اب چالیس ہزار تومان سے زائد ہے اور ساٹھ ہزار تک بھی گئی)۔ کرنسی کی قدر میں گراوٹ بھی مسلکی و مذہبی نگاہ سے ملک چلانے کا نتیجہ ہے۔ اس نگاہ نے مسلک اور دین اسلام کو بھی نقصان پہنچایاہے اور حقائق سب کے سامنے ہیں، لہذا علما، دانشور، بزرگانِ قوم اور حکام اس بارے میں سوچیں اور مسائل کا حل نکالیں۔

ہم ہرگز صرف اپنی بات کو درست کہنے پر زور نہیں دیتے ہیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارا ہرگز یہ خیال نہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں، صرف وہی بات درست ہے۔ ہمارے خیال میں نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا میں درست پالیسی وہی ہے جو سب کو مدنظر رکھے، کثرت پر توجہ دے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں اور یہاں کے دیگر علما اور عمائدین صرف اپنی بات اور موقف کو درست سمجھتے ہیں۔ ہم سب کو مانتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کسی بھی شخص کا خیال سچا اور موقف درست بھی ہوسکتاہے، اگرچہ ہم ان کے موقف سے اختلاف کریں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم یہ نہیں کہتے کہ جو شخص ہماری طرح نہ سوچے، وہ ہم سے نہیں۔ تمہاری کوئی بھی رائے ہو، ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔ یہاں کوئی بھی نعرے بھی لگائیں، یہ آپ کا حق ہے۔ ہم صرف توہین اور گالی گلوچ سے منع کرتے ہیں۔ قرآن بھی ہمیں یہی کہتاہے کہ لوگوں کے بتوں کو گالی نہ دیں تاکہ وہ خدا کو گالی نہ دیں۔ تمہارا کوئی بھی عقیدہ ہو، دوسروں کی کردارکشی نہ کریں۔ ہمیں یہ پسند نہیں ہے، آپ اپنے مطالبات پیش کریں اور نعرے لگائیں، لیکن توہین اور کردارکشی سے پرہیز کریں۔

آپ سب نے حق کی راہ میں ثابت قدمی دکھائی
خطیب اہل سنت زاہدان نے زاہدانی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: میں آپ سب کے لیے خیر کی دعا کرتاہوں۔ آپ کسی بھی سوچ کی ہوں، آپ نے حق کی راہ میں ثابت قدمی دکھائی۔ ہم یہاں مظلوم ہوئے اور بہت سارے نمازی شہید ہوئے اور کئی افراد زخمی ہوئے۔ آپ نے بیک صدا ان کے حق میں آواز اٹھائی۔ ہم نے کہا یہاں بدامنی نہ پھیلے اور ہم بات کریں گے۔ آپ نے بھی بات کی اور نعرے لگائے؛ ہم نے نہیں کہا کہ آپ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں؛ ہم نے کہا یہ باتیں ہیں، کوئی لڑائی اور بدامنی تو نہیں۔
انہوں نے مزید کہا: الحمدللہ علاقے کا امن محفوظ رہا اور آپ نے صبر سے کام لیا، حالانکہ حکومت نے خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔ حکومت کو چاہیے اس جرم عظیم کے مجرموں کو عوام ہی کے سامنے سزا دلوائے۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ آپ نے ہمدردی کا اظہار کیا اور خیرخواہی دکھائی۔ کسی پر الزام نہ لگائیں اور بدگمانی سے گریز کریں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں کوئی ڈیل ہوچکی ہے؛ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ آج بھی شہر کا امن آپ کے سپرد ہے۔ اپنے نعرے لگائیں اور امن کا بھی خیال رکھیں۔

تشدد اور لوگوں کے حقوق کی پامالی اللہ تعالیٰ کے لیے ناقابل برداشت ہے
اہل سنت ایران کی سماجی و دینی شخصیت نے اپنے بیان کے ایک حصے میں تشدد، زیادتی اور لوگوں کو قتل کرنے کو سنگین گناہوں میں شمار کرتے ہوئے کہا: دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا خدا کے لیے شرک و کفر سے بڑھ کر ہے۔ لوگوں پر ظلم کرنا، انہیں تشدد کا نشانہ بنانا، قتل کرنا اور دوسروں کے حقوق کی پامالی اور مظلوموں کی آواز بلند کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ آپﷺ باربار اپنے سفیروں اور نمائندوں کو نصیحت کی کہ مظلوم کی آہ و دعا سے ڈریں۔ مظلوم کی آہ و پکار لوگوں کے گھروں کو تباہ کردیتی ہے۔ لوگوں کی تقدیر برباد ہوتی ہے اور ان کے آثار تک تباہ ہوجائیں گے۔ شرک بہت بڑا گناہ ہے، لیکن پھر بھی قابل برداشت، لیکن ظلم و ستم ہرگز قابل برداشت نہیں اور یہ انسان کا حق ہے۔

اکثریت کی بات مان لینے سے ملک بند گلی سے نکل سکتاہے
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: میرا نقطہ نظر ہے کہ اگر موجودہ اختلافات پرامن طریقے سے حل ہوجائیں اور اکثریت کے مطالبات مان لیے جائیں، ملک کو بند گلی سے نکالا جاسکتاہے۔ یہ بہترین طریقہ ہے۔ امید کرتے ہیں اس صورت میں قوم بھی معافی کا مظاہرہ کرکے عفو سے کام لے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں