افغانستان میں امن کی جانب ایک اہم پیش رفت

افغانستان میں امن کی جانب ایک اہم پیش رفت

امریکی حکام اور طالبان کے درمیان ایک ہفتے کے لیے تشدد میں کمی لانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق فریقیں کے درمیان تشدد میں کمی لانے کا آغاز 22 فروری بروز ہفتہ ہوگیا ہے۔ عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد کامیاب رہا تو امریکا اور افغان طالبان امن کے ابتدائی معاہدے پر دستخط کریں گے جس سے تقریباً 2 دہائیوں سے جاری جنگ خاتمے کے قریب پہنچ جائے گی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے عارضی جنگ بندی کے عمل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دہائیوں کی جنگ کے بعد طالبان کے ساتھ افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں کی کمی کے سمجھوتے پر اتفاق ہوچکا ہے جو امن عمل کے لیے انتہائی اہم قدم ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان کا امریکا کے ساتھ 29 فروری کو ممکنہ طور پر امن معاہدہ ہونے جارہا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹ کیا ہے امریکا کے ساتھ معاہدے کے تحت تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی اور کسی کو بھی افغان سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ دریں اثناء پاکستان نے امریکا اور طالبان کے امن سمجھوتے کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان مجوزہ امن معاہدے کی تکمیل کے لیے عارضی جنگ بندی پر اتفاق ایک تاریخی سنگ میل ہے اور آج امن کی جانب اس اہم پیشرفت پر ہر وہ شخص مسرور اور پر امید ہے جو اس خطے میں طویل جنگ و جدل کا خاتمہ چاہتا ہے اور جو افغانستان کے ستم رسیدہ عوام کے مستقبل کو محفوظ اور پوری دنیا کے امن و سلامتی کو مستحکم دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے عوام نے (ماضی بعید کی تاریخ کو ایک طرف رکھتے ہوئے) گزشتہ چار دہائیوں کے دوران بے انتہاء ظلم و تشدد برداشت کیا اور ناقابل برداشت حد تک اذیتیں، صعوبتیں اور نقاصانات اٹھائے ہیں۔ افغانوں کی دو تین نسلیں عالمی استعماری طاقتوں کی مفاداتی کشمکش کا چارہ بن کر قتل و غارت، ہجرت و در بدری اور خانہ جنگی و پریشان حالی کا شکار ہوئیں اور آج افغانستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں غربت، افلاس، بے چینی اور لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس سب سے زیادہ ہے۔ دوسری جانب افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی اس بے ننگ و نام جنگ نے پہلے سوویت یونین اور اس کے بعد اب امریکا جیسی سپر طاقتوں کی معیشت کا کچو مر نکال کر رکھ دیا ہے اور آج یہ عبرت انگیز منظرنامہ دنیا کے سامنے ہے کہ ٹریلین ڈالرز کے مادی وسائل ضائع کرنے کے بعد بھی عالمی طاقتیں افغان سرزمین پر اپنا تسلط قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں اور ان کی جانب سے افغانستان نامی کمبل سے اب جان چھڑانے کی تگ و دو جاری ہے۔ دنیا کا جتنا سرمایہ افغانستان میں گزشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران آہن و بارود کی صورت میں جھونکا گیا، اس کا ایک تہائی بھی اگر مہذب طریقے سے یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لایا جاتا تو شاید آج خطے کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
عالمی طاقتوں نے اول تو نائن الیون کے واقعات کے بعد ذہنی صدمے کی حالت میں محض انتقامی جذبے سے مغلوب ہو کر تمام تر بین الاقوامی اصولوں کو پامال کرکے پہلے سے تباہ حال ملک افغانستان کو مزید تباہ کرنے کے لیے مہم جوئی کی، پھر جب کچھ ہی عرصے میں زمینی حقائق کی تلخ سچائیاں سامنے آنے لگیں اور یہ بات واضح ہوگئی کہ جنگ کے ذریعے افغانستان کو فتح نہیں کیا جاسکتا تو حقائق کو قتل کرنے، زمینی صورت حال سے نظریں چرانے اور کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے سچ کا گلہ دبانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی روش جاری رکھی تو اس کے تباہ کن اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ جنگ امریکا اور اسد کے اتحادیوں پر بھاری ثابت ہوتی گئی۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے پہلے دور صدارت کے آخری لمحات میں کسی حد تک زمینی حقائق کو تسلیم کیا اور پھر دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد ان کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا او رمتعدد بار مذاکرات میں پیشرفت کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہیں، 2014ء میں ایک مرحلے پر افغانستان سے نیٹو انخلاء شروع ہوجانے اور 2016ء تک یہ عمل مکمل کرنے کا درون خانہ سمجھوتا بھی ہوا مگر پھر امریکی انتظامیہ کے تذبذب اور فریب کاری کی کوششوں کے بسبب مذاکرات کی بیل منڈے نہ چڑھ سکی۔
امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اقتدار میں آکر افغانستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے امریکی افواج واپس لانے کا وعدہ کیا اور انتخاب جیت گئے مگر و ہائٹ ہاوس کے مکین بننے کے بعد صہیونی لابی کے دباو میں آکر نہ صرف یہ کہ افغانستان سے فوجیں واپس لانے کے وعدے سے یوٹرن لیا بلکہ مزید تین ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کردیا جس کے بعد افغانستان میں تباہ کن مزاحمتی کارروائیاں شروع ہوگئیں اور بہت جلد ٹرمپ انتظامیہ کو احساس ہوگیا کہ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کی کوششوں میں ہی عافیت ہے۔ چنانچہ مسٹر ٹرمپ نے اپنے افغان نژاد مشیر زلمے خلیل زاد کو طالبان سے مذاکرات کا ٹاسک دے دیا۔
ایک عام تاثر یہ تھا کہ ایک تجربہ کار اور گھاک سفارت کار اور افغانوں کی نفسیات سے واقف شخص ہونے کی حیثیت سے زلمے خلیل زاد مذاکرات کی بساط پر طالبان کو پھنسانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ عسکری محاذ پر امریکا کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہونے والے طالبان مذاکرات کی میز پر ترنوالہ بن جائیں گے لیکن جس طرح دنیا نے جنگ کے میدان میں طالبان کی محیرالعقول پامردی، بے جگری، استقامت، اتحاد اور عزیمت کا مشاہدہ کیا تھا، مذاکرات کے دوران ان کی جانب سے اتنی ہی سنجیدگی، باہمی ہم آہنگی اور صبر و استقامت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا، یہاں تک کروڑوں ڈالرز مذاکرات پر خرچ کرنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو ایک مرحلے پر اچانک مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کرکے اپنی غیرسنجیدگی اور شکست خوردہ ذہنیت کا ثبوت دیا جبکہ طالبان کسی مرحلے پر بھی ڈگمگاتے یا ہچکچاتے نظر نہیں آئے۔ بالآخر وہ لمحہ آگیا جب دنیا نے ان کا اصولی موقف تسلیم کرلیا، اب کوئی مانے یا نہ مانے دو عشروں سے جاری اس جنگ کا اگر اس معاہدے کے نتیجے میں اختتام ہوجاتا ہے تو طالبان ہی اس کے فاتح اور مرد میدان سمجھے جائیں گے۔ تاہم شاید طالبان کا اصل امتحان اس کے بعد شروع ہوگا کہ وہ افغانستان میں پائے دار امن و استحکام کے لیے دیگر تمام افغان طبقات کو ساتھ لے کر چلنے اور کسی بھی قسم کے داخلی انتشار سے بچنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔ توقع رکھی جانی چاہیے کہ طالبان اس آزمائش میں بھی اللہ کی مدد سے یقیناً سرخرو ہوں گے اور طالبان کی بے مثال مزاحمتی جد و جہد اور کامیاب سفارتی مشن کے نتیجے میں افغانستان بہت جلد ایک متحد، منظم اور مستحکم اسلامی فلاحی ریاست کی صورت میں ابھرے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں