عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمیدرحمہ اللہ کی یادداشتیں

عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمیدرحمہ اللہ کی یادداشتیں

سلطان عبدالحمید مرحوم نے جو 1876ء سے 1909ء تک سریر آرائے خلافت رہے، خلافت سے معزولی کے بعد نظربندی کے دوران ذاتی ڈائری کے طور پر اپنی یادداشتیں قلمبند کی تھیں۔
ان کا عربی ترجمہ عین شمس یونیورسٹی کے استاد پروفیسر محمدحرب نے کیا ہے۔ ان یادداشتوں کا آغاز سلطان مرحوم نے اپنے خلاف عائد کیے جانے والے اس الزام کے جواب سے کیا ہے کہ کہ سلطان عبدالحمید ادب و لٹریچر کا دشمن ہے اور اس نے اپنے دور میں شعراء، ادیبوں اور قلمکاروں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے اس سلسلہ میں تقابل کے طور پر اپنے بڑے بھائی سلطان مراد خامس کا ذکر کیا ہے کہ سلطان مراد کو ترکی کے نوجوان انقلابیوں نے اپنا لیڈر بنا کر اسے تخت نشین کرنے کے لیے سلطان عبدالعزیز مرحوم کو معزول کرایا جو سلطان مراد اور سلطان عبدالحمید کے چچا تھے۔ اور معزولی کے بعد سلطان عبدالعزیز مرحوم نے ان انقلابیوں کے بقول خودکشی کرلی۔ سلطان مراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ موسیقی کا دلدادہ تھا، مغربی تہذیب و ثقافت کا شیدائی تھا، فرانسیسی زبان روانی سے بولتا تھا اور لندن میں قیام کے دوران برطانوی ولی عہد سے ذاتی دوستی اور اس کے ذریعہ فری میسن تحریک سے روابط استوار کرچکا تھا۔ وہ ترکی کے انقلابی نوجوانوں کی تحریک کا سرپرست اور زبردست مالی معاون تھا۔
اسی پر منظر میں اسے سلطان عبدالعزیز مرحوم کو معزول کرکے خلیفہ بنایا گیا تھا جبکہ اس کی عمر چھتیس برس تھی۔ لیکن خلافت سنبھالنے کے بعد وہ دماغی مرض کا شکار ہوگیا اور ایک دن بھی کارہائے خلافت کی انجام دہی کے لیے منظر عام پر نہ آسکا۔ چنانچہ مجبور ہوکر 39 دن کے بعد اسے خلافت سے الگ کرکے سلطان عبدالحمید کو خلیفہ بنانا پڑا۔ سلطان عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ان کے بڑے بھائی سلطان مراد کو انقلابیوں نے ایک منظم منصوبے کے تحت اپنا ہمنوا بنایا اور پھر خلافت کے منصب تک پہنچایا۔ اسے ترکی میں ادب و کلچر کے سرپرست کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور ایک دانشور و قومی شاعر کی حیثیت سے اس کا تعارف کرایا جاتا تھا۔ مگر سلطان عبدالحمید کے بقول اس کی علمی حالت یہ تھی کہ وہ چند سطریں بھی ڈھنگ سے نہیں لکھ سکتا تھا۔ سلطان عبدالحمید نے اس سلسلہ میں سلطان مراد کے ایک خط کا مضمون بھی نقل کیا ہے جو چھ سات سطروں پر مشتمل ہے اور فواد پاشا کی بیماری پر اس کے اہل خانہ کو لکھا گیا ہے۔ سلطان عبدالحمید نے لکھا ہے کہ جب سلطان مراد یہ خط لکھ رہے تھے وہ ان کے پاس موجود تھے۔ یہ خط وہ ایک دفعہ میں مکمل نہیں کرسکے تھے کئی بار لکھا اور پھر اسے بدقت تمام مکمل کیا۔ لیکن اس کے باوجود اس چھ سطری خط میں گرائمر کی واضح غلطیاں موجود ہیں۔ سلطان عبدالحمید نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انقلابیوں نے محض اپنے مفادات کی خاطر و ادب سے کوسوں دور ایک شخص کو قومی شاعر اور ادب و علم کے ہیرو کے طور پر پیش کیا اور سلطان عبدالحمید کی کردارکشی کرتے ہوئے اسے علم دشمن اور ادب و لٹریچر کا مخالف قرار دے دیا۔
اس کے بعد سلطان عبدالحمید نے ان ادباء اور دانشوروں کا ذکر کیا ہے جو اس کے مخالف تھے اور اسے خلافت سے الگ کرنے کی تحریک میں شامل رہے۔ مگر سلطان نے ان کے خلاف نہ صرف یہ کہ کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ ان میں سے بعض کو مخالفت کے باوجود نوازا۔ سلطان عبدالحمید نے ضیاء بیگ کا ذکر کیا ہے کہ وہ ان کے سب سے بڑے مخالف تھے اور وہ انہیں جلاوطن کرسکتے تھے اور ان کے لیے اس بارے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، لیکن محض ان کے علم و فضل کے احترام میں ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ البتہ وہ ادب و شعر کے نام پر قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے خلاف تھے اور حریت فکر کے قومی تقاضوں سے انحراف کو برداشت کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئے۔
سلطان عبدالحمید مرحوم نے اس بات کا بطور خاص ذکر کیا ہے کہ انہوں نے جس وقت منصب خلافت سنبھالا تو خلافت عثمانیہ پر بیرونی قرضون کی مقدار تین سو ملین لیرہ تک پہنچ گئی تھی جسے انہوں نے بتدریج کم کرنے کی پالیسی اختیار کی اور باوجودیکہ انہیں بلقان کی جنگوں اور روس کے ساتھ جنگ کے اخراجات برداشت کرنے پڑے اور کئی اندرونی بغاوتوں سے نمٹنا پڑا، مگر وہ ان سب کچھ کے باوجود اپنے دور خلافت میں اس قرضہ کو تین سو ملین سے کم کرکے صرف تیس ملین تک لانے میں کامیاب ہوگئے۔ حتی کہ انہوں ن ے اس مقصد کے لیے سرکاری اخراجات میں اس حد تک کمی کردی کہ انہیں بخیل خلیفہ کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ لیکن جب ان کے بعد انجمن اتحاد و ترقی کے انقلابی نوجوانوں نے اختیارات سنبھالے تو یہ قرضے تھوڑے ہی عرصہ میں پھر تیس ملین سے چار سو ملین تک جاپہنچے۔
سلطان عبدالحمید نے روس کے ساتھ خلافت عثمانیہ کی 1877ء میں ہونے والی جنگ کا تذکرہ کیا جس میں خلافت عثمانیہ کو شکست ہوئی اور روس کی زارشاہی حکومت نے خلافت عثمانیہ سے کئی علاقے ہتھیالیے۔ سلطان کا کہنا ے کہ انہوں نے یکے بعد دیگرے دو خلیفوں کی معزولی کے بعد 1876ء میں خلافت کا منصب سنبھالا تھا اور اس وقت انقلابیوں اور تبدیلی پسند نوجوانوں کو یہ حیثیت حاصل ہوگئی تھی کہ وہ خلیفہ کو معزول کرنے اور اس کی جگہ دوسرے شخص کو بٹھانے میں کامیاب ہوجاتے تھے، اس لیے انہوں نے اسی حوالے سے عوام میں مقبولیت رکھنے والے لیڈر مدحت پاشا کو صدر اعظم بنادیا اور اسے مکمل اعتماد سے نوازا۔ حتی کہ ملک میں دستوری حکومت کے قیام کے لیے مختلف حلقوں کی طرف سے دستوری مسودات پیش کیے گئے تو انہوں نے ان میں سے مدحت پاشا کے تیار کردہ دستوری خاکہ کو منظور کیا۔ لیکن مدحت پاشا کی حالت یہ تھی کہ خودپسندی اور اپنی رائے پر ہٹ دھرمی کی حد تک اصرار نے اسے مطلق العنان بنا دیا تھا۔ اور اسی ہٹ دھرمی کے باعث اس نے خلافت عثمانیہ کو تیاری کے بغیر اس جنگ میں جھونک دیا۔ حالانکہ سلطان عبدالحمید کا کہنا ہے کہ وہ خود اس جنگ میں شامل ہونے کے حق میں نہیں تھے۔ صورتحال یہ تھی کہ سربیا اور بلغاریہ میں خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت ہوچکی تھی اور بیرونی ممالک نے مشترکہ طور پر خلافت عثمانیہ سے مطالبہ کردیا تھا کہ وہ سربوں کو جبل اسود اور دیگر علاقے حوالے کردکے اور بلغاریہ کو آزادی دینے کا اعلان کردے۔ جبکہ روس نے ایسا نہ کرنے کی صورت میں کھلم کھلا جنگ کی دھمکی دے دی تھی۔ سلطان عبدالحمید نے لکھا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے کے حق میں تھے اور جنگ کے لیے تیار نہ تھے لیکن مدحت پاشا ہر حالت میں روسی چیلنج کو قبول کرنے پر زور دے رہے تھے۔ حتی کہ انہوں نے مجلس وزراء سے اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرلیا اور خلافت عثمانیہ جنگ میں کود پڑی جس میں اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
سلطان عبدالحمید نے لکھا ہے کہ ان کے صدر اعظم مدحت پاشا نے انہیں بتایا کہ روس کے خلاف جنگ کی صورت میں برطانیہ اور فرانس نے خلافت عثمانیہ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ حالانکہ یہ بات غلط تھی اور سفارتی ذرائع سے خلیفہ تک برطانوی وزیر خارجہ کا پیغام پہنچ چکا تھا کہ روس کے ساتھ جنگ میں وہ خلافت عثمانیہ کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کرسکیں گے۔ انہوں نے مدحت پاشا کو بلا کر اس پیغام سے آگاہ کیا لیکن وہ جنگ کے سوا اور کسی بات کے لیے تیار نہیں تھے۔ سلطان عبدالحمید نے لکھا ہے کہ انہیں صدر اعظم اور افواج کے کمانڈر انچیف نے بتایا کہ اس وقت ان کے پاس دو لاکھ کی تعداد میں مسلح افواج تیاری کی حالت میں موجود ہیں اور کسی بھی دشمن کے حملہ کو روک دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مگر اسی دوران خلیفہ کو محاذ جنگ کے کمانڈر جنرل احمد مختار پاشا کا ٹیلی گرام موصول ہوا کہ اس کی کمان میں صرف تیس ہزار فوج ہے اور وہ اس پوزیشن میں دشمن کی لاکھوں کی تعداد میں فوج کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ سلطان کے بقول انہوں نے ٹیلی گرام موصول ہونے کے بعد فوری طور پر صدراعظم اور کمانڈر انچیف کو قصر خلافت میں طلب کیا اور ٹیلی گرام دکھا کر صورت حال کی وضاحت کرنے کے لیے کہا تو صدر اعظم نے یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑایا کہ انہیں فوج کی استعداد اور تیاری کا علم نہیں۔ جبکہ کمانڈر انچیف پر کپکپی طاری ہوگئی جس سے میں نے یہ سمجھ لیا کہ اس وقت جنگ میں کودنا پاگل پن کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ مگر قوم مدحت پاشا کے ساتھ تھی اور مدحت پاشا ہر حالت میں جنگ چاہتے تھے اس لیے جنگ ہوئی اور اس کے نتائج بھی جلد سامنے آگئے۔
سلطان عبدالحمید نے لکھا ہے کہ مدحت پاشا کی مغرب نوازی ان کے علم میں آچکی تھی اور وہ جانتے تھے کہ انگریزوں کے ساتھ مدحت پاشا کے خفیہ روابط ہیں۔ حتی کہ سفارتی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کردی تھی کہ مدحت پاشا کے رفیق کار جنرل عونی پاشا نے انگریزوں سے بھاری مقدار میں رقوم وصول کی ہیں۔ لیکن چونکہ رائے عامہ مدحت پاشا کے ساتھ تھی اور اسے قومی ہیرو کی حیثیت دے دی گئی تھی اس لیے ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ اسے صدر اعظم کا منصب عطا کریں، اس کے پیش کردہ مسودہ دستور کو منظور کریں، اور اس کی پالیسیوں پر ہر حالت میں منظوری کے دستخط ثبت کریں۔ حتی کہ جب بات حد سے بڑھ گئی اور قطعی طور پر ناقابل برداشت ہوگئی تو انہوں نے مدحت پاشا کو معزول کرنا پڑا۔ سلطان عبدالحمید نے مدحت پاشا اور ان کے رفقاء کے کردار کے حوالہ سے اور ابھی بہت سے باتیں لکھی ہیں جن میں سے بعض کا آئندہ کالم میں تذکرہ کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں