یکم مئی۔۔۔ مزدور کی عظمت کا اسلامی تصور

یکم مئی۔۔۔ مزدور کی عظمت کا اسلامی تصور

یکم مئی کے تاریخی دن کو عالمی سطح پر ”یوم مزدور“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ آج سے ٹھیک 134 برس قبل شکاگو میں محنت کشوں اور مزدوروں کی قربانیوں کو وہ حیثیت اور مقام ملا جس کو رہتی دنیا تک خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔
اس سال تو کورونا وائرس نے ساری دنیا کو مقید کردیا ہے جس سے سب سے زیادہ متاثر مزدور طبقہ ہو رہا ہے ورنہ گزشتہ سالوں میں اس دن کے حوالے سے دنیا کے تقریبا ہر ملک میں اجتماعات، پروگرام، مجالس، سیمینارز، جلسے جلوس اور ریلیوں کا اہتمام اور انعقاد ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ملک ہو، ترقی پذیر یا پسماندہ، مزدور کے حقوق کی آواز مئی کے آمد کے ساتھ ہی بلند ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہ بالکل بجا ہے کہ محنت کشوں اور مزدور کو یہ بنیادی اور جمہوری حق حاصل ہے کہ وہ توانا آواز کے ساتھ اپنے حقوق کی بات کرسکے کیونکہ آج کے ترقی یافتہ دور کے استحصالی نظاموں میں یہ غیرفطری ریت چل پڑی ہے کہ ”حق دیا نہیں جاتا بلکہ لیا جاتا ہے“۔
انسانی تاریخ میں ویسے تو جبر و تشدد، ظلم و زیادتی کے بے شمار ہولناک واقعات پیش آئے ہیں اور نہ جانے آنے والے ادوار میں مزید کتنی خون آشام گھڑیاں اپنے سیاہ چہرے سے نقاب الٹتی رہیں گی لیکن حاکم و محکوم، آقا و غلام، ظالم و مظلوم اور مالک و مزدور کی روایتی اور جبلتی کشمکش میں دو ایسے اجتماعی واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی سفاکیت پر آسمان کے ستارے بھی اشک بار ہوئے، جن کی وحشت ناکی پر شجر و حجر لرزے اور جن کی سفاکیت پر در و دیوار نے آہ و فغان کیا۔
مزدور اور غریب جن انگڑائی لیتا ہے تو فرعونی ایوان لرز اٹھتے ہیں۔ چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا ہے جب مصر پر صدیوں سے حکمرانی کرنے اور عوام کو اپنا غلام بنانے والے فرعون کے مقابلے میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جنہوں نے اللہ کے حکم سے فرعون کے ظلم کا شکار مصریوں اور قبطیوں کے حق میں آواز بلند کی اور فرعون کی خود ساختی خدائی کو چیلنج کیا، نسل در نسل ناانصافیوں، زیادتیوں اور سفاکیوں کی زنجیریں کھلے میدان میں ٹوٹ گئیں۔ سچائی و صداقت کے علمبرداروں نے غلامی کے طوق اپنے گلے سے اتار کر پھانسی کے پھندے کو چوم چوم پر قبول کرلیا مگر پیچھے نہ ہٹے۔ آگے بڑھے اور بڑھتے چلے گئے۔ بلندیوں پر پہنچنے اور شکست خوردہ فرعونی بت ان کے سامنے بونا نظر آنے لگا۔
استحصالی نظام کے اس ظالمانہ تسلسل کا بڑا واقعہ یکم مئی 1886ء میں آج کی فرعونی مملکت کی ریاست شکاگو میں پیش آیا، جہاں مزدوروں کا حق مارنے والے حکومتی اہلکاروں، قارون کی طرح دولت کے انبار لگانے والے صنعت کاروں اور سانپ کی طرح کنڈلی مارے سرمایہ داروں نے نہتے مزدوروں پر حملہ کردیا اور احتجاج کرنے والے شکاگو کے مزدوروں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہوئے قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔ جس سے ملک کی گلیاں، سڑکیں قتل ہونے والے مزدوروں کے خون سے ندی نالوں کی شکل اختیار کرگئی۔ ہر طرف انسانی اعضاء بکھر گئے، لاشیں سڑکوں پر سرعام تڑپتی رہیں اور نالوں میں انسانی خون پانی کی طرح بہنے لگا، کئی دنوں سے جاری معرکہ آج یکم مئی کو اپنے عروج پر تھا، سارا دن امریکی حکمرانوں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی فرعونی خواہشات کی تسکین کی خاطر مزدوروں کا قتل عام ہوتا رہا۔ جوں جوں ظلم بڑھتا گیا مزدوروں اور ان کے لیڈروں کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔ بے شمار لوگوں کو پھانسی دی گئی جو انہوں نے پھانسی کا پھندا نہیں بلکہ پھولوں کا ہار سمجھ کر پہنی اور مسکراتے ہوئے کہا ”تم ہماری زندگیاں تو ختم کررہے ہو مگر ہمارا چھوڑا ہوا پیغام روک نہیں سکتے جو آنے والی نسلوں تک پہنچے گا“۔ حقوق کی خاطر ایک لیڈر نے کہا ”تمھاری طرف سے دی گئی پھانسی ہماری نئی زندگی ہے جو کبھی مٹنے والی نہیں تم نے پھانسی دے کر یہ ثابت کردیا کہ ظالم اور مظلوم الگ الگ طبقے ہیں جو کبھی ایک نہیں ہوسکتے تمھارا یہی ظالمانہ اقدام دنیا بھر کے مظلوموں کے لئے اور سرمایہ داروں کی چکی میں پسنے والے مزدوروں کے لئے روشنی کا پیغام ہوگا اور ہمارے لہو کے قطرے آزادی اور حقوق کی راہ دکھاتے رہیں گے۔“
دن بھر خون کی ہولی کھیلنے والے ظالم امریکی بالآخر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔ صنعت کار، سرمایہ دار اور انسانی خون سے پیاس بجھانے والے بھیڑیے مزدوروں کے سامنے مذاکرات کی میز پر آگئے۔ لیبر یونین کا قیام باقاعدہ قانونی شکل اختیار کرگیا، قوانین مرتب ہوئے اور اقوام متحدہ نے مزدوروں کی حیثیت تسلیم کرے ہوئے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن تشکیل دی لیکن آج ایک صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے بعد بھی سرمایہ دار اس اسٹیج پر اور مزدور اسی سڑک پر احتجاج کی صدا بلند کررہا ہے۔ حاکم و محکوم، ظالم و مظلوم کا یہ کھیل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دنیا میں طبقاتی، نسلی، جغرافیائی اور استحصالی بت فرعونی شکل میں موجود ہے۔ دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جس نے غریب مزدور کو پورے پورے حقوق دینے کی بات کی ہو۔ دنیا میں کوئی ایسا لیڈر نہیں دکھایا جاسکتا جس نے کسی ایک مزدور کے ہاتھ چومے ہوں۔ بدھ مت اور کمیونزم میں بیل کی طرح جتا ہوا مزدور دو وقت کی روٹی سے آگے آج تک نہیں بڑھ سکا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور دن بدن غریب سے غریب تر ہوتا چلا جارہا ہے جبکہ ہندوانہ طبقاتی جکڑ بندیوں نے تو مزدور کو بھیڑ بکریوں کی حیثیت دنیا بھی گوارہ نہیں کی۔ دنیا میں واحد مذہب اسلام ہے جو اعلان کرتا ہے۔
”ابن آدم کا بنیادی حق یہ ہے کہ اس کے لئے ایک گھر ہو جس میں وہ رہ سکے، کپڑا ہو جس سے وہ اپنے جسم کو ڈھانپ سکے، کھانے کے لئے روٹی اور پینے کے لئے پانی ہو“۔ (ترمذی)
”اور جو شخص حلال روزی حاصل کرنے کی کوشش میں تھک کر رات کو سوجائے تو خدا اس سے راضی ہے“۔ (الحدیث)
تیز دھوپ اور کڑاکے کی گرمی میں پسینہ بہانے والے ایک مزدور اور محنت کش کو اگر کوئی حوصلہ اور چھتری مہیا کرتا ہے تو وہ یہ عالمگیر اور سلامتی والا مذہب اسلام ہی ہے۔ آج جہاں دنیا کے ہر ممالک ہر مذہب اور ہر کونے میں کسانوں، صنعت کاروں، ہنرمندوں اور مزدوروں کی توانا تحریک کا اگر دیباچہ اول دیکھا جائے تو اس کا پہلا جملہ پیغمبر انقلاب کا یہ فرمان ہوگا کہ ”مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کا حق ادا کردو“۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں