اسلام میں عورت کا مقام

اسلام میں عورت کا مقام

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
أما بعد! فأعوذبالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم: ﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾ صدق الله مولانا العظیم․

میرے محترم بھائیو! بزرگو اور دوستو!

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے!﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ﴾ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم جو دین، جو شریعت، جو زندگی گزارنے کا طریقہ تمہیں دیں، تم اسے لے لو۔﴿وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہ﴾ اور جس سے وہ تمہیں روک دیں،﴿ فَانتَہُوا﴾ تم اس سے رک جاؤ۔

الله تعالیٰ نے ایک اصول اور ضابطہ بیان فرمایا ہے، چناں چہ اس ضابطے، اصول اور قاعدے کے مطابق جو انسان بھی زندگی گزارے گا اس کی زندگی اس دنیا میں بھی چین ، سکون، عافیت اور کام یابی کی ہو جائے گی اور جو خدانخواستہ اس اصول ، ضابطے اور قاعدے کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے لیے اس دنیا میں بھی اور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں بھی خسارہ، نقصان اور تباہی ہے، چوں کہ سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے نبی اور رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

چناں چہ آپ اس اصول اور ضابطے کو، آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیاة مبارکہ سے لے کر اب تک اگر جانچیں گے تو بالکل دو اور دو چا رکی طرح یہ واضح ہوگا اور سمجھ میں آجائے کا کہ یہی قاعدہ اور ضابطہ بالکل درست اور صحیح ہے۔

آپ پوری دنیا کا جائزہ لیں اور اقوام اور ملتوں کی زندگی دیکھیں تو بالکل طے ہے کہ تمام معاشرے اور تمام مذاہب بالکل ختم ہوچکے ہیں، تباہ ہو چکے ہیں کچھ بھی باقی نہیں بچا اور وہ لوگ جنہوں نے اس ضابطے پر عمل کیا، ان میں سب سے پہلی اور مبارک جماعت صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی ہے، آپ صحابہ کے مردوں کا جائزہ لیں، آپ صحابہ کی عورتوں کا جائزہ لیں، آپ صحابہ کے بچوں کا جائزہ لیں، سب کے سب نے بھرپور کام یاب زندگی گزاری، اس کے بعد تابعین، تبع تابعین، بزرگان دین اولیائے کرام ہیں، فقہاء ہیں، مجتہدین ہیں ،سب کام یاب ہیں، کیسے کام یاب ؟ ایسے کام یاب کہ آج اور قیامت تک ہر مسلمان کی یہ خواہش اور تمنا ہے کہ میں اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھوں، میں اپنے بیٹے کا نام عمر رکھوں، میں اپنے بیٹے کا نام عثمان رکھوں، میں اپنے بیٹے کا نام علی رکھوں، میں اپنی بیٹی کا نام زینب رکھوں، میں اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھوں، ایسا کیوں؟ اس لیے کہ وہ کام یاب ترین لوگ ہیں، الله تعالیٰ نے انہیں کام یاب کیا، اس اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے۔

اس کے برخلاف اگر آپ وہ زمانہ دیکھیں کہ جب قیصر کی حکومت تھی ،کسریٰ کی حکومت تھی، حبشہ کی حکومت تھی اور ان کے پاس دنیا کے وسائل اور اسباب بھی تھے، لیکن وہ سو فی صد ناکام ہوئے۔ اس دنیا میں بھی ناکام ہوئے اور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ناکام ہو گئی، آپ یورپ جائیں، امریکا جائیں ،سب کچھ تباہ ہو گیا، کچھ بھی باقی نہیں۔

واقعہ… میں ہالینڈ گیا، وہاں ایک شہر کے بازار سے ہم گز ررہے تھے ،کئی ساتھی ہمارے ساتھ تھے، یہی ہماری وضع قطع تھی، تو پیچھے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور آکے اس نے ہمیں سلام کیا، ہم نے سلام کا جواب دیا اور اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ میں پاکستانی مسلمان ہوں، آپ کو دیکھا تو لگا کہ آپ بھی پاکستان سے آئے ہیں۔ اس نے کہا کہ آپ پاکستان میں کہاں رہتے ہیں؟ ہم نے کہا کہ پاکستان میں کراچی میں رہتے ہیں، کہا میں بھی کراچی کا ہوں ، آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی، میں چاہتا ہوں کہ آج رات کا کھانا آپ میرے ساتھ کھائیں، ہم نے انکار کیا اور کہا کہ بھئی! ہم ایک جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں، ہمارے رہنے، کھانے کا سب انتظام ہے۔

ہاں! آپ ہمارے ساتھ آجائیں ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہو جائیں اور یہ جواب اسے اس لیے دیا کہ عام طور پر وہاں ہمارے پاکستانی نوجوان اکیلے رہتے ہیں، ہم نے سوچاکہ ہم کئی لوگ ہیں، ہماری وجہ سے اس بے چارے کو تکلیف ہو گی، ہمارا تو انتظام ہے ہی، یہ ایک ہے ،یہ ہمارے ساتھ آجائے گا، ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں۔

وہ بار بار اصرار کرتا رہا اور ہم بار بار انکار کرتے رہے، آخر وہ سمجھ گیا اس نے کہا آپ جو منع کر رہے ہیں اس لیے کہ مجھے کھانا بنانے میں، انتظام کرنے میں دشواری ہو گی ، ہم نے کہا ہاں، اس نے کہا میرا گھر ہے، بیوی ہے، میرے بچے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں، کوئی مشکل نہیں، آپ میری دعوت قبول کر لیں، جب اس نے تفصیلات بتائیں تو ہمیں اطمینان ہو گیااور اس کی دعوت قبول کر لی، اس نے ہمارے مقامی ساتھی کو اپنا پتہ سمجھا دیا اور ہم عشاء کی نماز کے بعد اس کے گھر گئے بہت خوشی ہوئی کہ بہت وسعت والا گھر ہے اس نے ہمیں بٹھایا اور پھر وہ اپنے بچوں کو لے کر آیا، ایک کولایا، دوسرے کو لایا، تیسرے کو لایا، اس نے کہا یہ میرا بڑا بیٹا ہے، اس نے قرآن حفظ کر لیا ہے ۔یہ دوسرا ہے، اس نے اتنے پارے یا دکر لیے ہیں، یہ تیسرا ہے، یہ ابھی ناظرہ قرآن شریف پڑھ رہا ہے، اور بیٹیاں بھی ماشاء الله قرآن حفظ کر رہی ہیں اور قرآن پڑھ رہی ہیں، ان سب بچوں کو جو ہم نے دیکھا تو اندازہ ہواکہ اس کی بیوی یہاں کی مقامی عورت ہے، میں نے پوچھا آپ نے یہاں شادی کی ہے؟ کہا ہاں، میری بیوی یہاں کی مقامی عورت ہے، میں نے پوچھا کیسے شادی کی؟ تو وہ مسکرانے لگے، کہنے لگے کہ شادی یہاں سب سے آسان ترین کام ہے، میں نے پوچھا وہ کیسے؟ وہاں کی کرنسی گلڈر ہے ، اس زمانے میں ہمارے پاکستان کے12 روپے او روہاں کا ایک گلڈر۔ اس نے کہا کہ اگر کسی کے پاس دس گلڈر ہیں تو اس کی شادی ہو سکتی ہے اور اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ آپ کسی بھی کیفے میں ، ریسٹورنٹ میں چلے جائیں اور وہاں کوئی خالی کرسی لے کے بیٹھ جائیں چند منٹ ہی گزریں گے کہ کئی لڑکیاں آپ کے ارد گرد چکر لگانا شروع کر دیں گی ، ان میں جو آپ کو پسند ہو اسے آپ چائے، کافی، جوس کسی بھی چیز کی دعوت دے کر اپنے پاس بلالیں، ابھی آپ کی چائے، کافی، جوس ختم نہیں ہو گا کہ آپ کی شادی کے معاملات طے ہو جائیں گے۔

میں نے کہا کہ ایسا کیوں ہے؟ یہ بات بتانی ہے۔ اس نے کہا ایسا اس لیے ہے کہ ان کی معاشرت ختم ہوچکی ہے جنگل کے جانوروں کو بھی اپنے ہم جنس جانوروں میں شاید کوئی مقام حاصل ہو، اس معاشرے میں عورت کو وہمقام بھی حاصل نہیں، لڑکی بالغ بھی نہیں ہوتی اور اس پر انسانی درندے جھپٹ پڑتے ہیں ،کوئی تین دن، کوئی چار دن، کوئی پانچ دن اس کے ساتھ عیش وعشرت کرتا ہے اور پھر اسے لات مارکر باہر نکال دیتا ہے اور یہ بے چاری پھر اور درندوں کے ہاتھ میں… یہ عورت کا استعمال ہے۔

اس نوجوان نے کہا کہ یہاں کی عورتوں کو احساس ہو رہا ہے، وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے کسی مسلمان سے شادی کر لی، تو ہم محفوظ ہو جائیں گی، وہ کمائے گا ،ہم بازاروں میں نہیں پھریں گی، ہم دفتروں میں نہیں جائیں گی، اور وہ کما کر جو کچھ لائے گا وہ ہمارے ہاتھ میں دے گا، ان کے ہاں تو اس کا تصور ہی نہیں ہے، نفسا نفسی ہے، افراتفری ہے، اس کا کوئی تصور نہیں کہ کوئی کما کر ہمیں دے ۔ رسول الله صلی الله علیہ و سلم کا امتی کیا کرتا ہے ؟دن بھر، ہفتے بھر، مہینے بھر، جو کچھ کماتا ہے لا کے بیوی کے ہاتھ میں دے دیتا ہے کہ تم اس گھر کی ملکہ ہو۔ اس گھر کی مالکہ کون ہے؟ بیوی اور وہ ملکہ اور مالکہ کیا کرتی ہے؟ اپنے میاں کی، شوہر کی خدمت کرتی ہے، اس کے کپڑے دھوتی ہے، استری کرتی ہے، صبح کام پہ جانے سے پہلے کپڑے تیار، اس کے جوتے تیار، اس پر فخر محسوس کرتی ہے کہ میں اپنے شوہر کے لیے کھانا پیش کروں، ناشتہ پیش کروں اور جب وہ کام پہ چلا جاتا ہے تو دن بھر سوچتی ہے کہ میں کیا ایسی چیزیں بناؤں کہ میرا شوہر جب واپس آئے تو خوش ہو جائے۔

مرد گھر میں داخل ہوتا ہے تو مسکرا کر اس کا استقبال کرتی ہے، گرم گرم چائے پیش کرتی ہے، مجھے بتاؤ یہ معاشرہ، یہ زندگی جنت والی ہے یا نہیں؟ کیوں ہے؟﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾ عورت بازاروں کے لیے نہیں ہے، عورت غیروں کے لیے نہیں ہے، عورت تو اپنے مرد کے لیے ہے، اپنے محرم مردوں کے لیے ہے، اپنے بیٹوں کے لیے ہے، اپنی بیٹیوں کے لیے ہے، وہ اس لیے نہیں ہے کہ اس کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ کیا جائے، یہ کون سکھاتا ہے؟ یہ دین اسلام سکھاتا ہے، چناں چہ اس نوجوان کی کار گزاری پر میں حیران ہو گیا، اس نوجوان نے کہا کہ جب میں نے اس لڑکی سے، جو آج میری بیوی ہے، شادی اور نکاح کے معاملات طے کیے تو سب سے پہلے شرط یہ رکھی کہ اسلام قبول کر لو، اس نے کہا میں تیار ہوں، میں نے اسے قرآن پڑھایا، اس نے کہا کہ میں صرف قرآن پڑھوں گی نہیں، بلکہ حفظ کروں گی، وہ حافظہ ہے، میرا گھر جنت ہے، وہ میری خدمت کرتی ہے، میرے بچوں کی خدمت کرتی ہے، فرض نماز تو دور کی بات، اسی کی تہجد کی نماز قضا نہیں ہوتی ۔

میرے دوستو! یہ اسلام کی برکت ہے، یہ دین کی برکت ہے، جتنا اسلام آئے گا، جتنا دین آئے گا، اتنا گھر جنت بنے گا ،اتنی زندگی پر سکون ہوگی اور یہ یادر کھیں کہ جتنا ہم دین سے دور ہوں گے، آج ہم دین سے دور ہیں ہمار ے گھروں میں قرآن نہیں پڑھا جاتا، ہمارے گھروں میں نماز نہیں پڑھی جاتی، ہم آج اپنی اولاد کو دین کی تربیت نہیں دیتے، تو اس کا نتیجہ کیا ہے؟

نتیجہ یہ ہے کہ اولاد انتظا ر کرتی ہے کہ کسی طرح یہ مرے اور اس کا مال ہم حاصل کریں، وہی مغربی معاشرت آج ہم نے اپنائی ہے وہ تو تباہ ہوچکے ہیں، برباد ہو چکے ہیں، کچھ نہیں رہا ان کے پاس، جس کا جی چاہے جاکے دیکھ لے۔

میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، لندن ائیرپورٹ پر میں ساتھیوں کاانتظار کر رہا تھا جو مجھے لینے کے لیے آرہے تھے، اچانکمیں نے پاؤں کے پاس حرکت محسوس کی، ایک دم میں نے دیکھا توایک نوجوان لڑکی، اس کے ہاتھ میں ڈبہ تھا،جب میں نے اسے دیکھا تو ہٹ گئی اور اس نے بہت عاجزانہ انداز میں کہا کہ کیا میں آپ کے جوتے پالش کرسکتی ہوں؟؟؟ یہ کراچی نہیں، پشاور نہیں، لندن ہے۔ اس بے چاری کا کوئی باپ نہیں، کوئی ماں نہیں، اس کی کوئی پہچان نہیں، اس کو کوئی کما کر دینے والا نہیں، اس کی کوئی عزت کرنے والا نہیں، پورا کا پورا معاشرہ تباہ ہے، کچھ بھی نہیں۔

میرے دوستو! الله کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ الله تعالیٰ نے ہمیں محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم عطا فرمائے ہیں، شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں دین دیا، باپ کی قدر ہمیں بتائی، ماں کی قدر ہمیں بتائی، بیوی کی قدر ہمیں بتائی، بہن کی قدر ہمیں بتائی، تو الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے کتنے بڑے احسانات ہیں۔

میرے دوستو! یہ کون سکھاتا ہے کہ ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے؟ مغرب کے پاس کیا ہے؟

یہ کون سکھاتا ہے کہ باپ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے؟ یہ کون سکھاتا ہے کہ ماں باپ کو دیکھنے سے بیت الله کو دیکھنے سے زیادہ ثواب ملتا ہے؟ یہ دین سکھاتا ہے، جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم لے کر آئے۔

میرے دوستو! سوائے اس راستے کے او رکوئی کام یابی کا راستہ نہیں، سوائے اس راستے کے اور کوئی راستہ عزت کا نہیں ہے، سوائے اس راستے کے اور کوئی راستہ چین کا نہیں ہے۔

میرے دوستو! چین اگر ہے، عزت اگر ہے، کام یابی اگر ہے تووہ صرف محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین میں ہے۔

﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ ﴾ وہ جس چیز کا حکم دے رہے ہیں اس پہ عمل کر لو، وہ جس چیز سے منع کر رہے ہیں اس سے رک جاؤ، تو عزت ہی عزت، چین ہی چین اور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی بھرپور کام یاب بن جائے گی۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں