نئے اسلامی سال کی آمد آمد……!

نئے اسلامی سال کی آمد آمد……!

خالق کائنات مالک ارض و سماء اللہ عزوجل نے جب سے زمین و آسمان پیدا فرمائے، اس وقت سے کتاب اللہ میں مہینوں کی کل تعداد بارہ ہے، جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ محرم الحرام بھی ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، اور اسی مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی نئے اسلامی سال (سن ہجری) کا آغاز ہوتا ہے۔
دیگر مذاہب کے سال نو پر رقص و سرور کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، شراب کے جام چھلکائے جاتے ہیں، نوجوانوں کو شباب میں مدہوش کیا جاتا ہے، موسیقی کے سر اور تال پر خواتین کے تھرکتے ہوئے جسموں کی نمائش کی جاتی ہے۔ دنیا کا ایک بڑا طبقہ نئے سال کے جشن میں ناچ، گانے، شراب و شباب، فحاشی، عریانی اور جنسیت میں ڈوب جاتا ہے، شیطانیت اپنے عروج کے نقطہ انتہا پر ہوتی ہے، عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہوتا ہے۔ جشن کا یہ طریقہ یہود و نصاری کا تو ہوسکتا ہے مگر اہل اسلام کا ہرگز نہیں۔ کیونکہ اسلام تو اختتامی سال کے آخری اور نئے سال کے پہلے ہی دن سے قربانی و ایثار کا درس دیتا ہے۔
ہر نئے اسلامی سال کا آغاز ہمیں ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم واقعہ کی یاد دلا کر اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر تنگی و دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے، اہل اسلام پر ظلم و سفاکیت کے پہاڑ توڑے جائیں، ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جائے تو ایسے کڑے وقت میں وہ کفر کے ساتھ رواداری والا رویہ اپناتے ہوئے اپنے عقائد و نظریات میں لچک ہرگز پیدا نہ کریں، بلکہ اپنے دین و ایمان کی حفاظت میں اپنا سب کچھ لٹانا پڑے تو لٹا دیں، لیکن اپنی استقامت میں لغزش پیدا نہ ہونے دیں۔ اہل اسلام مغربی تہذیب کے دلدادہ نہیں بلکہ پروردہ آغوش غیرت ہوتے ہیں، عصمت فروش نہیں بلکہ عفت و عصمت کے محافظ ہوتے ہیں، تہذیب و تمدین کے نام پر انسانیت کی دھجیاں نہیں اڑاتے بلکہ اخلاق کی اعلیٰ قدروں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اسلامی سال کے پہلے مہینے یعنی محرم الحرام کا دسواں روز یوم عاشورا کہلاتا ہے۔ اس روز کی قرآن و احادیث میں بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس روز سے متعلق مشہور ہے کہ دس محرم الحرام کو ”عاشور“ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن اللہ رب العزت نے دس پیغمبروں (علیہ السلام) کو دس اعزازات عطاء فرمائے، اور اسی روز حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت ادریس علیہ السلام کو مقام رفیع پر اٹھایا گیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور روز رب کائنات نے ان کو اپنا دوست (خلیل) بنایا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ نمرود سے بچایا گیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہی واپس ملی، حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری ختم ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دریائے نیل سے راستہ ملا، اور فرعون غرق کردیا گیا۔ اسی روز سیدنا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالے گئے، حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا، محبوب خدا سرور انبیاء احمد مجتبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور تخلیق ہوا۔ اور اسی عاشورا کے دن سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش کیا، اور اس طرح ظالم و مظلوم، حق و باطل کے درمیان اس عظیم معرکہ کو کربلا کے نام سے تاریخ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا۔ اسلام ایثار کی تعلیم دیتا ہے، حتی کہ ختم ہوتا ہوا اسلامی سال حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کی قربانیوں کی یاد تازہ کرتا ہے اور نئے اسلامی سال کا پہلا دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور عاشورا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا کی شہادت کی یاد دلوں میں زندہ کرکے، اسلام کی سربلندی کے لیے قربانی کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالی ہے ”اللہ تعالی کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں ہجرت کی اور جان و مال سے جہاد کیا۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جہاں ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والے عیش کے سامان ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یقینا اللہ تعالی کے پاس خدمات کا صلہ دینے کے لئے بہت کچھ ہے“ (التوبہ: آیت 19 تا 21)
سچ بات تو یہ ہے کہ ہجرت و شہادت جیسے معیاری اوصاف کے ذریعہ سے ہی اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت، دین اسلام کی دعوت و اشاعت، برائیوں کے ازالہ کے لئے پیہم کوشش، فکر آخرت اور دنیا سے بے رغبتی ممکن ہے۔ جس بندہ مومن کے اندر یہ اوصاف پروان چڑھیں اسے دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہوگی۔ آنے والا ہر نیا اسلامی سال زندہ دلوں پر صراط مستقیم پر چلنے کی دستک دیتا ہے اور یہ جائزہ لیتا ہے کہ ہم اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ اعمال و افعال، اور اسلام کی سربلندی کے لیے کس قدر جذبہ رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اچھی عادات اور مثالی اخلاق کو اپنا شعار بنانا چاہئے، سماجی برائیوں سے اجتناب اور بری عادات کو ترک کرنا چاہئے کہ غیرمسلم بھی ہمارے عمدہ اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام قبول کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں