آذربائیجان آرمینیا کی تازہ لڑائی کے تناظر میں تبصرہ

قرہباخ کی ’فیصلہ‌کن لڑائی‘

قرہباخ کی ’فیصلہ‌کن لڑائی‘

قفقاز کے جنوب میں واقع پہاڑی علاقہ قرہباخ گزشتہ ایک صدی کے دوران نسلی بنیادوں پر متنازعہ رہاہے۔ تاریخی طورپر یہ علاقہ آذربایئجان ہی کا حصہ ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی یہ علاقہ آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیاجاتاہے۔ 1923ء میں جب سوویت سوشلسٹ یونین نے آذربائیجان پراپنا قبضہ جمایا تھا، اس علاقے کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے اسے خصوصی حیثیت دی گئی۔ 1989ء میں جب سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہورہا تھا، یہاں کی آبادی کی بائیس فیصد آذری اور چھہتر فیصد ارمنی تھی۔ کرد، تاتار اور روسی لوگ بھی یہاں آباد تھے۔ بعد میں آذری باشندوں کی آبادی یہاں گھٹتی رہی یہاں تک کہ نومبر انیس سو ترانوے میں جنگ بندی ہوئی۔ تقریبا پانچ سالہ خانہ جنگی میں بیس ہزار آذری شہید جبکہ چار ہزار لاپتہ ہوئے۔ زخمیوں کی تعداد پچاس ہزار بتائی جاتی ہے۔ دس لاکھ آذری بھی اندرون ملک بے گھر ہوئے۔

اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ قرہباخ آذربائیجان کا حصہ ہے اور مقامی ارمنی نام نہاد حکومت کو یہ علاقہ خالی کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود عالمی طاقتوں کے پس و پیش اور ارمینیا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ علاقہ ایک نام نہاد ’جمہوریہ کیلا‘ کے کنٹرول میں رہا ہے۔ اس دوران چھوٹے پیمانے پر لڑائیاں اور گولہ باری کی نوبت آئی ہے، لیکن پہلی دفعہ بڑے پیمانے پر شدت کے ساتھ لڑائی کے شعلے بلند ہوچکے ہیں۔

مسلم ریاست آذربائیجان رقبہ، آبادی اور معیشت کے لحاظ سے اپنے ازلی دشمن ارمینیا سے تقریبا تین گنا زیادہ طاقتور ہے۔ اگرچہ یہاں پچپن فیصد سے زائد آبادی شیعہ برادری کی ہے، لیکن سیکولر سٹیٹ ہونے اور دین کی طرف کمزور جھکاؤ کی وجہ سے وہاں مسلکی تفریق نہیں پائی جاتی ہے۔ آذربائیجان کے بیک وقت ترکی اور روس سے قریبی تعلقات ہیں؛ ترکی پوری طرح آذربائیجان کے ساتھ کھڑا ہے یہاں تک کہ اسے فوجی مدد بھی فراہم کرتاہے۔

دوسری جانب ذرائع ابلاغ کے مطابق آذربائیجان نے اسرائیل سے بھی مراسم قائم کرکے اس سے پانچ ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے جن میں ڈرون طیارے شامل ہیں۔ اسی وجہ سے کہاجاتاہے کہ عسکری لحاظ سے بھی آذربائیجان اپنے دشمن سے آگے ہے اور اس نے اس جنگ کے لیے پوری تیاری کی ہے۔ لیکن جغرافی لحاظ سے ارمنی فورسز آگے ہیں؛ 4400 کلومیٹر وسیع علاقے کی پہاڑیاں ارمنی جگنجوؤں کے قبضے میں ہیں اور آذربائیجانی فورسز کے لیے مقبوضہ علاقے چھڑوانا سخت کام ہے۔

مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کی پیروی کرنے والے آرمینیا کے بھی اچھے خاصے دوست ہیں، روس ان میں سرفہرست ہے۔ لیکن اس کی بدقسمتی سے اس کے دوستوں کی ترجیحات مختلف اور آپس کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ بین الاقوامی قوانین بھی اس کے حق میں نہیں۔ عسکری کمزوری کی وجہ سے فی الحال کرایے کے فوجی اس کے کام بھی نہیں آئیں گے۔

نئی دنیا میں جنگیں انڈسٹری بن چکی ہیں اور عالمی طاقتیں ان ’مارکیٹس‘ میں اپنا اسلحہ بیچ کر لوگوں کے خون کا سودا کریں گی۔ تیس سال سے زائد کا عرصہ گزرچکاہے، لیکن نام نہاد عالمی برادری نے آذربائیجان کو اس کا قانونی حق دلوانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔

دوسری طرف، تیس برس گزرنے کے بعد قرہباخ میں رہ کر حکومت کرنے والے ارمنی آبادکار آسانی سے یہ علاقہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اسی لیے آئے روز لڑائی کی سطح اور شدت میں اضافہ دیکھنے میں آتاہے۔ آرمینیائی حکام نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اب کی لڑائی فیصلہ کن ہوگی۔ آگے دیکھتے ہیں اس لڑائی کا نتیجہ کس کے حق میں اور کس کے خلاف ہوگا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں