برکت کی واپسی

برکت کی واپسی

’’یہ کنگن ہم ایک ماہ پہلے آپ کی دکان سے لے گئے تھے۔۔۔ یہ واپس لے لیں۔‘‘ دو برقع پوش خواتین نے ایک کنگن میری طرف بڑھا کر کہا۔
’’آپ کو پسند نہیں آیا یا اس میں کوئی نقص ہوگیا ہے؟‘‘ میں حیران تھا کہ اگر واپس کرنا تھا تو اگلے روز ہی کر جاتیں۔ اب ایک ماہ استعمال کرنے کے بعد واپس کی کیا تک؟
’’جی۔۔۔ یہ ہم غلطی سے لے گئے تھے۔ ہم نے اسے بالکل استعمال نہیں کیا۔‘‘ دوسری عورت نے کہا۔
’’کیا مطلب۔۔۔ غلط فہمی سے؟‘‘ میں مزید حیران ہوا۔
’’جی۔۔۔ در اصل ایک ماہ پہلے ہم نے آپ کی دکان سے چوڑیاں خریدی تھیں اور یہ کنگن بھی ہم نے دیکھا۔ میری بیٹی نے اسے ہاتھ میں پہنچ کر دیکھا۔ پھر ہم چوڑیاں و غیرہ خریدتے رہے، ہمیں لاہور شادی میں جانا تھا۔ اسی دوران میاں جی کا فون آگیا کہ نماز کا وقت نکل رہا ہے جلدی آؤ۔ ہم افراتفری میں اپنا سامان لے کر چلے گئے۔ کنگن اتار کردینایاد نہیں رہا نہ ہم اس کی قیمت ادا کرسکے، اسی روز شام کی ٹرین سے ہمیں روانہ ہونا تھا لہذا اس کنگن کو ہم گھر میں ہی سنبھال کر رکھ گئے تھے۔ چوں کہ ہم نے بالکل استعمال نہیں کیا اس لیے واپس کررہے ہیں۔ اگر آپ مطمئن نہیں تو ہم اس کی قیمت ادا کرکے لے جائیں گے۔‘‘

میری کراچی کی ایک بڑی مارکیٹ میں چوڑیوں کی دکان ہے اور سارا دن میری دکان پر گاہکوں کا رش رہتا ہے۔ اس وقت بھی گاہکوں کو جلدی جلدی نمٹا رہا تھا، ساتھ عادل سے بھی باتیں کررہا تھا۔
’’میں بس اتنا کہہ رہا تھا کہ نماز کے وقت بھی تیری دکان بند ہوتی ہے، اردگرد کی ساری دکانیں کھلی ہوتی ہیں جو گاہک تیری دکان پر آتے ہیں، دکان بند دیکھ کر دوسری دکان پر چلے جاتے ہیں۔ اس طرح تجھے نقصان ہوتا ہے۔ جب رش کم ہوجائے تب جا کر نماز پڑھ لیا کر۔‘‘
عادل مسلسل بول رہا تھا جبکہ اس کی باتوں سے میری مسکراہٹ ہی ختم نہیں ہو رہی تھی۔
’’اور اگر رش کم نہ ہوا تو؟‘‘
میں نے کہا تو عادل تھوڑا گڑ بڑا گیا۔
’’تو ۔۔۔ تو پھر۔۔۔ بعد میں پڑھ لینا!‘‘
’’تجھے پتا ہے ناں۔۔۔ یہ میرے ماموں کی دکان ہے اور ماموں نے شروع سے ہی نماز کے وقت دکان بند کرنے کی پابندی کر رکھی تھی۔ شروع میں مجھے بھی بہت کوفت ہوتی تھی مگر رفتہ رفتہ عادت ہوگئی۔ والدین نے تو کبھی نماز پڑھنے کی طرف دھیان نہیں دلایا تھا مگر اس دکان کی وجہ سے ہی مجھے بھی نماز کی پکی عادت ہوگئی بلکہ مجھے دیکھ دیکھ کر میرے دوسرے بہن بھائیوں کو بھی۔‘‘
میں گاہکوں کو بھی نمٹا رہا تھا اور ساتھ ساتھ عادل کی بات کی وضاحت بھی کررہا تھا۔
’’لیکن تیرے ماموں کے انتقال کو بھی تو عرصہ ہوگیا ہے۔‘‘ عادل نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’خود یاد دلایا تم نے۔۔۔‘‘ عادل کی اس بات سے مجھے وہ وقت یاد آگیا جب ماموں کا انتقال ہوا تھا۔ اب رش بھی کم ہوگیا تھا لہذا میں اطمینان سے بیٹھ گیا۔
’’ماموں کے انتقال کے کچھ ہی دن بعد مجھے اسی طرح بعض دوستوں نے دکان کے لیے نماز کو مؤخر کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ تب میں بھی ان کی باتوں میں آگیا تھا پھر یوں ہوا کہ نماز مؤخر ہونے کے بجائے رفتہ رفتہ چھوٹنے لگی۔ مجھے دل ہی دل میں اس پر ندامت ہوتی تھی مگر جب رات کو منافع کی رقم گنتا تو ساری ندامت بھول جاتا۔ دکان کی بِکری تو بے شک بہت زیادہ ہوگئی لیکن عادل! پتا ہے برکت ختم ہوگئی۔ پیسہ بہت ہوتا تھا مگر گھر میں آئے دن کوئی نہ کوئی بیمار۔ جتنا زیادہ آرہا تھا کبھی دواؤں میں نکل جاتا یا اکثر گھر کی چیزیں خراب ہوجاتی تھیں، ٹھیک کرانے میں پیسہ لگ جاتا۔ انہی دنوں دکان میں چوری بھی ہوئی۔ تب مجھے ماموں کی بات یاد آئی کہ نماز کامیابی کی کنجی ہے۔ رزق تو اللہ نے ہمارا لکھ دیا ہے، وہ تو ہمیں مل کر رہی رہے گا پھر ہم اس رب کا شکر کیوں نہ ادا کریں جو ہمیں بن مانگے دے رہا ہے۔ میری دکان کا آج تک ایک کنگن بھی کبھی گم نہیں ہوا۔ حلال کا مال کبھی ضائع نہیں ہوتا، بس اللہ کے در کو کبھی نہ چھوڑنا!‘‘
ابھی میں یہی بات بتا رہا تھا کہ دو خواتین میری دکان کے پاس آکر بولیں: ’’یہ کنگن ہم آپ کی دکان سے لے گئے تھے۔۔۔ یہ واپس لے لیں۔‘‘
اُن خواتین کی پوری بات سن کر میں نے کہا:
’’مجھے یقین ہے آپ نے استعمال نہیں کیا ہوگا۔ قیمت دینے کی ضرورت نہیں۔‘‘
وہ دونوں تو کنگن دے کر چلی گئیں لیکن عادل وہ کنگن ہاتھ میں لیے دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ نجانے وہ کیا سوچ رہا تھا، بس اتنا ضرور ہوا کہ اس دن کے بعد عادل کی بھی کوئی نماز قضا نہیں ہوتی۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں