مولانا عبدالحمید:

پرامن احتجاجی مظاہرہ عوام کا حق ہے؛ حکام اپنی برداشت بڑھائیں

پرامن احتجاجی مظاہرہ عوام کا حق ہے؛ حکام اپنی برداشت بڑھائیں

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے جمعہ تیس ستمبر دوہزار بائیس کو زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے ‘پرامن احتجاجی مظاہروں کے انعقاد’ کو عوام کا حق قرار دیتے ہوئے احتجاج کرنے والوں کو ‘عوامی اثاثوں کی تخریب اور افراد کی توہین’ سے اجتناب اور سکیورٹی فورسز اور عدلیہ حکام سے قوت برداشت بڑھانے کی درخواست کی۔
ایران کی سنی برادری کی آفیشل ویب سائٹ سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت زاہدان نے ملک گیر احتجاجوں کے پیش نظر بیان دیتے ہوئے کہا: ایک خیرخواہ شہری کی حیثیت سے بندہ نے بارہا یاددہانی کی ہے کہ ملک کو داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ میری کوئی حکومتی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن ایک شہری کی حیثیت سے حکام اور عوام کو تجویز پیش کرسکتے ہیں اور جذبہ خیرخواہی کے تحت رہنمائی کرسکتے ہیں۔ ہم عوام کے درمیان رہتے ہیں اور قریب سے ان کے مسائل اور مشکلات کو احساس کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: میں نے قانون کے دائرے میں تجویز کی ہے کہ خارجی مسائل میں تناؤ ختم کیا جائے اور دنیا سے اچھے تعلقات قائم کیا جائے۔ اس کے علاوہ، ہمارے حکام کی زیادہ تر توجہ ملک کے داخلی مسائل پر ہو۔ افسوس ہے کہ آج ہمارے ملک میں جو گوناگون نعمتوں سے مالامال ہے، عوام کے لیے زندگی بہت مشکل اور پیچیدہ ہوچکی ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے آئین کے مکمل نفاذ اور مذہبی و قانونی آزادیوں کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا: عوام کو جتنی آزادی حاصل ہو اور ان کی بات سنی جائے، اتنا ہی قومی امن اور اتحاد کو فائدہ پہنچے گا۔ اصلاح پسندوں اور قدامت پسندوں دونوں کے دور حکومت میں اس بات پر زور دیا گیا کہ قوم کے مطالبات پر توجہ دی جائے تاکہ ان کی رضامندی حاصل ہوجائے۔ اگر اس شہری اور دیگر خیرخواہوں اور ماہرین کی باتوں پر توجہ ہوتی تھی، آج ہمارے مسائل بہت کم ہوتے اور عوام کی رضامندی بھی حاصل ہوتی تھی۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: عوام کو مختلف مواقع پر کوئی نہ کوئی شکایت رہی ہے اور اب بھی انہیں اعتراض ہے۔ پرامن احتجاج اور دھرنا عوام کا حق ہے۔ یہ اہم ہے کہ احتجاجی مظاہرے پرامن ہوں اور عوامی مقامات اور اشیا کو کوئی نقصان نہ پہنچایاجائے، کسی کی توہین نہ ہو، امن کا خیال رکھاجائے اور وہاں عوامی شکایات اور مطالبات پیش کیے جائیں؛ دنیا میں یہ ایک عام رواج ہے، خاص کر جمہوری ملکوں میں سب طبقوں کو یہ حق دیا جاتاہے کہ وہ اپنی بات آزادانہ کہیں۔
انہوں نے مزید کہا: سماج میں مختلف قسم کے مسالک، افکار، قومیتیں اور مطالبات پائے جاتے ہیں اور ریاست و حاکمیت کو چاہیے ان سب طبقوں کو دیکھ لیں اور ان کے مطالبات پر توجہ دے کر انہیں مینج کریں۔ اسے کہتے ہیں قوم پر توجہ دینا جس کا نتیجہ اتحاد، امن اور قومی یکجہتی ہے۔ اتحاد و یکجہتی محض باتوں سے حاصل نہیں ہوجاتاہے، بلکہ یہ عوام کو عزت دینے اور ان کی بات سننے سے حاصل ہوتاہے۔ اب بھی ہمارا مطالبہ ہے کہ عوامی مطالبات پر توجہ دی جائے۔
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے عدلیہ اور سکیورٹی فورسز کے ذمہ داران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: عدلیہ اورسکیورٹی فورسز کے ذمہ داران سمیت دیگر متعلقہ حکام کو میرا مشورہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے سامنے برداشت کا مظاہرہ کریں اور عوام کے خلاف کریک ڈاؤن اور سختی کرنے سے گریز کریں، بلکہ ان کے ساتھ رواداری اور نرمی کا مظاہرہ کریں؛ اس کے نتائج سب کے لیے بہتر ہوں گے۔

عوام کو ساتھ رکھنے کے لیے ان کے مطالبات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان میں ایران سے تعلیم یافتہ ماہرین کی جلاوطنی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اخیر سالوں میں بڑے پیمانے پر مختلف فیلڈز کے ماہرین اور تعلیم یافتہ متخصصین کے ملک چھوڑنے اور جلاوطنی سے ہم سب پریشان ہوچکے ہیں اور ہمیں بہت دکھ ہوتاہے۔ ان لوگوں نے کسی بھی وجہ سے ملک چھوڑا ہے، نقصان ہمارا ہوا ہے؛ چونکہ ملک کے اثاثے یہی لوگ ہیں۔ ایران کے اثاثے صرف تیل، گیس اور دیگر مادی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ سب سے بڑا اثاثہ ایلیٹ کلاس اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ دیکھنا چاہیے کہ ان لوگوں کے لیے ایران میں رہنا کیوں مشکل ہوا؟ کیا ہماری کرنسی کی قدر بہت گرچکی ہے یا انہیں یہاں آزادی سے بات کرنے کی اجازت نہیں ملی یا انہیں احساس ہوا ہے کہ وہ آزاد نہیں ہیں؟ ان مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: اگر حکام چاہتے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ رہیں، پھر انہیں عوامی مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کی بات سننی چاہیے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ عوام کی بات سنتے تھے۔ حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ اگر مظلوم کا حق ظالم سے لینا میرے لیے اہم نہ ہوتا، میں خلافت کو قبول نہیں کرتا تھا۔ سو حکومت کی قدر اسی میں ہے کہ عوام کی خدمت ہو اور ان کی رضامندی حاصل ہوجائے۔
مولانا عبدالحمید نے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: حکام قوم کے سامنے تواضع اور انکساری کریں اور عوام کی خدمت کریں؛ اس کی قدر بہت ہے اور اللہ اور اس کے بندوں کی رضامندی حاصل ہوتی ہے۔

چادر اور سکارف ایرانی اور اسلامی کلچر کے حصے ہیں؛ ان کی عزت محفوظ رہے
ممتاز عالم دین نے زاہدان میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کہا: حالیہ احتجاجی مظاہروں میں دیکھا گیا کہ بعض خواتین نے اپنے بال احتجاجا کٹوائے اور سکارفس کو آگ لگادی۔ ایرانی خواتین بشمول مسلم اور غیرمسلم خواتین کو میری نصیحت ہے کہ چادر اور سکارف کو مشرقی خواتین کی ثقافت میں شامل ہیں اور یہ ان کے لباس کا حصہ ہے، اس لباس کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی کو غصہ ہے اور وہ چادر یا سکارف نہیں اوڑھنا چاہتی ہے، یہ اس کی مرضی ہے، لیکن چادر اور سکارف کی بے عزتی اور اسے آگ میں ڈالنا ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے کہا: ہر حال میں افراد اور ثقافتوں کا احترام کرنا ضروری ہے اور ان کی توہین منع ہے۔ چادر اور سکارف ایرانی خواتین کے لباس کے علاوہ، اسلامی ثقافت کا بھی حصہ ہے اور غیرمسلموں کو بھی چاہیے مسلمانوں کی ثقافت کا احترام کریں۔

چابہار کیس کو حکام عادلانہ اور فوری طورپر حل کرائیں
مولانا عبدالحمید نے چابہار میں پیش آنے والے مبینہ ریپ کے کیس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: چابہار میں جو واقعہ کہاجاتاہے پیش آیاہے اور میرے لیے مشکل ہے کہ میں زبان پر لاؤں کہ ایک نوجوان خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، سب عوام کا مطالبہ ہے کہ متعلقہ حکام خصوصی طورپر اس موضوع پر توجہ دیں اور کیس کی عادلانہ پیروی کریں۔
انہوں نے مزید کہا: عدلیہ اور متعلقہ حکام کو چاہیے پوری کوشش کریں کہ اس کیس میں غیرجانبدار رہیں اور انصاف فراہم کریں تاکہ حقیقت چاہے کسی بھی شخص کے خلاف ہو، واضح ہوجائے۔ عوام اور نوجوان پرامن رہیں اور عدلیہ کو وقت دیں تاکہ اپنی تحقیقات کا نتیجہ اعلان کرے۔

صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے اپنے خطاب کے آخر میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی رحمہ اللہ کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: گزشتہ دنوں ایک عالمی اور ممتاز عالم دین (شیخ قرضاوی) انتقال کرگئے۔ انہیں قرآن، حدیث اور فقہ پر کافی دسترس اور مہارت حاصل تھی اور عالمی حالات کے بارے میں بھی آگاہ تھے۔ بہت سارے مسائل میں ان کی نظریات اور افکار عالم اسلام کے تقاضوں ، تبدیلیوں اور حالات کے مطابق تھے۔

نوٹ: تیس ستمبر کی نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد کے باہر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کی وجہ سے درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوئے جس کی رپورٹ الگ شائع ہوگی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں