لاٹ صاحب کی بیوی

لاٹ صاحب کی بیوی

میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ میں بہت خوب صورت ہوں۔ گورا رنگ، تیکھے نین نقش۔۔۔ ماں نے بہت لاڈوں سے پالا تھا مگر گھر کے ہر کام میں بھی طاق کردیا تھا۔
واجبی سی تعلیم بھی دلائی، قرآن مجید بھی پڑھا دیا۔ ہم غریب مگر حدود و قیود کے پابند لوگ تھے۔ بڑی ہوئی تو میرے لیے رشتے آنے لگے۔ ان میں دیندار اور دنیادار سبھی شامل تھے، لیکن میرے والد صاحب ایک شریف النفس انسان تھے۔ دنیا کی دولت کو زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے۔ اسی لیے جب ایک شریف سید گھرانے سے میرے لیے رشتہ آیا تو والد صاحب نے معمولی چھان بین کے بعد قبول کر لیا۔
سادگی سے میری شادی ہوگئی۔ میرے شوہر ویسے تو ایک اچھے اور نرم دل انسان تھے، لیکن کام کاج میں کچھ خاص دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ گھر میں کئی افراد تھے۔ مل جل کے گھر کا نظام چل رہا تھا۔ دنیا کی چیزوں کی اتنی خواہش اور ہوس تھی ہی نہیں، اس لیے بس جو روکھی سوکھی ملی، صبر و شکر سے گزارا کرتی رہی۔ شوہر پرائیویٹ نوکری کرتے تھے۔ تنخواہ معمولی ہی تھی مگر عزت سے گزارا ہو رہا تھا پھر کسی بات پر خفا ہو کر وہ نوکری بھی چھوڑ دی۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر نہ مانے۔ یوں زندگی دشوار سے دشوارتر ہوتی چلی گئی۔ وہ کوئی نیا کام ڈھونڈتے اور پھر کچھ مہینوں بعد اسے بھی چھوڑ دیتے۔ حد سے زیادہ نازک مزاجی نے کہیں ٹک کر کام نہ کرنے دیا۔ اسی دوران میرے تین بچے بھی ہوگئے تھے، بڑی بیٹی سات سال کی ہوچکی تھی۔ اسی عرصے میں یکے بعد دیگرے والدین کا بھی انتقال ہوچکا تھا۔
سسرال والے بھی میرے شوہر کی مسلسل بے روزگاری سے تنگ آگئے اور آخر ایک دن ہمیں گھر سے نکل جانے کا الٹی میٹم دے دیا۔ وہ بہت کڑا دن تھا۔ ہمارے پاس بھلا کیا تھا، تین چھوٹے بچوں کو لے کر کہاں جاتی؟ میرے کچھ طلائی زیورات تھے، جو امی نے شادی کے وقت دیے تھے، اسے بیچ کر ایک چھوٹا سا کرائے کا مکان دیکھا اور اس کا ایڈوانس و غیرہ دیا۔
اب شاید شوہر کو کچھ عقل آگئی تھی، تند ہی سے کام ڈھونڈنے لگے۔ ایک جگہ ایک نوکری مل گئی، بہت اچھی آمدن نہ سہی مگر جیسے تیسے گزارا ہورہا تھا۔ دو تین سال بعد پھر کسی بات پر میاں نے نوکری چھوڑ دی۔ اس دن شوہر سے پہلی بار جھگڑا ہوا۔ بے اختیار میں ان پر چلانے لگی:
’’کیا سمجھ رکھا ہے آپ نے ہمیں؟ در در کا بھکاری بنائیں گے کیا؟ کیوں نہیں لگ کر کماتے آپ۔۔۔؟ ان بچوں کی طرف تو دیکھیے، ان پر ترس نہیں آتا آپ کو؟ کیوں انھیں دوسروں کے ٹکڑوں کا محتاج کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
مگر وہ خاموش ہی رہے، آنکھوں پر ہاتھ رکھ کے چپ چاپ لیٹ گئے۔ میں بھی خاموش ہوگئی۔ مجھے گھر کے اخراجات کی فکر کھائے جارہی تھی۔ کھانے پینے کا بند و بست، پھر مکان کا کرایہ بھی۔
کہاں سے ہوگا یہ سب کچھ۔۔۔؟
یہ سوالات اور حالات، دونوں مجھے کسی بچھو کی طرح ڈنک مار رہے تھے۔ کیا کروں کہاں جاؤں۔۔۔؟ شوہر نہ خود کام کر رہے تھے نہ مجھے کہیں کام کرنے دیتے تھے۔ میرے کام کرنے سے ان کی غیرت کو ٹھیس لگتی تھی۔ برادری میں شرمندگی ہوتی تھی۔
سیدزادے کی بیوی لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھے۔۔۔ کسی فیکٹری میں جا کر کام کرے۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
سینا پرونا بھی کچھ ایسا خاص نہیں آتا تھا کہ گھر بیٹھ کر سلائی ہی کرلیتی۔ تعلیم بھی اتنی نہ تھی کہ کسی اسکول میں ملازمت مل جاتی۔ اسی پریشانی کے عالم میں دو مہینے گزر گئے۔ اِدھر اُدھر سے قرض لے کر روکھا سوکھا گھر کا خرچ چلتا رہا۔ مالک مکان بھی کرائے کی وصولی کے لیے کئی چکر لگا چکا تھا۔
ایک دن صبح بچے سو کر اٹھے تو کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ رات بھی کچھ نہ کھایا تھا۔ تین دن سے یہی ہورہا تھا، کسی ایک وقت ہی کچھ تھوڑا بہت کھانے کو مل جاتا تھا۔ کبھی آلو ابال کر کھالیے، کبھی چاول ابال کر، کبھی روکھی روٹی پانی کے ساتھ!
اب تو بھوک سے کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ شوہر کی طرف دیکھا تو انھوں نے بھی نظریں چرا لیں۔ بے اختیار آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں۔ ’’یا اللہ! اپنے مجبور، بے کس بندوں پر رحم فرما۔‘‘
اس وقت ایسا لگتا تھا کہ بھوک سے ظالم اور کوئی چیز نہیں ہے دنیا میں۔۔۔ بس کسی طرح سے کچھ کھانے کو مل جائے، میرے بھوکے بچے سیر ہوجائیں۔ ان کی یاسیت زدہ شکلیں مجھ سے دیکھی نہیں جارہی تھی۔ رہ رہ کر دل میں خیال آرہا تھا کہ کیا تھا اگر بابا میری شادی کسی اچھے خوشحال گھرانے میں کردیتے۔ صرف ظاہری شرافت دیکھ کر مجھے پوری زندگی کے لیے غربت کی چکی میں پسنے کے لیے چھوڑ دیا، مسلسل کرب و اذیت کی سولی پر لٹکادیا۔ ہائے کہاں جاؤں کس سے کہوں دل کی بات؟ گہرے صدمے کی وجہ سے لگتا تھا، دل کسی نے مٹھی میں بھینچ رکھا ہے۔
بچے بھوک کی شدت سے بے جان ہورہے ہیں۔ میرے اللہ!۔۔۔ یہ روتے کیوں نہیں؟ چلاتے کیوں نہیں؟ یہ ضد کیوں نہیں کررہے؟ کیا ان میں اتنی بھی طاقت باقی نہیں رہی کہ یہ رو رو کر مجھ سے کھانے کا تقاضا ہی کرسکیں؟
میرا وجود کسی بھر بھری مٹی کی دیوار کی طرح ڈھے گیا تھا۔ اُن کی خاموشی میرے کلیجے کو چیر رہی تھی، میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی تھی۔ میں انھیں آوازیں دے رہی تھی ہلا رہی تھی مگر وہ بس خاموش نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرے چاند تار و میرے آنگن کی بہارو!۔۔۔ اٹھو ناں، ماں سے گِلہ ہی کر لو کہ کھانے کو کیوں نہیں دیتی؟ مجھ سے کچھ تو کہو، میرے بچو، میرے جگر گوشو! کچھ تو بولو۔۔۔!
میں زار و قطار رو رہی تھی اور سوچ رہی تھی، ہاں ایسے ہی حالات ہوتے ہوں گے جب جوان مائیں اپنے بچوں کی خاطر اپنے دامنِ عصمت کو تار تار کرنے نکل کھری ہوتی ہیں۔
آج میرا بھی یہی جی چاہ رہا تھا، کسی چوک پہ جاکر کھڑی ہوجاؤں اور چیخ چیخ کے خود اپنی بولی لگاؤں۔۔۔ ہے کوئی میرے بچوں کی بھوک کا سودا کرنے والا؟۔۔۔ کوئی ہے جو اس ممتا کی ماری ماں کی نسوانیت کو خرید کر اس کے بچوں کو کھانا کھلادے؟۔۔۔ کوئی ہے جو آج ایک بے کس ماں کی مجبوری کو روٹی کے چند ٹکڑوں کے عوض خرید لے۔۔۔ کہیں کوئی زندگی کی رمق ان معصوموں کے وجود میں دوڑتی نظر آجائے۔۔۔ میں بھول چکی تھی شرم و حیا کے سب تقاضے۔۔۔ پاگل ہوچکی تھی شاید۔۔۔!
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی کسی غریب کی فاقوں سے مر گئی
ایک مدتوں پرانا شعر میرے ذہن میں گونجنے لگا۔ کیا میرے بچوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے والا ہے؟ کیا وہ بھوک کے ہاتھوں مرنے والے ہیں؟ ۔۔۔ کیا میں واقعی اپنی عزت و عصمت کا سودا کرلوں؟۔۔۔ معاً اپنے تینوں معصوم بھول سے بچوں پر نظر پڑی۔ آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ انھیں صرف روٹی کی نہیں ’عزت‘ کی بھی ضرورت ہے۔ جیسے یہ بچے میرا مان ہیں، میرا غرور ہیں بالکل اسی طرح میری پاک دامنی، میری عزت اور میرا وقار ان کے سر کا تاج ہے، میں اسے گرنے نہیں دوں گی، میرا اللہ تو کہتا ہے:
’’موت ایک لمحہ اپنے مقررہ وقت سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتی۔ تو کچھ نہیں ہوگا میرے بچوں کو۔۔۔ اللہ انھیں زندگی بخشے گا۔ وہ بہت غفور الرحیم ہے۔‘‘
ذرا سی دیر کو خیالات بہکے تھے مگر میرے مولا نے مجھے تھام لیا، گرنے نہیں دیا۔ میرے دماغ میں انھی سوچوں کی جنگ جاری تھی کہ یکا یک کسی نے زور زور سے دروازہ دھڑ دھڑایا۔
آصف (میرے شوہر) نے باہر جاکر دروازہ کھولا تو مالک مکان چند لڑکوں کو لے کر آیا تھا اور بری طرح چلا رہا تھا کہ میرا مکان خالی کرو۔
اِن لڑکوں نے گھر میں گھس کر ہمارا سامان اٹھا اٹھا کر باہر بھینکنا شروع کردیا۔ میں نے برقع پہنا، بچوں کو زبردستی جھنجھوڑ کر اٹھایا اور انھیں ساتھ لے کر گلی کے ایک کونے میں کھڑی ہوگئی۔ دل غم سے پھٹا جارہا تھا۔ محلے کے کچھ لوگ بیچ میں آکر مالک مکان کو سمجھانے لگے۔
’’یار! غریب لوگ ہیں، تھوڑی مہلت دے دو۔۔۔‘‘ مگر وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھا۔ ’’جسے ہمدردی ہے وہ خود تین ماہ کا کرایہ بھر دے، دو گزشتہ مہینوں کا اور ایک مہینے کا ایڈوانس۔۔۔ کل ملا کے اٹھارہ ہزار روپے بھرو، تو میری بلا سے پھر رہیں یہ لوگ۔۔۔ میں نے تو کرائے پر ہی چلانا ہے۔‘‘
آصف، مالک مکان سے التجا کرتے رہے، چھوٹے بچوں کا واسطہ دے کے مہلت مانگتے رہے مگر مالک مکان تو آج کسی اور ہی روپ میں تھا۔ اس پر ہماری کسی آہ و زاری کا اثر نہیں ہورہا تھا اور قریب تھا کہ میں چکراتے سر کے ساتھ بے ہوش ہوجاتی کہ اچانک اللہ نے ایک مسیحا بھیج دیا۔
شلوار قمیص پہنے، سر پہ ٹوپی، سیاہ داڑھی اور پر نور شفیق چہرہ۔۔۔!
’’کیا بات ہے بھائی! یہ سامان کیوں بکھرا پڑا ہے، یہ چیخ و پکار کیسی ہے؟‘‘
لوگوں نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اُس شفیق انسان نے مالک مکان سے کچھ بات کی اور چلا گیا، تھوڑی دیر میں ہی واپس آتا دکھائی دیا۔
اُس نے مالک مکان کو اس کی مطلوبہ رقم دی اور انہی لڑکوں نے ہمارا سب سامان اٹھا کر اندر رکھنا شروع کردیا۔ مجھ پر تو ایک سکتے کی سی کیفیت طاری تھی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا اس پاک ذات کا کیسے شکر ادا کروں۔۔۔؟ وہ مسیحا جنہیں دوسرے لوگ نصیر بھائی کہہ کر پکار رہے تھے، اسی گلی کے آخری کونے پر رہتا تھا۔
اُنہوں نے اشارے سے اپنا گھر دکھایا اور ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا پھر میرے بچوں سے پوچھنے لگے:
’’بیٹے! آپ لوگوں نے ناشتہ کیا؟‘‘
بچے خاموش سر جھکائے کھڑے رہے۔ چھوٹی بیٹی مگر باقاعدہ گردن ہلا کر زور زور سے انکار کرنے لگی۔ وہی مسیحا پھر دوبارہ گھر گیا اور کچھ سرخ نوٹ اور کھانے پینے کی چیزیں دے گیا۔ میرے بچوں نے کئی دن بعد پیٹ بھر کے کھانا کھایا تھا۔ میرا رُواں رُواں اس شخص کے لیے دعا گو تھا۔ میرے بچے بڑی محبت اور احسان مندی کے ساتھ اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔
وہ دن ہے اور آج کا دن۔۔۔ وہ لوگ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں، میرے شوہر کے کام کاج میں بھی اکثر مدد کرتے ہیں، لیکن شوہر صاحب کا وہی پرانا دستور ہے۔ چند دن نوکری اور پھر کام چھوڑ دینا مگر وہ لوگ ہر مشکل میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس مسیحا کی بیگم بھی بہت نرم دل اور بااخلاق ہیں۔ کبھی کبھی میں ان کے پاس چلی جاتی ہوں۔ مجھے دین کی باتیں بھی سکھاتی ہیں جو کچھ گھر میں پکاتی ہیں کچھ نہ کچھ روزانہ ہی بھیج دیتی ہیں، جب کبھی مجھے ضرورت ہوتی ہے تو اپنی بچی ان کے گھر بھیج دیتی ہوں اور وہ خود ہی سمجھ جاتی ہیں۔ کچھ پیسے، کھانا و غیرہ دے دیتی ہیں۔ مکان کا کرایہ، بچوں کی فیسیں، گیس و بجلی کے بل، عید، بقر عید کے خرچے۔۔۔ وہ ہر چیز میں ہر موقعے پر ہمارا خیال رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی ہی ان کی نیکیوں کا بدلہ دے، ہم کیا دے سکتے ہیں سوائے دعاؤں کے۔۔۔ مگر میں کیا بتاؤں مجھے کیسی شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جب میں اپنی بچی کو کسی ضرورت سے اُن کے گھر بھیجتی ہوں۔
میں کیسے کسی کو اپنے دل کے زخم دکھاؤں؟۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی اولاد کو بھکاری بنا رہی ہوں۔ میری معصوم شہزادیوں کی سی آن بان والی بیٹی، جب کچھ لا کے میرے ہاتھ پہ رکھتی ہے تو میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے، میں اس کرب کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔ اللہ کی قسم! کوئی میرے دل کے درد کا اندازہ نہیں لگاسکتا۔ کلیجہ کٹتا ہے میرا۔ صبر کے گھونٹ بھر کے رہ جاتی ہوں کہ یہ آزمائش کے دن کسی طرح گزر جائیں۔
اور ایک وہ میرا شوہر ، میرا شریک حیات ہے کہ اسے میرے اور اپنے بچوں کے دکھ سکھ سے کوئی غرض ہی نہیں۔ وہ تو لاٹ صاحب کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ میں کس کے سامنے روؤں اپنے دل کے دکھڑے؟۔۔۔ میرے احساسات کی تپش کسی تک نہیں پہنچتی۔ میری بس ایک گزارش اپنے اُن بھائیوں سے جو کام کاج میں دل چسپی نہیں لیتے کہ خدارا! کسی کی امداد کے سہارے نہ رہیں۔ اللہ نے ہاتھ پاؤں دیے ہیں تو کما کر کھائیں اور سر اٹھا کے جئیں۔ اپنے بیوی بچوں کی عزت نفس اور خود اعتمادی کو بھی ٹھیس نہ لگنے دیں۔ کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا، حلال کمانے والے سب اللہ کے دوست ہیں۔ (ایک سچی روداد)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں