ایرانی بلوچستان کے ضلع ایرانشہر(دامن) میں پیدا ہونے والے اور پھر وہیں نشوونما حاصل کرنے والے مولانا نظرمحمد دیدگاہ رحمہ اللہ کو نہ صرف ان کے پڑوس میں رہنے والے لوگ بلکہ پورے صوبے بلکہ ملک اور آس پاس کے ملکوں کے خواص جانتے ہیں۔ مولانا دیدگاہ رحمہ اللہ کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے ہر خاص و عام ان کی خداداد صلاحیتوں سے واقف تھا۔ ذیل میں مختصرا ان کی مبارک زندگی اور خدمات کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے۔
پیدائش اور ابتدائی تعلیم
نظرمحمد ولد مزار ایرانی بلوچستان کے مرکز میں واقع ضلع ایرانشہر (پہرہ) کی معروف بستی ”دامن“ میں 1932ء کو پیدا ہوئے۔ (آپؒ کی تاریخ پیدائش بعض حوالوں میں 1934ء لکھی ہوئی ہے)۔ دامن (بلوچی: ڈمّن) ایک آباد علاقہ ہے جو ایرانشہر سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پرخاش کی شاہراہ کے کنارے میں واقع ہوا ہے۔ اس پرانی بستی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔
مولانا نظرمحمدؒ اسی گاؤں میں پیدا ہوئے اور چھٹی جماعت تک پرائمری کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ایک عالم دین کی ترغیب پر اپنے کچھ اقربا کے ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان روانہ ہوئے۔
سندھ کے دیس میں
یہ 1952ء کی بات ہے۔ ہونہار بلوچ طلبہ جن میں مولانا نظرمحمد بھی شامل تھے دارالعلوم ٹنڈوالہ یار پہنچے۔ ابتدائی دینی تعلیم یہیں حاصل کرنے کے بعد جب یہ مدرسہ داخلی مسائل کا شکار ہوتاہے، آپؒ حیدرآباد کے قریب مدرسہ دارالرشاد پیرجھنڈا چلے جاتے ہیں۔ ہدایۃ النحو وغیرہ یہاں پڑھنے کے بعد ’دارالہدیٰ‘ ٹیڈی میں ڈیرہ ڈالتے ہیں۔
دارالہدیٰ ٹیڈی میں دوسرے تعلیمی سال کے دوران سخت بیماری کی وجہ سے کراچی جانے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس طرح تعلیمی سفرکو یہاں جاری رکھتے ہیں۔ جامعہ دارالعلوم کراچی اس وقت ’نانک واڑہ‘ میں تھا جب مولانا نظرمحمد کو کراچی میں سبق پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی اور مولانا مفتی محمدتقی عثمانی دامت برکاتہم ان کے ہم سبق ساتھی تھے۔ مولانا دیدگاہؒ دارالعلوم ہی میں زیرِ تعلیم تھے کہ یہ جامعہ شہر سے باہر کورنگی (لانڈھی) منتقل ہوا۔ انہوں نے ایک سال دارالعلوم کراچی کے نئے کیمپس میں بھی گزارا۔ دورہ حدیث کے سال کچھ گاؤں والے بھی ان کے ساتھ گئے، لیکن انہیں دارالعلوم کراچی میں داخلہ نہیں ملا۔ چنانچہ مولانا نظرمحمد اپنے ساتھیوں کی خاطر دارالعلوم ٹنڈوالہ یار گئے اور وہاں مولانا ظفراحمد عثمانیؒ سمیت دیگر اساتذہ سے استفادہ کرکے 1961ء (1380ہجری)کو فارغ التحصیل ہوئے۔ مولانا نظرمحمدؒ نے اپنا اصلاحی تعلق مولانا ظفراحمد عثمانیؒ سے قائم کرکے ان کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔
مولانا غلام اللہ خانؒ سے عقیدت و استفادہ
جب مولانا دیدگاہؒ کراچی میں زیرِ تعلیم تھے،حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ کراچی کے دورے پر آتے تھے۔ مختلف مقامات پر ولولہ انگیز خطابات کرتے اور لوگوں کو بدعات اور غیرشرعی رسم و رواج سے منع کرتے تھے۔ ان کی محنتوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد تائب ہوکر توحید و سنت کی راہ پر گامزن ہوئے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی بھی ان کا آناجانا ہوتا اور وہاں بھی درسِ قرآن دینے اور خطاب کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔
اسی دوران مولانا نظرمحمدپابندی سے ان کی مجالس میں شرکت کرتے تھے اور ان کی علمیت اور بہادری سے سخت متاثر تھے۔چنانچہ انہوں نے مولانا غلام اللہ خان اور ان کے شاگردِ رشید مولانا عبدالغنی جاجرویؒ کے دورہ تفسیر میں شرکت کرکے ان سے مزید استفادہ کیا۔ مولانا غلام اللہ خانؒ کی بہادری و زورِ خطابت کا رنگ مولانا نظرمحمد کی پوری زندگی میں مشہود و واضح تھا۔آپؒ ہمیشہ انہیں بڑے جذبے اور ولولے کے ساتھ یاد کرتے اور اپنی یادوں کا تذکرہ کرکے آنسو بہاتے تھے۔
وطن واپسی اور عملی زندگی کا آغاز
دارالعلوم ٹنڈو الہ یار سے فراغت کے بعد1961 میں مولانا نظرمحمد وطن واپس ہوئے۔ دینی خدمات کے ساتھ ساتھ، آپ نے محکمہ تعلیم میں بطورِ استاذ بچوں کو پڑھانا بھی شروع کیا۔ دس سال اسکولوں میں پڑھانے کے بعد دوستوں کے مشورے اور اصرار پر آپؒ نے سٹی کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا اور ایرانشہر لوکل کونسل کے رکن بنے اور بعد میں اس کے صدر بھی منتخب ہوئے۔
اسی دوران آپؒ نے بعض سرکردہ بلوچ علمائے کرام کے وفد میں شامل ہوکر1968میں شاہِ ایران سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات کی روداد سناتے ہوئے مولانا نظرمحمد نے راقم اور اس کے ساتھیوں سے ایک انٹرویو میں کہا: ”1968ء کو ہمیں اطلاع دی گئی کہ کچھ بلوچ علمائے کرام کو تہران لے جانے اور شاہ سے ملاقات کرانے کا پروگرام طے ہوا ہے۔ تین سو سے چار سو افراد نے نام لکھوائے؛ ان سے امتحان لیا گیا اور تیس سرکردہ علما چن لیے گئے۔ مولانا عبدالعزیز ملازادہ، مولانا مصلح الدین، مولانا شہدادبھی شامل تھے۔ ہمیں تہران سے چالوس پہنچادیا گیا۔ وہاں ہم نے شاہ سے مصافحہ کیا اور ایک ایک کرکے سب نے اپنا تعارف پیش کیا۔ بلوچستان کے علما کاترجمان میں مقرر ہوا اور اس کے سامنے مجھے خطاب کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوا جب کچھ بلوچ عمائدین اور علاقے کے خان عراق چلے گئے تھے اور انہوں نے شاہ کے خلاف اقوام متحدہ میں شکایت کی تھی۔ شاہ ہمیں یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ بلوچستان ان کے لیے اہم ہے اور بلوچستان کی ترقی کے لیے محنت ہورہی ہے۔ چنانچہ ہمیں بعض ترقیاتی پروگرامز بھی دکھائے گئے۔“ (مذکورہ انٹرویو ’ندائے اسلام‘ میگزین میں شائع ہوچکا ہے)
ایران میں 1979ء کو انقلاب ہوا اور شاہ کی حکومت تاریخ کا حصہ بن گئی۔ جس وقت انقلاب ہوا، مولانا نظرمحمد ایرانشہر کی سٹی کونسل کے رکن تھے۔ انقلاب کے بعدقومی پارلیمان کی جگہ ’اسلامی مجلس شوریٰ‘ وجود میں آئی اور 1981ء میں اس کے انتخابات ہوئے۔ وقت کے علما کے کہنے پر مولانا دیدگاہ نے بھی نام لکھوایا۔ لیکن قانونی طورپر آپؒ مجلس شوریٰ کے رکن نہیں بن سکتے تھے، چونکہ سابقہ حکومت میں آپ سٹی کونسل کے صدر رہے تھے۔ لیکن ان کی خدمات اور شاہ کے خلاف خطابوں اور سرگرمیوں کی پاداش میں انہیں خصوصی طورپر مجلس شوریٰ کے لیے اہل قرار دیا گیا اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کو شکست دے کر آپ ؒ نے الیکشن جیت لیا۔
جس دوران مولانا دیدگاہؒ ایرانشہر اور سرباز کے عوام کو پارلیمنٹ میں نمائندگی کررہے تھے، نیا آئین پاس ہوا جس کی بعض شقوں پر اہل سنت کے علما اور دانشوروں کو اعتراض تھا اور انہوں نے سخت احتجاج بھی کیا۔ ان ہی دنوں ایران کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والی سنی شخصیات نے شورائے مرکزی سنت (شمس) نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد اہل سنت کے حقوق کا دفاع تھا۔ یہ تنظیم مولانا دیدگاہ ہی کے گھر پر وجود میں آئی اور مولاناؒ نے اس کی تاسیس میں کلیدی کردار ادا کیا۔
شجاعت و بہادری
بلوچستان میں بطورِ خاص مولانا نظرمحمدؒ اپنی بہادری و حق گوئی کی وجہ سے مشہور و معروف ہیں۔ آپؒ حرفِ حق زبان پر لانے سے ہرگز گریز نہیں کرتے اور سامنے والے چاہے کتنی ہی بڑی شخصیت ہوتی، آپؒ اپنی بات کہہ دیتے۔
انقلاب سے پہلے جب شاہ کی حکومت حکمرانی کررہی تھی، ایک مرتبہ ایرانشہر کی سکیورٹی کونسل کی میٹنگ تھی۔ مولاناؒ چونکہ سٹی کونسل کے صدر تھے، حسبِ قانون آپؒ بھی جلسہ میں شریک تھے۔ سب نے بات کرتے ہوئے مخالفین کو کچلنے کے عزم کا اظہار کیا۔ لیکن مولانا نظرمحمدؒ کسی پرواہ کے بغیر واضح الفاظ میں اعلی سویلین اور عسکری حکام سے کہا کہ شاہ جلد از جلد ایران سے جانے والا ہے۔ یہ حکومت گرنے کو قریب ہے، لہذا اپنی فکر کریں اور لوگوں سے ٹکراؤکی سوچ ذہن سے نکالیں۔ موجود حکام اور افسران چونک اٹھے اور انہوں نے حیرت کے ساتھ احتجاج بھی کیا، لیکن مولانا اپنی بات پر ڈٹے رہے۔
مولانا دیدگاہ رحمہ اللہ صحابہ و بزرگان دین کا بے حد احترام کرتے اوران کی شان میں گستاخی کو ناقابل برداشت جرم سمجھتے تھے۔ چنانچہ جس وقت رکن قومی اسمبلی تھے، آپؒ نے صحابہ کے دفاع میں تقریر کی اور حضرت معاویہؒ کے بارے میں اہل سنت کے عقیدے کو واضح کیا۔ ایک مرتبہ معروف انقلابی رہ نما خلخالی کو زمین پر گراتے ہوئے پارلیمنٹ میں اپنی عصا سے خوب اس کی پٹائی کی؛ وجہ یہ تھی کہ اس رکن اسمبلی اور چیف جسٹس نے ایک دن قبل تہران کے جماران علاقے میں مولانا عبدالحمید اور مولانا عبدالملک شہید کو دیکھ کر بدزبانی کرکے ان کی توہین کی تھی۔ مولانا نظرمحمدؒ کہتے ہیں اس واقعے کے بعد آیت اللہ خلخالی سدھر گئے اور ان سے اچھی دوستی قائم ہوئی۔
تربت جام (صوبہ خراسان) میں کوئی جلسہ منعقد ہوا تھا۔ جلسے میں تربت جام سے منتخب رکن پارلیمان نے خطاب کرتے ہوئے بعض علما بشمول ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی شان میں گستاخانہ الفاظ زبان پر لایا تها۔ مولانا دیدگاہؒ نے اسی جلسے میں اس کا جواب دیا اور پھر پارلیمنٹ میں پٹائی کی نوبت بھی آئی۔
مولانا نظرمحمدؒ نے پوری دینی تعلیم علمائے دیوبند کے مدارس میں حاصل کی تھی اور اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے، لیکن علمی استفادہ کے لیے آپؒ دیگر عرب و عجم کے علما کے بھی قدردان تھے اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور مولانا مودودی جیسی شخصیات کی خدمات کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے تھے۔
قید وبند کی صعوبتیں اورجلاوطنی
مولانا دیدگاہ رحمہ اللہ حق کی بات واضح الفاظ میں کہتے اور حق گوئی کے ممکنہ نتائج بھگتنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؒ نے جامع مسجد مکی زاہدان میں جمعے کے دن تقریر کرکے بعض حکومتی رویوں پر سخت تنقید کی۔ حکام نے مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ جو اس وقت اہل سنت زاہدان کے خطیب اور دارالعلوم زاہدان کے صدر تھے، کو اطلاع دی کہ مولانا نظرمحمد کو گرفتار کیا جائے گا۔ مولانا عبدالعزیز نے انہیں کہا کہ مولانا نظرمحمد میرے مہمان ہیں، تم ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے ہو۔ تقریبا ایک ماہ بعد، مولانا نظرمحمد نے دوبارہ خاش میں تقریر کی۔ اس کی پاداش میں ان پر مقدمہ چلاکر 1986ء میں انہیں گھر سے گرفتار کیا گیا۔ پہلے زاہدان اور پھر تہران کی جیلوں میں ڈالے گئے۔
مولانا نظرمحمد نے تقریبا تین سال قید و بند کی صعوبتیں اور سخت ترین ٹارچر جھیلنے کے بعد رہائی پائی۔
مولانا دیدگاہؒ کے مطابق، رہائی کے بعد انہیں مسلسل زاہدان بلایا جاتا تھا اور ہراساں کیا جاتا تھا۔ حالات کو سخت اور مخالف پاکر مولانا نظرمحمد رحمہ اللہ نے ہجرت کی راہ اختیار کی۔ چنانچہ 1995ء میں آپؒ نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ کراچی میں رہ کر مولانا نظرمحمدؒ نے مختلف ملکوں کا دورہ کیا اور بعض معروف شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ہندوستان بھی گئے۔ عرب ممالک میں بطور خاص رہے اور وہاں کی بلوچ برادریوں میں دین کی تبلیغ کی اور ان کے تنازعات کو شریعت کی رو سے حل کرنے میں لگ گئے۔
چھ سال بعد آپؒ نے واپس وطن کا رخ کیا۔
وطن واپسی اور سانحہ انتقال
سن دوہزار ایک میں حکومتی وعدوں کے بعد کہ مولانا نظرمحمد پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی، مولاناؒ متحدہ عرب امارات سے ایران آئے۔ زاہدان ایئرپورٹ پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اس دوران مولانا نظرمحمد رحمہ اللہ اپنے آبائی علاقہ دامن میں ایک خستہ حال کچھے کمرے میں رہے اور صبح سے شام تک لوگوں سے ملتے رہے۔ ایک دینی مدرسہ کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ، آپؒ کا زیادہ تر وقت مطالعہ میں گزرتا۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور بعض سیاسی و سماجی شخصیات ان کے پاس جاتے رہتے تھے اور ان کے مفید مشوروں اور نصیحتوں سے استفادہ کرتے رہتے تھے۔ آپ بوجہ علالت چلنے پھرنے سے عاجز تھے اور کئی گھنٹوں تک ایک ہی جگہ پر بیٹھنا ان کی عادت تھی۔
بعض دینی مجالس میں شرکت کرکے مولانا نظرمحمدؒ صدائے حق بلند کرنے سے باز نہیں آئے اور آخری دم تک اپنے مواقف پر قائم رہے۔
اسی حالت میں جب پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں آئی ہے، مولانا نظرمحمدؒ بھی بیمار ہوئے۔ ڈاکٹروں نے انہیں کورونا وائرس سے متاثر قرار دے کر ایرانشہر کے مقامی اسپتال میں داخل کرایا۔ کئی دنوں تک بیماری کے بستر پر رہنے کے بعد بالاخر پانچ جون دوہزار اکیس میں دین کے اس عظیم داعی نے داعی اجل کو لبیک کہہ کر دارِ فانی سے رخصت ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مولانا نظرمحمد دیدگاہ رحمہ اللہ کے جنازے پر ایرانشہر کی مرکزی عیدگاہ میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی امامت میں نماز پڑھی گئی۔سخت گرمی کے باوجود پورے صوبے اور آس پاس کے صوبوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ تدفین آبائی علاقہ دامن میں ہوئی۔ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الأَبْيَضَ.
آپ کی رائے