کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد

کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ریڈ زون میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کیجانب سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار عالمی یوم متاثرین جبری گمشدگی کی مناسبت سے منعقد کی گئی۔
سیمینار میں سنیئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی ، سمی دین بلوچ ، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد ایڈوکیٹ ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سابق سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ ، پروفیسر منظور بلوچ نے شرکت کی جبکہ سیمینار سے نیشنل ڈیمو کرٹیک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ ، پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور سینئر صحافی محمد حنیف بلوچ نے آن لائن خطاب کیا۔
سنیئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی جدوجہد کو ریڈ زون منتقل کیا، وہ کئی سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جدوجہد کررہے ہیں وہ ایک دن ضرور کامیاب ہوں گی، جو مائیں بہنیں سالوں سے احتجاج پر ہیں ان کو ریلیف فراہم کرنا انسانی و اخلاقی تقاضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ چالیس دن سے لاپتہ افراد کے لواحقین ریڈ زون کے سامنے بیٹھے ہیں اور وزیراعلیٰ و گورنر ہاﺅس یہاں سے چالیس قدم کے فاصلے پر ہیں جس کا مطلب یہ عوام کے نمائندے نہیں انہیں عوام پر مسلط کیا گیا ہے اس لیے یہاں نہیں آ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ 1973 میں آئین بنایا گیا جس پر 2010ء میں نظرثانی کی گئی اس آئین میں بھی بنیادی اور انسانی حقوق کی شقیں موجود ہیں مگر بلوچستان میں انسانی حقوق کے چارٹر اور نہ ہی آئین پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے وسائل کی لوٹ مار کے بلوچستان اسمبلی کے فیصلے کو قطعاً قبول نہیں کریں گے، لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ میں سیاست کے نام پر اقتدار میں آنے والوں، سیاست کے نام پر ٹھیکیداری اور اپنی سیاست کو فروخت کرکے موجودہ حکومت کو مسلط کرنے والوں سے نہیں بلکہ حقیقی سیاسی کارکنوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس دھرنے میں آکر ماﺅں بہنوں کا ساتھ دیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ اس وقت جو تاریخ رقم ہورہی ہے اس کا ایک ایک لمحہ تاریخ میں لکھا جائے گا ایک ایک بہن، بیٹی، ماں، بھائی، والد سیاسی کارکن کا کردار تاریخ میں یار رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ میرا وعدہ ہے جب بھی جہاں بھی مظلوم و محکوم اقوام کیلئے آواز اٹھانے کی ضرورت پڑھی اٹھاتے رہیں گے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد ایڈوکیٹ نے کہا کہ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سابق سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین جس درد اور تکلیف سے گزر رہے ہیں اس کی شدت کا احساس کوئی اور محسوس نہیں کرسکتا۔ انہوں نے لواحقین کو یقین دلایا وہ لواحقین کو ہر قسم کی قانونی معاونت فراہم کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو لاپتہ ہونا آئین و قانون کی پامالی ہے تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔
پروفیسر منظور بلوچ نے کہا کہ آج ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں چلتن کی طرح ڈٹی ہوئی ہے لیکن ہماری پارٹیاں، لیڈرشپ، سردار، نواب، پروفیسر، ادیب وہ سب صفر ہوچکے ہیں۔ یہ انکی کمزوری کی نشاندہی ہے کہ آج ہم چوراہوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
منظور بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو بازیاب کیا جائے۔ بلوچ قوم نے مظلوم و محکوم اقوام کے لئے ہونیوالی جدوجہد میں ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا مگر آج ان کے لئے کوئی آواز بلند نہیں کررہا۔
انہوں نے کہا کہ قوم پرست جماعتیں جس جمہوریت کا راگ الاپ رہی ہیں اس جمہوریت میں ہماری مائیں بہنیں گذشتہ چالیس روز سے ریڈ زون کے سامنے بیٹھی ہیں مگر کوئی ان کو پوچھنے نہیں آیا۔
سمی دین بلوچ نے کہا کہ ریڈ زون میں جاری دھرنے کے دوران مختلف وفود نے آکر مذاکرات کیے تاہم وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے، ہمارے حوصلے بلند ہیں اپنے مطالبات منوانے تک دھرنا جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ کئی سالوں سے لاپتہ ہیں ہماری تکلیف محسوس کی جائے، مزید خود کو اذیت میں نہیں رکھ سکتے ہم حکومت سے صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی سطح پر لاپتہ افراد سے متعلق سینیٹر اعظم نذیر تارڈ کی سربراہی میں قائم کمیٹی کا وفد بلوچستان آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کرکے ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کرے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں