خدمتِ خلق کو زندگی کا مشن بنائیں

خدمتِ خلق کو زندگی کا مشن بنائیں

اللہ تعالی نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور تمام مخلوقات میں اس کو برتری تفوق اور فضیلت سے نوازا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے چار چیزوں کی بیک وقت قسمیں کھا کر فرمایا تا کہ حضرت انسان کو اپنی بلندی اور برتری کا احساس ہو اور ساتھ ہی اپنے مقام و منصب کا ادراک بھی ہو۔ اللہ تعالی نے فرمایا: تین کی قسم، زیتون کی قسم، طور سینا کی قسم اور اس مبارک و پاکیزہ شہر یعنی شہر مکہ کی قسم، ہم نے سچ مچ انسان کو سب سے بہترین سانچے میں ڈھالا۔ (التین ۱۔۴)
اللہ تعالی نے انسان کو صرف بہترین سانچہ میں ڈھال کر خوبصورت ہی نہیں بنایا بلکہ انسان کو اس کائنات کا تاجدار بنایا اور ہر چیز کو اس کے لئے مسخر بنا کر اس کی خدمت میں مصروف کردیا۔
اللہ تعالی نے عقل و دانش فہم و فراست اور شعور و ادراک کی وہ بلندی دی کہ اس نے سمندر کی گہرائیوں اور فضا کی بلندیوں کو فتح کرلیا۔ لیکن انسان کو جس قدر عظیم اور طاقت ور بنایا وہیں اس کو قدم قدم پر محتاج اور ضرورت مند بھی بنایا۔ اسے ہر کام میں ایک دوسرے کا محتاج اور دست نگر بنایا۔
یہ سچ ہے انسان کو ہر کام میں اپنے جیسے انسانوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دو روٹی چند گز کپڑے اور سر چھپانے کی جگہ جو اسے میسر آتی ہے اس میں نہ جانے کتنے ہی لوگوں کی جد و جہد اور کد و کاوش شامل ہوتی ہے۔ اسی لئے دنیا کے تمام مذاہب میں خدمت خلق کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اسلام میں خدمت خلق کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی کی بندگی اور کسی انسان کی مدد کو ایک درجہ میں رکھا گیا ہے اسی لئے اگر کوئی کبرسنی یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ پائے تو ایک روزہ کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح روزہ کے کفارہ ظہار کے کفارہ اور ایلاء اور قسم کے کفارے میں بھی مسکین کو کھلانے کی شکلیں بھی رکھی گئی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پورے اسلام کا خلاصہ صرف ایک مختصر سے جملہ میں بیان کردیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ پورے اسلام کا خلاصہ ہے: خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت۔
اسلام اللہ تعالی کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ہے، اس دین میں سب سے زیادہ کامیاب انسان اسے کہا گیا ہے جو اپنی دین داری کے ساتھ لوگوں کے لئے زیادہ مفید اور کارآمد ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الخلق کلھم عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ انفعھم لعیالہ‘‘۔ (المعجم الکبیر ۳۳۰۰۱) یعنی ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ بندہ وہ ہے جو اس کے عیال کے لئے سب سے زیادہ نافع ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’واللہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون أخیہ‘‘(صحیح مسلم رقم: ۲۶۹۹) یعنی اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔
آپ اندازہ لگایئے کہ انسانی خدمت کا اسلام میں کیا مقام ہے؟ نماز کتنی اہم عبادت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ حج کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ جس طرح اسلام پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اسی طرح حج بھی پچھلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔ حاجی حج سے لوٹنے کے بعد اگر اس کا حج مقبول ہوجاتا ہے تو اس بچے کی طرح معصوم ہوجاتا ہے جس کو ابھی اس کی ماں نے جنا ہو۔ روزہ کے بارے میں فرمایا حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے روزہ میرے لئے ہے اور روزہ کا بدلہ میں خود دوں گا۔ لیکن جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا سب سے بہتر انسان کون ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی روزہ دار حاجی اور ہمیشہ تسبیح و اذکار کرنے والے کا نام نہیں لیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔ خیر الناس من ینفع الناس۔ (شعب الایمان للبیھقی)
معلوم یہ ہوا کہ خدمت خلق کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔ کیوں ک اس کا نفع اور فائدہ دوسروں تک متعدی ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس امت کو خیر امت کا لقب بھی اسی لئے دیا ہے کہ یہ امت صرف اپنے نفع کے لئے نہیں بلکہ انسانیت کے نفع کے لئے پیدا کی گئی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کا بہترین عمل کھانا کھلانا اور سلام کو رواج دینا ہے۔ (بخاری شریف؍کتاب الایمان)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جو آسودہ ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ (المستدرک للحاکم)
غرض یہ کہ لوگوں کی نفع رسانی اور خدمت خلق تمام مذاہب میں محمود و پسندیدہ عمل ہے لیکن اسلام نے اس پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور اس کے رہنما اصول اور ضابطے بھی بیان کردیا ہے۔ اور اس کی خاص تاکید و ترغیب بھی دی ہے۔ ہر خاص و عام کی زبان پر بھی یہ جملہ رہتا ہے کہ خدمت سے خدا ملتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت میں گزری۔ خاص طور پر منصب نبوت پر فائز ہونے سے پہلے چالیس سال تک تو مخلوق خدا کی خدمت کو اپنا مشن بنائے رکھا تا کہ آگے دعوت کی راہ ہموار ہوسکے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اس کا بہترین نمونہ ہے اور ساری انسانیت کے لئے آپ اس میدان میں بھی سب سے اعلی نمونہ اور آئڈیل ہیں۔
اسلامی تعلیمات کا خلاصہ خالق کی بندگی اور مخلوق کی خدمت ہے اللہ تعالی کی عبادت انسان اپنی کامیابی اور نجات و فلاح کے لئے کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالی بندوں کی عبادت کا محتاج نہیں، کیونکہ وہ ذات تو غنی و بے نیاز ہے لیکن انسان ایک دوسرے کے تعاون کا ضرورت مند اور محتاج ہے۔ اس جہت سے حقوق العباد کی اسلام میں خصوصی اہمیت ہے اور اس کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔
اسلام نے خدمت خلق کو بڑی اہمیت دی اور بہت سے گناہوں کے لئے روزہ رکھنے یا مسکینوں کو کھانا کھلانے کو کفارہ قرار دیا گیا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں خدمت خلق اور اللہ کی بندگی کا قریب قریب ایک ہی درجہ ہے۔ اور خدمت خلق میں گناہوں کا کفارہ بننے کی صلاحیت ہے۔
خدمت خلق کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گراں بار ذمہ داری سے کچھ گھبراہٹ محسوس کی، گھر واپس تشریف لائے تو غمگسار شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کیفیت سن کر عرض کیا:
’’کلا واللہ کا یُخزیک اللہ ابداً، انک لتصل الرحم و تحمل الکل و تسکب المعدوم و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق۔‘‘ (بخاری شریف حدیث نمبر ۳)
اللہ تعالی آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا؛ کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور آسمانی حوادث میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
ان پانچوں اوصاف جن کا خصوصیت سے اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تذکرہ کیا ان سب کا تعلق خدمت خلق کے مختلف پہلوؤں سے ہے اس میں حسن سلوک بھی ہے اور بدنی و مالی تعاون بھی ہے۔ اگر اس جہت سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیا جائے تو پوری حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نمونہ نظر آتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو خدمت خلق اور نفع انسانی کا بلند تصور دیا اور صرف انسانوں کی ہی خدمت نہیں بلکہ پوری خلق اللہ یعنی اللہ کی ساری مخلوق کی خدمت اس میں شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص گزر رہا تھا اور اس کو سخت پیاس لگی ہوئی تھی وہ ایک کنویں میں اترا اور پانی پی کر باہر آیا، اس نے باہر دیکھا کہ ایک کتا پیاس سے بے قرار ہے، چنانچہ وہ دوبارہ کنویں میں واپس گیا اپنے موزوں میں پانی بھر کر اس کو دانتوں سے پکڑ کر باہر لایا اور کتے کو پلایا اسی عمل کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔ (مسلم شریف ۸۵۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت خلق کے حوالے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایسی تربیت فرمائی تھی اور اس تربیت کے صدقے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خدمت خلق کے شعبہ میں ایسا مزاج بن گیا تھا کہ دنیا کی تاریخ اس کو کوئی اور مثال اور نمونہ پیش نہیں کرسکتی اور پھر بعد کے مسلمانوں میں بھی یہ مزاج باقی رہا اور انہوں نے اس کے لئے اپنی قیمتی سے قیمتی جائداد کو راہ خدا میں وقف کیا اور یتیم خانوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کی نیز پانی کا بہترین انتظامات کئے نہریں اور کنویں کھدوائے سرائے خانے اور چراہ گاہ بھی بنوائے اور درختیں لگوائے کیونکہ ان کی نگاہ میں یہ حدیث مستحضر تھی کہ اگر تمہارے لگائے ہوئے درخت یا پودے سے پرندہ کھالے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ (بخاری شریف ۲۳۲۰)
ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تلقین بھی تھی کہ جب تم سفر کرو او رکوئی ہرا بھرا علاقہ آئے تو جانور کو چرنے کا موقع دو۔ (ترمذی شریف (۲۸۵۸)
اور اس حدیث کے مفہوم سے بھی واقف تھے کہ جب کوئی انسان گزر جاتا ہے تو اس سے عمل کا رشتہ منقطع ہوجاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ کوئی ایسی عوامی خدمت چھوڑ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں کوئی صدقہ جاریہ کا کام چھوڑ جائے جس کا نفع باقی ہو یا اس کے پیچھے صالح اور نیک اولاد ہو جو اس کے حق میں دعا گو رہے۔ (مسلم شریف ۴۲۲۳)
لیکن افسوس کہ جس امت کو نفع انسانی اور خدمت خلق کے لئے بھیجا گیا تھا اور جس دین میں بہترین ہونے کا معیار ہی نافعیت کو قرار دیا گیا تھا، آج خدمت خلق کے میدان میں وہ بہت پیچھے ہوگئی ہے اور حد تو یہ ہے کہ علماء اور دینی خدمت گزاروں کی توجہ بھی اس جانب نسبتاً کم ہے۔
آج کے حالات میں ہم اس طرح بھی انسانیت اور کمزور طبقے کی خدمت کرسکتے ہیں:
(۱) ہمارے گھر میں ضرورت سے زائد کپڑے ہیں ہم ہر سال نئے جوڑے سلاتے ہیں اور سردی میں گرم کپڑے خریدتے ہیں پرانے کپڑے الماریوں میں زینت کے طور پر رکھے رہتے ہیں اس کو پہننے کی نوبت نہیں آتی ہم کوشش کریں کہ ان زائد کپڑوں کو اور خاص طور پر جاڑے کے لباس کو غریبوں میں تقسیم کردیں۔
(۲) شادیوں میں بعض ایسے کپڑے تیار کئے جاتے ہیں جنہیں دولہا دولہن چند دن استعمال کرکے اسے یوں ہی زینت کے لئے رکھے رہتے ہیں اس کو استعمال نہیں کرتے ہم کوشش کریں کہ ان کپڑوں کو بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کردیں۔
(۳) ہم ہر سال جاڑے میں لحاف اور کمبل خریدتے ہیں یا بنواتے ہیں کوشش کریں کہ اگر اللہ نے نوازا ہے تو دس بیس غریب لوگوں کو بھی خرید کردیں۔
(۴) ہم اپنے بچوں کے لئے ہر سال اسکول کا نیا ڈریس بنواتے ہیں اور پرانے کو یوں ہی رکھے رہتے ہیں ہمارے کوشش ہو کہ ہم اس کو بھی غریبوں تک پہنچادیں۔
(۵) ہم کچھ سالوں بعد گھر کے فرنیچر اور دیگر ساز و سامان کو بدلتے رہتے ہیں اور پرانے کو بیچتے ہیں ہماری کوشش یہ ہو کہ اگر اللہ نے نوازا ہے تو پرانے فرنیچر اور پلنگ گدے کو سیکند ہینڈ قیمت میں بیچنے کے بجائے خستہ حال اور جھوپڑپٹی میں رہنے والوں کو مفت دے دیں۔
(۶) ہمارے علماء اور پروفیسرحضرات آئے دن اجلاس اور سیمیناروں میں جاتے ہیں اور ہر پروگرام میں ان کو بیگ اور اٹیچی ملتی ہے اور وہ ترتیب وار گھر میں سجائے رہتے ہیں کوشش ہو کہ وہ اپنے ماتحتوں اور اساتذہ میں تقسیم بھی کرتے رہیں۔ الحمدللہ میرا اس پر عمل ہے۔
(۷) چونکہ خدمت خلق کے کاموں سے میرا بھی ربط ہے اس لئے اس تلخ حقیقت کو بھی پیش کر رہا ہوں کہ مدارس کے طلبہ میں تو لحاف او رگرم کپڑے بہت سے لوگ تقسیم کرتے ہیں زیادہ تر زکوۃ کی رقم سے لیکن مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کا بہت کم لوگ خیال کرتے ہیں ان کی تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ اگر وہ دو تین مہینے کی تنخواہ ملا کر پورے گھر والوں کے لئے گرم کپڑے اور لحاف گدے کا انتظام کریں تو بھی ممکن نہیں ہوتا، اس لئے ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی ہونا چاہئے جو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر امداد اور عطیہ کی رقم سے ان حضرات اساتذۂ کرام کی مدد کریں۔
میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو کیمپ لگوا کر کمبل اور لحاف تقسیم کراتے ہیں؛ لیکن خود اپنے ادارے کے اساتذہ اور ملازمین سے کبھی نہیں پوچھتے کہ کیا آپ کو بھی ضرورت ہے؟ صرف اس لئے کہ یہاں تشہیر نہیں ہوگی اور فوٹو نہیں کھینچا جائے گا۔
(۸) خدمت خلق ہم یوں بھی کرسکتے ہیں کہ نصابی کتابوں کو جو ہمارے بچے پڑھ چکے ہیں، بعد میں پرچون والوں سے اونے پونے بیچ دیتے ہیں اگر وہ کتابیں بدلتی نہیں ہیں تو بک بنک قائم کرکے غریب بچوں میں انہیں تقسیم کریں۔
(۹) جاڑے کے دنوں میں مدرسوں، اقامتی اسکولوں، مسجدوں اور رفاہی اور پبلک جگہوں پر گرم پانی اور آلاؤ کا انتظام کرکے بھی ہم انسانیت کی خدمت کرسکتے ہیں۔
(۱۰) اوپر کی زیادہ تر خدمت اور نفع انسانی کا تعلق فرد کے حوالے سے تھا لیکن اس کا دائرہ بڑا کر کے بھی ہم انسانوں کی خدمت کریں، ہم مل کر اعلیٰ معیاری اسکول ہاسپیٹل اسلامی اقامت گاہیں اور ہوسٹلس قائم کریں اور ان کے ذریعہ سے انسانیت کی خدمت کریں، اور غریبوں کی مسیحائی کرکے اور انسانوں کی خدمت کر کے بہترین انسان کا مصداق بنیں اور اس فہرست میں یعنی ’’خیر الناس من ینفع الناس‘‘ میں اپنا نام شامل کریں۔ خدا ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین۔



آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں