ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران کے شہر زاہدان میں پاسداران انقلاب اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے نمازیوں اور عام شہریوں کیخلاف کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیان میں کہا کہ صوبہ سیستان بلوچستان کے شہر زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد ایرانی سیکیورٹی فورسز نے بلوچ مظاہرین کیخلاف آپریشن کیا جس میں بچوں سمیت 80 افراد شہید ہوئے۔
مسلح اہلکاروں نے شہریوں پر فائرنگ اور شیلنگ کی جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق شہیدوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، بیشتر لوگوں کو سینے، سر اور گردن میں گولیاں ماری گئیں۔
ایمنسٹی نے اسے خونریز جمعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں لڑکی مھسا امینی کی ہلاکت پر تین ہفتے سے حکومت کے خلاف جاری حالیہ احتجاجی کی لہر میں یہ خونریز ترین دن تھا۔
ایمنسٹی کی سیکرٹری جنرل ایجنس کولامارڈ نے کہا کہ ایرانی حکومت نے انسانی جان کی حرمت کو بری طرح پامال کردیا اور ثابت کیا کہ وہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نومبر 2019 میں ہونے والے مظاہروں جن میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہوگئے تھے، اس کے تین سال بعد بھی ایرانی حکومت شہریوں کیخلاف طاقت کا بے رحمانہ استعمال کر رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ ایران میں ہونے والے سنگین جرائم کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
ایمنسٹی نے بتایا کہ ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت نے پولیس سمیت تمام سیکیورٹی فورسز کو حکومت مخالف مظاہرین کو کچلنے کےلیے طاقت کے استعمال کی کھلی چھوٹ دی ہے۔
واضح رہے کہ ایرانی پولیس افسر کی جانب سے 15 سالہ بچی سے جنسی زیادتی کیخلاف زاہدان سمیت ملک بھر میں نماز جمعہ کے بعد احتجاج ہوا تھا جس پر ایرانی فورسز نے گولی چلائی تھی۔
آپ کی رائے