استاذنا المکرم حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ پون صدی پر محیط ہمارے خاندان کے گوناگوں مراسم اور تہہ در تہہ تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ اگر ایک پوری کتاب لکھی جائے تو صفحات کم پڑ جائیں گے۔ صدمہ کے عالم میں مصیبت یہ ہوتی ہے کہ قلم اٹھاؤ تو لفظ غائب ہو جاتے ہیں اگرچہ مفہوم لوح دماغ پر جگمگا رہا ہوتا ہے۔ احباب کے پیہم تقاضوں کے باوجود اس وقت کوئی مربوط تحریر نہیں لکھ سکتا، بس چند جھلکیوں پر اکتفا کرتا ہوں۔
۱۔ کم و بیش پون صدی پر مشتمل ان مراسم کا آغاز 1955ء میں ہوتا سے جب دادا جان مولانا عبد الحق نافع گل کاکاخیلؒ ( برادر خورد اسیر مالٹا مولانا عزیر گل رح ) جامعہ عربیہ نیو ٹاؤن (جو اب جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کہلاتا ہے)میں بحیثیت اولین شیخ الحدیث تشریف لائے اور حضرت ڈاکٹر صاحبؒ نے ان سے پہلے مشکوۃ اور پھر بخاری شریف پڑھی۔
۲۔ ڈاکٹر صاحبؒ کی رسمی فراغت (1957ء )کے ایک سال بعد والد ماجد مولانا عبد اللہ کاکاخیلؒ کی بنوری ٹاؤن ہی سے (1958ء) میں فراغت ہوئی اور یہیں سے ان دونوں بائیس تئیس سالہ نوجوان علماء، جو حضرت بنوریؒ کی آنکھ کا تارا اور ان کی امیدوں کا مرکز تھے، کے باہمی دوستانہ و برادرانہ مراسم کا آغاز ہوا۔
۳۔ رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت ڈاکٹر صاحبؒ اور والد ماجدؒ دونوں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن میں مدرس مقرر ہو گئے۔
۴۔ 1961ء میں دونوں حضرات اکٹھے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ (مدینہ یونیورسٹی) تشریف لے گئے اور یہ پاکستان سے جانے والے طلبہ کا پہلا وفد تھا۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی تاسیس کے دوسرے سال پہلی دفعہ پاکستان سے چار ہی طلبہ گئے تھے، جن میں ان دو حضرات کے علاوہ مولانا حسن جان شہیدؒ اور مولانا لطف اللہ عباسی مدنیؒ تھے۔
۵۔ مدینہ یونیورسٹی میں چار سال اکٹھے ایک ہی کمرے میں گزار کر دونوں حضرات (یعنی والد صاحبؒ اور حضرت ڈاکٹر صاحبؒ) واپس جامعہ بنوری ٹاؤن آ گئے۔ اور اپنے شیخ و مربی حضرت بنوریؒ کے زیر سایہ مصروف تدریس ہو گئے۔
۶۔ صادق آباد ضلع رحیم یار خان کے ایک متمول زمیندار اور بزرگوں سے وابستہ دینی شخصیت سردار اجمل خان لغاری صاحبؒ کے حضرت بنوری کے توسط سے ڈاکٹر صاحب سے مراسم قائم ہوئے اور محبت و مودت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کے رشتہ کی بابت ڈاکٹر صاحب سے بات کی۔ اور ڈاکٹر صاحب ہی کے مشورے سے والد صاحب کا رشتہ ان کے ہاں طے پایا۔
۷۔ نانا جان سردار اجمل خان لغاری صاحبؒ نے حضرت بنوریؒ سے اپنی صاحبزادیوں کی عربی تعلیم میں معاونت چاہی تو حضرت بنوریؒ نے معاملہ حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کے سپرد کیا۔ اس طرح والدہ ماجدہ کی عربی تعلیم بذریعہ خط و کتابت حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کے پاس شروع ہوئی۔
۸۔ جب والد صاحب کا نکاح ہوا تو باراتیوں میں صرف حضرت ڈاکٹر صاحبؒ ، ان کی اہلیہ اور دو سالہ صاحبزادی تھے۔ ہمیشہ فرماتے کہ تمہارے والد کی بارات میں دولہا کے علاوہ فقط ہم اڑھائی بندے گئے تھے۔
۹۔ نکاح کے بعد والدہ ماجدہ رخصت ہو کر بنوری ٹاؤن آ گئیں۔ والد ماجد کو وہی گھر ملا جس میں حضرت ڈاکٹر صاحبؒ تا وفات مقیم تھے۔ بس اتنا فرق تھا کہ یہ گھر اُس وقت دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک میں والد صاحبؒ اور دوسرے میں مولانا ادریس میرٹھی صاحبؒ مقیم تھے۔ والد صاحب کے 1975ء میں نائجیریا چلے جانے کے بعد ڈاکٹر صاحبؒ اس گھر میں تشریف لائے۔ حضر میرٹھیؒ کے انتقال کے بعد دونوں گھروں کو ایک کر دیا گیا اور حضرت ڈاکٹر صاحب نے ساری عمر اپنے وسیع کنبے کے ساتھ ان تین چھوٹے چھوٹے کمروں میں گزار دی۔
۱۰۔ 1999ء میں والد صاحب کا انتقال ہوا، حضرت ڈاکٹر صاحبؒ تعزیت کیلئے تشریف لائے۔ آج بھی بیٹھک میں حضرت کا بچوں کی طرح بلک بلک کر رونا یاد آتا ہے۔ چھوٹی ہمشیرہ نے حضرت مجذوبؒ کے وہ اشعار جو انہوں نے حضرت تھانویؒ کی وفات پر کہے تھے، ایک پرچہ پر لکھ کر ڈاکٹر صاحب کو بھیج دئیے۔ غم کے اس موقع پر ان اشعار نے تو گویا قیامت ڈھا دی۔ بار بار پڑھتے اور روتے جاتے
؏ کوئی مزہ مزہ نہیں، کوئی خوشی خوشی نہیں
تیرے بغیر زندگی، موت ہے زندگی نہیں
۱۱۔ درجہ سادسہ کیلئے اس عاجز کا جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن جانا ہوا، اور حضرت کی شفقتوں کا وہ مشاہدہ ہوا جس کا بیان دشوار ہے۔ غیرملکی دار الاقامہ میں قیام کا بندوبست فرمایا اور ہر جمعہ کو دوپہر کا کھانا اپنے گھر اپنے ساتھ لازم فرمایا۔ درجہ سادسہ سے دورہ حدیث تک کے ان تین سالوں میں جب یہ ناچیز اس کھانے سے غیر حاضر رہا تو اپنے مخصوص مشفقانہ محبت بھرے انداز میں تنبیہ فرمائی۔
آہ، اب وہ باتیں یاد آتی ہیں تو آنکھوں میں جل تھل ہو جاتا ہے۔ فی الحال قلم کی ہمت جواب دے گئی ہے لہٰذا ان مختصر نکات پر اکتفا کرتا ہوں۔
آپ کی رائے