کالم نگاری بھاری ذمہ داری ہے

کالم نگاری بھاری ذمہ داری ہے

قلم اور قلم کار کی اہمیت و ضرورت ہر دور میں مسلّم رہی ہے۔ قلم کی گواہی خود خالق کائنات نے دی ہے، جو اس کی عظمت، اہمیت و ضرورت کی دلیل ہے۔ قلم علم و دانش اور تہذیب انسانی کے ارتقا کا ذریعہ ہے۔ قلم کی بدولت انسان غاروں سے نکل کر مہذب دور میں رہائش پذیر ہوا۔ قلم نے قوموں کی تقدیر بدلنے اور غفلت میں ڈوبی قوموں کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آزادی میں قلم کا اہم کردار ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا قلم ”الہلال“ میں اور مولانا ظفرعلی خان کا قلم ”زمیندار“ میں عوام میں آزادی کی روح پھونکتا تھا۔ قلم علم و آگہی کا بہترین ذریعہ ہے، جو تدبر و تفکر کے بند دریچوں کو وا کرتا ہے۔ عالموں، دانشوروں، لکھاریوں، ناول نگاروں، افسانہ نگاروں، ادیبوں اور نقادوں کو قلم کی وجہ سے ہی دوام عطا ہوا ہے، صدیوں انہیں یاد رکھا جاتا ہے، یہ سب قلم ہی کے مرہون منت ہے۔ اپنی ثقافت، مذہبی تعلیمات، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور قومی ہیروز کی خدمات کو اگلی نسل تک پہنچانا قلم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ قلم سے معاشرتی اصلاح نہایت احسن انداز میں کی جاسکتی ہے۔ صدیوں سے اہل علم و دانش قلم کے ذریعے یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
قلم اور قلم کار کا رشتہ گہرا ہے۔ کالم نگار و کالم نویس دیگر مصنفین کی طرح بہترین قلم کار ہیں۔ کالم نویسی کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ادارتی صفحے پر کالموں کا سلسلہ مغرب میں شروع ہوا تھا، کالم نگار سیاست، سماجی مسائل، ادبی معاملات اور دیگر اہم موضوعات پر اپنا زاویہ نظر اختصار سے لکھتے تھے۔ کالم کے ابتدائی دور میں اخبارات کم شایع ہوتے تھے، ان کے صفحات بھی کم ہوتے تھے۔ لکھنے والے بھی کم ہی ہوتے تھے، لیکن اس وقت جید اور بلند پائے کے قلم کار ہی اخبار میں مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کیا کرتے تھے، جن میں بیشتر نے ادب کی دنیا سے کالم نگاری کے میدان میں قدم رکھا اور اپنے پیچھے گراں قدر ادبی و علمی سرمایہ چھوڑ گئے۔ وہ ہمیشہ ذمے داری سے لکھتے اور بردباری کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔
آج وطن عزیز میں روزانہ سیکڑوں اخبارات نکلتے ہیں اور ہر اخبار میں اوسطاً چھ سے بارہ کالم شایع ہوتے ہیں۔ کالم نگار ہونا فخر کی علامت سمجھی جاتی ہے، اسی لیے معاشرے میں دن بدن کالم نگاری کا شوق بڑھتا جارہا ہے اور اخبارات کے ساتھ کالم نگاری کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کالم نویسی باقاعدہ ایک فن، اہم فریضہ اور ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ کالم نگار معاشرے کی تصویر کو اپنے خیالات، نظریات اور فکر کے ذریعے قلم کی زبان عطا کرکے الفاظ کے روپ میں ڈھالتا ہے۔ وہ جو دیکھتا اور سوچتا ہے، اسے الفاظ کے ذریعے دوسروں کے ذہن پر ثبت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والے افکار کا بالاستیعاب مشاہدہ کراتا ہے اور مشاہدے کی طاقت سے معاشرے اور اس میں ہونے والے تمام افعال کو الفاظ کی تصویر پہناتا ہے۔ وہ خود کو معاشرے کے لیے وقت کیے ہوتا ہے۔
کالم نگاری کی سماجی و سیاسی، تہذیبی و تمدنی، اخلاقی اور ہمہ گیر وسعت و معنویت اور افادیت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ کئی کالم نگاروں کی تحریروں نے قارئین کی ذہنی سطح بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کئی کالم نگار اپنے قارئین کو مختلف موضوعات پر نئے زاویے اور جدید خیالات سے روشناس کراتے ہیں، جس کی بدولت لوگوں میں کسی جماعت یا مکتبہ فکر کی اندھی تقلید کے بجائے حقائق پر مبنی رائے رکھنے کا رجحان پیداہوتا ہے۔ مخلص اور اچھا کالم نگار ہزاروں لوگوں کی کردار سازی کرسکتا ہے۔ اس کا قلم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح ثابت کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس کے الفاظ رائے عامہ بدلتے ہیں۔ اس کے نظریات و افکار قارئین کے ذہنوں میں جگہ بنالیتے ہیں۔ سچا کالم نگار اپنے قارئین سے محبت کرتا ہے اور محبت میں جھوٹ، ریا کاری اور منافقت نہیں ہوتی، بلکہ حق اور سچ ہوتا ہے۔ وہ اخلاص، مثبت اور معتدل سوچ کے ساتھ لکھتا ہے اور اپنے مفادات کی خاطر کبھی ضمیر کا سودا نہیں کرتا۔ اس کے پیش نظر حقائق ہوتے ہیں۔ کالم نگار ایک مصلح کی طرح ہوتا ہے۔ معاشرے کے سامنے صحیح اور غلط راہ کی نشاندہی کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
جوں جوں زمانے میں جدت آرہی ہے، توں توں حالات بھی بدل رہے ہیں۔ لوگوں کی سوچ و فکر بھی تبدیل ہورہی ہے۔ اب کالم ماضی کی طرح موثر نہیں رہا۔ کالم نگارہ شکوہ کرتے ہیں کہ بہت سے لوگ کالم کو نظریہ سازی کی بجائے صرف شوق کے لیے پڑھتے ہیں، جبکہ بیشتر لوگ کالم نگار سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کالم نگار ماضی کی طرح مخلص نہیں رہا تو قاری کا پہلے جیسا نہ رہنا فطری بات ہے۔ مؤثر کالم نویسی کے لیے علمی پس منظر، اجتماعی شعور، تحقیقی بصیرت، معتدل رویہ، شگفتگی و شائستگی اور غیرجانیداری سمیت کئی شرائط ہیں۔ بدقسمتی سے کئی کالم نویس ان اصول و ضوابط سے انحراف کرتے ہیں۔ ان کی نظر اپنے تعلقات اور مفادات پر ہوتی ہے۔ وہ کسی پارٹی سے تعصب، مفاد اور رنجش رکھتے ہیں۔ ایسی کالم نگار حق سچ اور دل اور ضمیر کی آواز نہیں لکھتے، بلکہ لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے کے لیے وہی کچھ لکھتے ہیں، جو پڑھنا لوگ پسند کرتے ہیں، چاہے وہ غلط ہو اور لکھاری کی سوچ سے میل نہ کھاتا ہو۔ جو کالم نگار شہرت حاصل کرنے کے لیے مذہب و سیاست کو بنیاد بنا کر متنازع کالم لکھتے ہیں، ایسے کالم نگار یقینا قوم سے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں، کیونکہ ایک کالم نگار ایک مصلح ہوتا ہے، جو عوام کی واہ واہ سمیٹنے کی خاطر ان کی غلط خواہشات پر نہیں چلتا، بلکہ عوام کو درست راستے کی رہنمائی کرتا ہے، چاہے عوام کو قلم کار کی بات کتنی ہی تلخ کیوں نہ لگے۔
کالم نگاروں کے قافلے میں چاہے کتنے ہی مفادپرست شامل ہوگئے ہوں، لیکن اس کے باوجود آج بھی بہت سے کالم نگار ایسے ہیں، جن کی ہر بات دل سے نکلتی ہے اور دل میں اترجاتی ہے۔ قارئین کی ایک بڑی تعداد انہیں اس لیے پسند کرتی ہے کہ ان کے کالمز میں انہیں نئے رجحانات، حوصلہ افزائی، سچائی اور آگاہی ملتی ہے۔ یہ ہمیشہ سچائی کے قلم سے اپنے ضمیر کی آواز پر بامقصد لکھتے ہیں۔ انہیں ان کی تحریروں کے بدلے میں عوام الناس کی بے تحاشا دعائیں اور بے شمار محبتیں میسر آتیں ہیں۔ یہ اپنے قلم کی حرمت ہی کو اپنی کل کمائی سمجھتے ہیں۔ ان کے سینوں میں معاشرے، عوام اور ملک کے لیے درد ہوتا ہے۔ ان کے کالموں میں عوام کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے لیے بھی رہنمائی موجود ہوتی ہے۔ وہ درست بات لکھتے ہیں، چاہے کسی کو بری ہی کیوں نہ لگے۔ کالم نگاری کو ایسے لوگوں نے نقصان پہنچایا ہے، جن کا مطمع نظر مفادات کا حصول ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے ضمیر کا سودا کرنا پڑے۔ ایک کالم نگار اگر قلم کا صحیح استعمال کرے تو وہ معاشرے کو صحیح خطوط پر استوار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ قلم کی حرمت اور معاشرے کی اصلاح کالم نگار کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ یہ کام نہیں کرتا تو وہ خیانت کا مرتکب ہے۔ اللہ ہم قلم کار کو حق لکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں