زاہدان (سنی آن لائن)ماموستا ڈاکٹر عبدالسلام کریمی (لسانی، مسلکی اور مذہبی برادریوں کے امور میں صدر رئیسی کے مشیر خاص) نے جمعرات پچیس نومبر دوہزار اکیس کو شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید سے ان کے دفتر میں گفتگو کی۔
سنی آن لائن کے نامہ نگاروں کے مطابق، اس ملاقات اور گفتگو میں جامعہ دارالعلوم زاہدان کے بعض سینئر اساتذہ نیز بعض صوبائی اور ضلعی ذمہ داران بشمول سیاسی امور میں گورنر سیستان بلوچستان کے نائب، زاہدان کے میئر سمیت متعدد افراد نے بھی شرکت کی۔اس ملاقات میں ایران کی سنی برادری کے مسائل اور مختلف برادریوں کے موجودہ حکومت سے مطالبات و توقعات پر گفتگو ہوئی۔
مولانا عبدالحمید: صدر کے مشیر سنی برادری کے مسائل اعلی حکام تک پہنچائیں
صدر دارالعلوم زاہدان نے ماموستا کریمی سے ملاقات میں صوبہ سیستان بلوچستان میں موجود اتحاد و یکجہتی اور قیامِ امن میں عوام کے کردار پر روشنی ڈالی۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: حالیہ صدارتی انتخابات اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سخت ترین الیکشنز میں شمار ہوتاہے؛ انتخابات میں حصہ نہ لینے کے بڑے پیمانے پرپروپگینڈا ہوا، لیکن سنی برادری نے الیکشن میں حصہ لیا۔ اصلاح پسندوں کی جانب سے وعدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے آیت اللہ رئیسی کے حق میں ووٹ ڈالا گیا اور اسی لیے ابھی تک ہمیں تنقید کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔
انہوں نے کہا: موجودہ حکومت سے اہل سنت کے کچھ مطالبات اور توقعات ہیں جنہیں مثبت پذیرائی ملنے سے موجودہ حساس حالات میں قومی اتحاد اور پائیدار امن کی حفاظت میں مدد ملے گی۔ بندہ نے آیت اللہ رئیسی کو خط لکھتے ہوئے اسی بات پر روشنی ڈالی کہ لسانی و مسلکی برادریوں سے کام لینے کی صورت میں قومی یکجہتی کو بڑی تقویت حاصل ہوگی۔
ممتاز سنی عالم دین نے ایرانی صدر کے سنی مشیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ کی ذمہ داری بہت بھاری ہے۔ امید کرتے ہیں آپ کی تقرری پورے ملک اور ایرانی قومیتوں اور مسالک کے لیے خیر کا باعث ہو۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: صدر مملکت کے محترم مشیر سے ہمارا مطالبہ ہے کہ عوامی مطالبات کو صدر مملکت سمیت دیگر اعلیٰ حکام تک پہنچائیں تاکہ انہیں سماج کے حقائق کا علم ہو۔
ایرانی صدر کے مشیر: حکومت میں اہل سنت سے کام لینے کا فائدہ ریاست کو پہنچتاہے
صدر رئیسی کے مشیر خاص ماموستا ڈاکٹر عبدالسلام کریمی نے اپنی گفتگو میں سب سے پہلے آیت اللہ رئیسی کا سلام مولانا عبدالحمید کو پہنچاتے ہوئے کہا: محترم صدر مملکت نے میرا مشن یہ متعین کیا ہے کہ صوبہ سیستان بلوچستان کے سفر میں اہل سنت کے قابل افراد کی تقرری اور ان سے کام لینے کے مسئلے کی پیروی کروں۔
انہوں نے مزید کہا: صوبائی گورنر اور ان کے نائب سے ملاقات میں مجھے کہا گیا کہ اہل سنت سے ضلعی گورنر اور صوبائی گورنر کے نائب کی حد تک کچھ افراد مقرر ہوچکے ہیں۔ بندہ نے عرض کیا یہ تقرریاں ضروری ہیں، لیکن کافی نہیں ہیں اور یہ سلسلہ جاری رکھناچاہیے۔ جس طرح ملکی سطح پر ایک کرد ایڈمرل کو بحریہ کی کمان سونپی گئی، یہی مرشد اعلیٰ کی سٹریٹجی ہے۔
ڈاکٹر کریمی نے کہا: اتحاد کے موضوع پر اہل سنت کے قابل افراد کو اعلیٰ عہدوں پر متعین کرنے کے مثبت اثرات کئی کتابوں کی تصنیف سے زیادہ ہیں۔ اتحاد کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے، اب عمل کی باری ہے تاکہ آئین پر عمل کیا جائے۔
انہوں نے کہا: اہل سنت کے مطالبات آئین ہی کی حدود میں ہیں اور آرٹیکل 19 کے مطابق، ایرانی عوام جن کا تعلق کسی بھی قومیت اور برادری سے ہو، انہیں مساوی حقوق میسر ہیں اور رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر کسی کو فوقیت نہیں دی جائے گی۔
ماموستا کریمی نے کہا: اہل سنت سے کام لینا اور انہیں اعلیٰ عہدوں پر متعین کرنا ”ادائیگی“ نہیں ”سرمایہ کاری“ ہے۔ ایسا عمل کرنا چاہیے کہ کوئی بھی برادری یہ محسوس نہ کرے کہ انہیں نظرانداز کیا جارہاہے۔انہیں احساس ہونا چاہیے کہ انتخابات کے بعد بھی وہ اہم ہیں۔
یاد رہے آیت اللہ رئیسی نے مختلف لسانی و مذہبی برادریوں کے امور کے لیے مشیر خاص متعین کیا ہے جس کا تعلق ایرانی صوبہ کردستان سے ہے۔
آپ کی رائے