اولاد کی اسلامی تربیت میں والدین کا اہم کردار

اولاد کی اسلامی تربیت میں والدین کا اہم کردار

”اولاد“ اللہ تعالی کی بیش بہا نعمت اور والدین کے لیے مستقبل کا قیمتی اثاثہ ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ان کے وجود کو دنیاوی زندگی میں زینت اور رونق سے تعبیر کیا جاتا ہے؛ لیکن یہ (اولاد) رونق و بہار اور زینت و کمال کا سبب اسی وقت بنتی ہے جب انھیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے، بچپن ہی سے ان کی صحیح نشو و نما کا خیال رکھا جاتا ہے، ان کی دینی تربیت و پرداخت کو ضروری سمجھا جاتا ہے، نیز اسلامی و ایمانی ماحول میں انھیں پروان چڑھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
شریعت مطہرہ کی رو سے والدین پر اولاد کے سلسلہ میں جو حقوق عائد ہوتے ہیں، ان میں سب سے اہم اور مقدم حق ان کی دینی تعلیم و تربیت ہی ہے۔ اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں، لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حصول اور اسلام کے مبادیات و ارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسی پر اخروی فلاح و کامیابی کا دار و مدار ہے۔
دین و ایمان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب اس کے متاع گراں مایہ ہونے کا احساس دل میں جاگزین ہو، اگر کوئی دین و ایمان کو معمولی چیز سمجھتا ہے تو پھر اس سے خاتمہ بالخیر کی توقع رکھنا بھی مشکل ہے۔ اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جو قرآن مجید کی سورۃ البقرہ میں ذکر کیا گیا ہے: حضرت یعقوب علیہ السلام جب بستر مرگ پر آخری سانسیں گن رہے تھے تو انھیں یہ فکر بار بار ستائے جارہی تھی کہ میری اولاد میرے بعد کس کی عبادت کرے گی؟ بالآخر انھوں نے اپنی اولاد کو بلاکر یہ سوال کیا کہ میرے بعد تمہارا معبود کون ہوگا؟۔ بیٹوں نے اطمینان دلاتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی موجودگی میں جس طرح دین برحق پر قائم رہے اور اپنے آباء و اجداد سیدنا ابراہیم، اسماعیل اور اسحق علیہم السلام کے پروردگار کی عبادت کرتے رہے اسی طرح آپ کے بعد بھی ہم اسی رب العالمین کی بندگی کریں گے جس کی تعلیم و تلقین ہمارے بڑوں نے فرمائی ہے۔ قرآن میں اس طرح اس کی منظرکشی کی گئی: کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا، جب انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ ان سب نے کہا کہ ہم اسی ایک خدا کی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ داداؤں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق علیہم السلام کا معبود ہے اور ہم صرف اسی کے فرماں بردار ہیں۔ (البقرہ: 133)
یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی آخرت میں مواخذہ کا سبب بن سکتی ہے، اسی لیے اللہ تعالی اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں (التحریم: ۶)۔ نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی اولاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہو کر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان و عمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے۔

تربیت کی دو قسمیں
محترم مولانا محمد شفیق الرحمن علوی لکھتے ہیں کہ تربیت دو قسم کی ہوتی ہے:
۱۔ ظاہری تربیت،
۲۔ باطنی تربیت۔
ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست و برخاست، میل جول، اس کے دوست و احباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا، اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی و غیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔ اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح و درستگی ہے۔
اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت و شفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری و مادری فطری جذبات و احساسات ہی ہیں جو بچون کی دیکھ بھال، تربیت اور ان کی ضروریات کی کفالت پر انھیں اُبھارتے ہیں۔ ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ (ماہنامہ دارالعلوم، شعبان 1437)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہل بیت سے محبت اور قرآن مجید کی تلاوت؛ اس لیے کہ قرآن کریم یا د کرنے والے اللہ کے عرش کے سایہ میں انبیاء کے ساتھ اس دن میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔“ (طبرانی)
اس حدیث پاک میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی بہترین تربیت کے حوالہ سے بہترین راہ نمائی فرمادی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا، ان کے اہل بیت، صحابہئ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرنا بچوں کو سکھایا جائے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی تلقین کی جائے۔ والدین کی طرف سے اپنی اولاد کو بہترین تحفہ وہ قرآنی تعلیم ہے۔ آج ہم اپنی اولاد کے لیے روپیہ، پیسہ اور طرح طرح کی جائیداد، پراپرٹی جمع کرتے تھکتے نہیں کہ یہ چیزیں ہمارے بعد ہماری اولاد کے لیے فائدہ مند ہوں، لیکن ان کی دینی علوم کی پیاس بجھانے کی ہم ذرا فکر نہیں کرتے، حالاں کہ جائیداد اور مال و دولت سے صرف دنیاوی حاجات کا تکفل ہوتا ہے، جب کہ قرآن و حدیث اور دینی تعلیم تو دنیا و آخرت دونوں میں کام آتی ہے۔

چھوٹے بچوں کی تربیت کا طریقہ کار
چھوٹے بچوں کا ذہن صاف و شفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ نقش علی الحجر کی طرح مضبوط و پائیدار ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ حقیقت و اشگاف انداز میں بیان کی گئی کہ ہر بچہ توحید خالص کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت، پاکیزگی، برائیوں سے دوری اور ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔ پھر اسے گھر میں اچھی تربیت اور معاشرہ میں اچھے ساتھی میسر آجائیں تو وہ ایمان و اخلاق میں اسوہ نمونہ اور کامل انسان بن جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ہر نو مولود، فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ یعنی بچے کو جیسا ماحول اور تربیت میسر آئے گی وہ اسی رخ پر چل پڑے گا اگر اسے ایمانی ماحول اور اسلامی تربیت میسر آجائے تو وہ یقیناً معاشرہ میں حقیقی مسلمان بن کر ابھرے گا؛ لیکن اس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہو گھر کے اندر اور باہر اسے اچھا ماحول نہ ملے تو وہ معاشرہ میں مجرم اور فسادی انسان بن کر ابھرے گا۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچپن میں اولاد کی تربیت جوانی کے بالمقابل بہت آسان ہے، جس طرح زمین سے اُگنے والے نرم و نازک پودوں کو بہ سہولت کہیں بھی موڑا جاسکتا ہے اسی طرح بچوں کے خیالات، افکار، اور طرز زندگی کو جس رخ پر چاہے بہ آسانی لایا جاسکتا ہے اور جب وہ بڑے ہوجائیں اور اُن کی عقل پختہ ہوجائے تو ان میں تبدیلی ناممکن نہ سہی؛ مگر مشکل ضرور ہوتی ہے اس لیے ابتدائی عمر میں بچوں کی نگرانی اور ان کی صحیح تربیت والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کیا رہنمائی فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کا کس درجہ خیال رکھتے تھے؟ اس کی بیشمار مثالیں کتب حدیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں جب چھوٹا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اُدھر چلا جاتا تھا۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے لڑکے! اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ (رواہ مسلم)۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف فرما تھے میری والدہ نے مجھے پکارا آؤ ایک چیز دوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے دریافت فرمایا: تم نے اسے کیا دینا چاہا؟ والدہ نے عرض کیا کہ کھجور دینا چاہتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے ارشاد فرمایا:سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتی تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں) یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا۔ (رواہ ابوداؤد)
غور کیجیے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو امید و آس دلا کر کچھ نہ دینے سے بھی منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور ان کے اخلاق و کردار پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے کیونکہ بچے اپنے بڑوں سے جس چیز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا اثر بہت جلد قبول کرلیتے ہیں اور بچپن کا یہ اثر نہایت مضبوط و مستحکم اور پائیدار ہوتا ہے۔

نواجوانوں کی تربیت کا لائحہ عمل
بچپن میں لاڈ، پیار اور غفلت و لاپرواہی کے سبب اولاد کی تربیت میں کچھ کمی رہ جائے تو بڑے ہونے کے بعد بھی اس کمی کا ازالہ ممکن ہے؛ مگر مثبت نتائج کے لیے عجلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور تربیت میں تدریجی انداز اختیار کیا جائے؛ چنانچہ بچوں کے بڑے ہوجانے کے بعد غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونے چاہیے:
۱: افہام و تفہیم؛
۲: زجر و توبیخ؛
۳: مار کے علاوہ کوئی دوسری سزا مثلاً قطع تعلق و غیرہ۔
یعنی غلطی ہوجانے پر حکمت عملی کے ساتھ تربیت کا اہتمام کیا جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اُسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحتاً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگر بچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو نصیحت و موعظت کے مختلف انداز اختیار کیے جائیں ساتھ ہی اس کے دل میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر گھر کے ماحول کو دینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے؛ تا کہ وہ رفتہ رفتہ اسلامیات سے قریب ہونے کا عادی ہوجائے۔ مذکورہ بالا امور کی انجام دہی کو ایک چیلنج کے طور پر لیا جائے؛ کیوں کہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ ”امت کے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کے اساسیات اور اس کے نظام و حقائق اور نظام محمدی کا وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری واضطراب اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقل و ذہن کو اسلام پر پوری مطمئن کردیا جائے“ اس اہم اور بنیادی کام سے تغافل برتنا ایک سنگین جرم ہے، جس کا خمیازہ یقیناً بھگتنا پڑے گا۔ نوجوانوں کے درمیان مقصد زندگی سے ناآشنائی، تزکیہ و تربیت کی کمزوری، اور ان کے اندر فکری، تعمیری اور تخلیقی سوچ کا پروان نہ چڑھنا بہت بڑا المیہ ہے۔

اولاد کی تعلیم کے حوالہ سے والدین کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
۱: وہ والدین جو اپنی اولاد کو صرف عصری علوم کے حوالے کردیتے ہیں، ان کی دینی تعلیم و تربیت کی طرف یا تو بالکل توجہ نہیں کرتے یا معمولی سی توجہ کو کافی اور مفید مطلب سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح عصری علوم پر خاطر خواہ محنت کو ضروری سمجھیں اتنا ہی یا اس سے زیادہ بنیادی دینی تعلیم یعنی عقائد و اعمال، معاشرت و اخلاق، معاملات و آداب سے متعلق ضروری امور ان کے قلب و دماغ میں راسخ کریں؛ تا کہ فتنوں کے اس دور میں الحاد و ارتداد کی کوئی لپیٹ انھیں متاع ایمان سے محروم نہ کردے۔
۲: وہ والدین جو اپنی اولاد کو صرف دینی تعلیم کے لیے وقت کردیتے ہیں اور انھیں دانستہ یا نادانستہ طور پر بنیادی عصری تعلیم سے بھی نابلد رکھتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بدلتے حالات کے پیش نظر بہ قدر ضرورت عصری علوم سے واقف کرانے کا اہتمام کریں؛ تا کہ مستقبل میں ان کی اولاد کسی بھی موقع پر دوسروں کی محتاج نہ رہے۔
۳: وہ والدین جو اپنی اولاد کو عصری اور دینی علوم سے وافر حصہ عطا کرتے ہیں اور اسلامی تربیت کے ذریعہ ان کو اچھی طرح آراستہ و پیراستہ کرتے ہیں۔ وہ قابل صد مبارک باد ہیں، انھیں اپنے اس نظام کو فروغ دینے اور خاندان و قبیلے کے دوسرے سرپرستوں تک متعدی کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔
۴: وہ والدین جو معاشی مجبوری یا دیگر معقول و نامعقول اسباب کی بنا پر اولاد کے روشن مستقبل کا سودا کرتے ہیں اور انھیں اپنے ہی کسی پیشہ سے وابستہ کردیتے ہیں۔ انھیں سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کا یہ عمل اولاد کے مستقبل کے لیے سم قاتل اور زہر ہلاہل سے کم نہیں، اس لیے بنیادی طور پر دینی و عصری علوم کے مکاتب و اسکولس سے رجوع ہو کر بچوں کو قابل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ تا کہ علم کی روشنی سے سارا گھر منور ہوجائے اور دین و دنیا دونوں میں مفید و کارآمد ثابت ہوسکیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں