اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں انسانی سوسائٹی پر اپنے عذاب کی مختلف صورتیں، سطحیں اور دائرے بیان فرمائے ہیں، ان میں سب سے بڑا عذاب آخرت کا عذاب اور قبر کا عذاب ہے جس سے تعوذ اور پناہ کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل دعائیں مانگنے کی تلقین فرمائی ہے۔ مگر دنیا میں بھی عذاب کے مختلف پہلو اور صورتیں قرآن کریم میں مذکور ہیں جن کا مقصد تنبیہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اس تنبیہ اور وارننگ کے بعد لوگ توبہ کر لیں اور اپنے گناہوں اور نافرمانی سے باز آجائیں جیسا کہ سورۃ السجدۃ کی آیت ۲۱ میں ارشاد ربانی ہے کہ ہم ان کو بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب سے دوچار کرتے ہیں تاکہ وہ رجوع کر لیں۔
اس کا مطلب ہے کہ عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے جو حتمی سزا کے طور پر نہیں بلکہ خبردار کرنے اور توبہ کا موقع دینے کے لیے ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اس کے بعض مراحل کا ذکر کیا گیا ہے جن میں سے ایک کا تذکرہ سورۃ الاعراف کی آیات ۱۳۰ تا ۱۳۶ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ جب حضرت موسٰی اور ہارون علیہما السلام فرعون کے پاس بنی اسرائیل کی آزادی اور آل فرعون کی ہدایت کے لیے تشریف لائے تو فرعون اور اس کے خاندان نے سرکشی کا راستہ اختیار کیا، اور حضرت موسٰیؑ کی ہدایت اور پیغام کو قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے مقابلہ اور بنی اسرائیل کو اذیتوں میں مبتلا کرنے کی نئی حرکتیں شروع کر دیں۔ جن کا شکوہ بنی اسرائیل نے حضرت موسٰیؑ سے ان الفاظ میں کیا کہ ’’أوذینا من قبل ان تأتینا و من بعد ما جئتنا‘‘ حضرت ہمیں آپ کی تشریف آوری سے قبل بہت اذیتیں دی گئی ہیں اور اب آپ کی آمد کے بعد ان اذیتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ حضرت موسٰیؑ نے قوم کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب فرعون اور آل فرعون کو تباہ کر کے تمہیں زمین کی خلافت سے سرفراز فرما دیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جو تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے آل فرعون کو خشک سالی اور قحط سالی کے ساتھ مال و دولت کی پیداوار میں کمی کے ذریعے پکڑا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ’’لعلھم یذکرون‘‘ وہ نصیحت حاصل کر لیں اور اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ مگر انہوں نے الٹی روش اختیار کی اور حضرت موسٰیؑ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں لوگوں کا ذہن یہ بنانا شروع کر دیا کہ لوگوں کو کہیں سے بہتری حاصل ہوتی تو کہتے کہ یہ ہماری وجہ سے ہے اور ہمارا حق ہے، لیکن کوئی تکلیف پہنچتی تو کہتے کہ یہ موسٰیؑ اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس پر ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک اور خون عذاب کی صورت میں مسلط کر دیں، یعنی ان چیزوں کی حد سے زیادہ کثرت ان کے لیے عذاب بن گئی۔ لیکن وہ اپنے تکبر پر قائم رہے اور جرائم کا بدستور ارتکاب کرتے رہے۔ البتہ جب عذاب برداشت سے بڑھا تو وہ حضرت موسٰیؑ کے پاس آئے اور کہا کہ ’’اُدع لنا ربک‘‘ آپ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کریں، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر یہ عذاب ہم سے ٹل گیا تو ہم ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزادی دے کر آپ کے ساتھ فلسطین بھیج دیں گے۔ فرمان خداوندی ہے کہ ان کے اس وعدہ پر ہم نے عذاب ہٹایا تو وہ منکر ہو گئے اور وعدہ توڑ دیا، جس کے بعد ہم نے انہیں سمندر میں غرق کر دیا اور حضرت موسٰیؑ اور بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے آزادی دلا دی۔
اس قسم کی صورتحال جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیش آئی کہ جب مکہ والوں کے مظالم اور سرکشی حد سے بڑھ گئی تو نبی اکرمؐ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ ان پر یوسف علیہ السلام کے دور کی طرح قحط سالی کا عذاب نازل فرما۔ چنانچہ خشک سالی کا دور شروع ہوا اور ہر طرف بھوک اور قحط نے ڈیرے ڈال لیے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورۃ الدخان میں دھوئیں کی شکل میں جس عذاب کا ذکر ہے وہ یہی عذاب ہے جو مکہ والوں پر نازل ہوا تھا، اور دخان کی صورت یہ تھی کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے آنکھوں کو ہر طرف دھواں ہی دھواں دکھائی دیتا تھا۔ حالانکہ حقیقت میں وہ دھواں نہیں ہوتا تھا بلکہ بھوک کی شدت اور غلبہ کا اثر ہوتا تھا۔ انہوں نے بھی نبی اکرمؐ سے کہا کہ وہ اس عذاب کے ٹلنے کی درخواست کریں اور خود بھی کہا کہ اے اللہ ’’اکشف عنا العذاب انا مؤمنون‘‘ ہم سے عذاب ہٹا دے ہم ایمان لے آئیں گے، مگر عذاب ہٹائے جانے کے بعد بھی وہ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہے اور بالآخر مکمل ناکامی سے دوچار ہوئے۔
ان آیات و واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انسانی سوسائٹی پر عمومی عذاب، وباؤں اور اجتماعی آزمائشوں کی صورت میں جو حالات آتے ہیں ان کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ لوگوں کو ان کی نافرمانی اور سرکشی پر تنبیہ کرنا مقصد ہوتا ہے جو عام طور پر پورا نہیں ہوتا۔ البتہ اتمام حجت کے بعد وہ عذاب آجاتا ہے جو حتمی سزا کے طور پر ہوتا ہے اور قومیں تباہی سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ ہم اس وقت پوری دنیا میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے جس ابتلا کا شکار ہیں اس کے طبی اور سائنسی اسباب کچھ بھی ہو سکتے ہیں، اور علاج و احتیاط کی ضرورت سے بھی انکار نہیں بلکہ سنت نبویؐ اور شرعی تقاضہ ہے، مگر اس کا یہ پہلو بھی ہم سب کو سامنے رکھنا چاہیے جس کا قرآن کریم نے تذکرہ فرمایا ہے اور ظاہری اسباب و احتیاط کے ساتھ توبہ و استغفار کی طرف بھی پوری توجہ دینی چاہیے۔
آپ کی رائے