زاہدان میں چھبیس نومبر دوہزار اکیس کو سنی نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر کے مشیر خاص نے صدر مملکت کا سلام سیستان بلوچستان کے عوام تک پہنچایا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بجٹ اور عہدوں کی عادلانہ تقسیم کو عوام کا حکومتوں پر حق قرار دیا۔
لسانی و مذہبی برادریوں کے امور میں صدر کے مشیر خاص ماموستا ڈاکٹر عبدالسلام کریی نے کہا: جیسا کہ مرشد اعلیٰ نے فرمایاہے اتحاد کوئی حکمت عملی نہیں، بلکہ سٹریٹجی ہے۔ ہماری جڑیں، ہمارا خدا، پیامبر اور قبلہ ایک ہیں، حتیٰ کہ ہمارے دشمن بھی مشترک ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ عمل میں ہم ثابت کریں ہم ایک ہیں اور ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: آئین کے مطابق اس ملک میں کوئی دوسرے درجے کے شہری نہیں ہے، سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ بانی انقلاب نے بھی یہی کہا ہے کہ شیعہ و سنی بھائی بھائی ہیں اور انہیں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ مرشد اعلیٰ بھی مختلف مسالک کی مقدسات کے احترام پر زور دیتے ہیں اور اس مسئلے کو سرخ لکیر سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر کریمی نے کہا: ہم سب آدمؑ کی اولاد ہیں؛ مرد، عورت اور مختلف لسانی و مذہبی برادریوں میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ زبان ا ور نسل کے انتخاب میں ہمارا کوئی کردار نہیں؛ یہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ تھا؛ لہذا اس وجہ سے کسی کی توہین اور تحقیر جائز نہیں ہے۔
انہوں نے صوبہ سیستان بلوچستان کی اعلیٰ شخصیات اور حکام سے اپنی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب کی کوشش ہے مسائل حل ہوں اور کسی کے حق میں کوئی ظلم نہ ہو۔ ضلعی اور صوبائی عہدوں میں اہل سنت سے کام لینے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
صدر رئیسی کے مشیر نے کہا: جیسا کہ حکومت کا عوام پر حق ہے، عوام کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عہدوں اور بجٹس کو عادلانہ تقسیم کرے تاکہ کوئی بھی ایرانی یہ محسوس نہ کرے کہ اسے نظرانداز کیاگیا ہے۔ اس ملک کی حفاظت کی خاطر شیعہ و سنی دونوں کے خون بہہ چکے ہیں۔
ڈاکٹر کریمی نے اپنے بیان کے ایک حصے میں صوبہ سیستان بلوچستان میں شناختی کارڈ کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک کچھ افراد اس صوبے میں شناختی کاغذات سے محروم ہیں۔ زاہدان کے شیرآباد ٹاؤن میں ایک بچی سے میں نے بات کی۔ میں نے اس سے پوچھا تمہاری خواہش کیا ہے؟ اس نے پارک یا مکان کی درخواست نہیں کی، اس نے کہا میں چاہتی ہوں سکول جاکر پڑھوں۔ کیا انقلاب سے چالیس سال گزرنے کے بعد یہ کوئی بڑا مطالبہ ہے؟
انہوں نے امید ظاہر کی گورنر سیستان بلوچستان اس صوبے سے غربت کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردے اور علمائے کرام سمیت سب طبقات اپنے اپنے حصے کا کام کرکے غربت کی بیخ کنی کے لیے محنت کریں۔
آپ کی رائے