اپنی خبر لیجئے

اپنی خبر لیجئے

’’زمانہ بڑا خواب ہے‘‘ ’’امانت اور دیانت لوگوں کے دل سے اٹھ چکی ہے‘‘ ’’رشوت کا بازار گرم ہے‘‘ ’’دفتروں میں پیسے یا سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا‘‘ ’’ہر شخص زیادہ سے زیادہ بٹورنے کی فکر میں لگا ہوا ہے‘‘ ’’شرافت اور اخلاق کا جنازہ نکل گیا ہے‘‘ ’’بے دینی کا سیلاب چاروں طرف امڈا ہوا ہے‘‘ ’’لوگ خدا اور آخرت سے غافل ہو بیٹھے ہیں‘‘۔
اس قسم کے جملے ہیں جو ہم دن رات کسی نہ کسی اسلوب سے کہتے یا سنتے رہتے ہیں، ہماری کوئی محفل شاید ہی حالات کی خرابی کے اس شکوے سے خالی ہوتی ہو، اور یہ شکوہ کچھ غلط بھی نہیں، واقعۂ زندگی کے جس شعبے کی طرف نظر ڈالئے، ایک نمایاں انحطاط دکھائی دیتا ہے، اور معاشرتی خرابیاں ہمیں گُھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔
دوسری طرف اصلاح معاشرہ کی کوششوں کا جائزہ لیجئے، تو بظاہر ان میں بھی کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ نہ جانے کتنے ادارے، کتنی جماعتیں، کتنی انجمنیں اسی معاشرے کی اصلاح کے لئے قائم ہیں، اور اپنے اپنے دائرے میں اپنی اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ کر رہی ہیں، شاید ملک کا کوئی قابلِ ذکر حصہ اس قسم کی کوششوں سے خالی نہ ہو، اور ان میں سے بعض کوششوں کا محدود سا اثر کہیں کہیں نظر آجاتا ہے، لیکن اگر بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کو دیکھا جائے تو بظاہر یہ ساری کوششیں رائیگاں محسوس ہوتی ہیں، اور معاشرے کی مجموعی فضا پر نہ صرف یہ کہ ان کا کوئی نمایاں اثر ظاہر نہیں ہوتا، بلکہ افق پر امید کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آتی۔
اس صورت حال کے یوں تو بہت سے اسباب ہیں، اور یہ اسباب اب اتنے الجھ گئے ہیں کہ اس الجھی ہوئی ڈور کا سرا پکڑنا بھی آسان نہیں رہا، لیکن اس وقت میں صرف ایک اہم سبب کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جس کی طرف بسا اوقات ہمارا دھیان نہیں جاتا۔
وہ سبب یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی مزاج کچھ ایسا بن گیا ہے کہ ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے، ان کے عیوب تلاش کرنے اور ان کی برائیوں پر تبصرہ کرنے میں جو لطف آتا ہے وہ کسی حقیقی اصلاحی عمل میں نہیں آتا۔ حالات کی خرابی کا شکوہ ہمارے لئے وقت گذاری کا ایک مشغلہ ہے جس کے نت نئے اسلوب ہم ایجاد کرتے رہتے ہیں، لیکن ان خرابیوں کی اصلاح کے لئے کوئی بامعنی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے، اور اگر اصلاح احوال کے لئے کوئی جھنڈا بلند کرتے بھی ہیں تو ہماری خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اصلاح کے عمل کا آغاز کسی دوسرے سے ہو، ہماری اصلاحی جد و جہد اس ذہنی مفروضے کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے کہ ہمارے سوا ساری دنیا کے لوگ خراب ہوگئے ہیں، اور ان کے اعمال و اخلاق کو درست کرنے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، یہ سب کچھ سوچتے اور کرتے ہوئے یہ خیال بہت کم لوگوں کو آتا ہے کہ کچھ خرابیاں خود ہمارے اندر بھی ہوسکتی ہیں، اور ہمیں سب سے پہلے ان کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے، چنانچہ جو اصلاحی تحریک اپنے آپ سے بے خبر ہو کر صرف دوسروں کو اپنا ہدف بناتی ہے، اس میں دوسروں کے لئے کوئی کشش اور تأثیر نہیں ہوتی، اور وہ محض ایک رسمی کارروائی ہو کر رہ جاتی ہے۔
معاشرے کے حالات اور لوگوں کے طرزِ عمل پر تنقید کا سب سے خطرناک اور نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو خود اپنی غلط کاری کے لئے وجہ جواز بنالیا جاتا ہے، چنانچہ یہ فقرہ بکثرت سننے میں آتا رہتا ہے کہ ’’یہ کام ٹھیک تو نہیں، لیکن زمانے کے حالات کو دیکھتے ہوئے کرنا ہی پڑتا ہے‘‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے زمانے اور زمانے کی ساری برائیوں کا تذکرہ تو اس انداز سے کرتے ہیں جیسے ہم ان تمام برائیوں سے معصوم اور محفوظ ہیں، لیکن اس تذکرے کے بعد جب عملی زندگی میں پہنچتے ہیں تو ان کاموں کا بے تکان ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں، جن کی برائی بیان کرتے ہوئے ہم نے اپنا سارا زورِ بیان خرچ کیا تھا۔
اگر ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ہولناک آگ بھڑک رہی ہو، اور ہم یقین سے جانتے ہوں کہ اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی تو کیا پھر بھی ہمارا طرز عمل یہ ہوگا کہ ہم اطمینان سے بیٹھ کر اظہار افسوس کرتے رہیں، اور ہاتھ پاؤں ہلانے کی کوشش نہ کریں؟ ایسے موقع پر بے وقوف سے بے وقوف شخص بھی آگ کی تفصیلات کو نمک مرچ لگا کر بیان کرنے سے پہلے اسے بجھانے کی کوشش کے لئے فائر بریگیڈ کو فون کرے گا، اور کود بھی اسے بجھانے کا جو طریقہ ممکن ہوگا، اسے اختیار کرے گا، اور اگر آگ بجھتی نظر نہ آئے تو کم از کم وہاں سے بھاگ ہی کھڑا ہوگا، لیکن یہ کام کوئی بدترین دیوانہ ہی کرسکتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بجائے وہ آگ کا قصہ لوگوں کو سنا کر خود اسی آگ میں چھلانگ لگادے۔
لیکن معاشرتی برائیوں کی جس آگ کا تذکرہ ہم دن رات کرتے ہیں، عجیب بات ہے کہ اس کے بارے میں ہمارا طرز عمل یہی ہے کہ یہ تذکرہ کے بعد ہم خود بھی اسی میں کود جاتے ہیں، ہم دن رات رشوت خوروں کو صلواتیں سناتے ہیں، لیکن اگر کبھی وقت پڑجائے تو خود رشوت لینے یا دینے میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جھوٹ، خیانت اور حرام خوری کی مذمت ہمارے وردِ زبان رہتی ہے، لیکن اگر کبھی داؤ چل جائے تو خود ان برائیوں سے نہیں چوکتے، اور اگر کبھی اس پر اعتراض ہو ت وٹکسالی جواب یہ ہے کہ سارا معاشرہ جس ڈھپ پر چل رہا ہے ہم اس سے کٹ کر کس طرح رہ سکتے ہیں؟ کیا اس طرز عمل کی مثال بالکل ایسی نہیں ہے کہ کوئی شخص بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر خود اس میں چھلانگ لگادے؟
جب معاشرے میں برائیوں اور گمراہیوں کا چلن عام ہوجائے تو ایسے موقع کے لئے قرآن کریم نے ایک بڑی اصولی ہدایت عطا فرمائی ہے، جس سے غفلت کے نتیجے میں ہم موجودہ حالات سے دوچار ہیں، وہ ہدایت قرآن کریم ہی کے الفاظ میں یہ ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ» [المائدہ: ۱۰۵]
’’اے ایمان والو! خود اپنی خبر لو، اگر تم ہدایت کے راستے پر ہو تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے‘‘۔
اس آیت کریمہ نے یہ زرّیں حقیقت ارشاد فرمائی ہے کہ دوسروں کی بدعملی تمہاری بدعملی کے لئے وجہِ جواز نہیں بن سکتی، نہ صرف اس کا تذکرہ کردینے سے کوئی مقصد حاصل ہوسکتا ہے، تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنی خبر لو، اور کم از کم اپنی ذات کی حد تک بداعمالیوں سے پرہیز کرو، اور اپنا سارا زور خودا پنے آپ کو درست کرنے میں خرچ کردو۔ جن برائیوں سے فوراً بچ جاؤ۔ جن سے بچنے کے لئے کسی کوشش اور محنت کی ضرورت ہے، ان کے لئے کوشش شروع کردو، اگر کوئی دوسرا شخص رشوت لے رہا ہے تو کم از کم خود رشوت کے گناہ سے بچ جاؤ، اگر کوئی دوسرا خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے تو کم از کم خود خیانت سے اجتناب کرو، اگر کوئی دوسرا جھوٹ بول رہا ہے تو کم از کم تم سچائی کو اپنا شعار بنالو، اگر کوئی دوسرا حرام خوری میں مبتلا ہے تو کم از کم تم یہ طے کرلو کہ حرام کا کوئی لقمہ میرے پیٹ میں نہیں جائے گا۔
یہی ہدایت ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دی ہے:
’’اذا رأیت شُحا مطاعا و ھوی متبعا و دنیا مؤثرۃ و اعجاب کل ذی رأی برأیہ فعلیک بخاصۃ نفسک و دع عنک امر العامۃ‘‘
جب تم دیکھو کہ لوگ جذبہ بخل کی اطاعت کر رہے ہیں، اور خواہشات نفسانی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، دنیا کو ہر معاملے میں ترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے پر گھمنڈ میں مبتلا ہے تو ایسے میں خاص طور پر اپنی اصلاح کی فکر کرو، اور عام لوگوں کے معاملے کو چھوڑ دو۔ (سنن ترمذی، کتاب التفسیر، حدیث: ۲۹۸۴، سنن ابی داؤد، ۳۷۷۸، سنن ابن ماجہ، ۴۰۰۴)
مطلب یہ ہے کہ ایسے موقع پر عام لوگوں کی برائی کرتے رہنا مسئلے کا کوئی حل نہیں، مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہر شخص اپنی اصلاح کی فکر کرے، اور اپنے آپ کو ان پھیلی ہوئی برائیوں سے بچانے کے لئے اپنی ساری توانائیاں صرف کردے۔
ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’من قال: ھلک الناس فھو أھلکھم‘‘
جو شخص یہ کہتا پھرے کہ لوگ برباد ہوگئے تو درحقیقت ان سب سے زیادہ برباد خود وہ شخص ہے۔
(صحیح مسلم ’’کتاب البر و الصلۃ و الادب‘‘ حدیث: ۴۷۵۵ میں یہ الفاظ ہیں: ’’اذا قال الرجل ھلک الناس فھو أھلکھم‘‘ یہی الفاظ سنن ابی داؤد حدیث: ۴۳۳۱ میں ہیں)
یعنی جو شخص ہر وقت دوسروں کی برائیوں کا راگ الا پتا رہتا ہو، اور خود اپنے عیوب کی پروا نہ کرے، وہ سب سے زیادہ تباہ حال ہے، اس کے بجائے اگر وہ اپنی اصلاح کی فکر کر لے، اور اپنے طرز عمل کا جائزہ لے کر اپنی برائیاں دور کر لے تو کم از کم معاشرے سے ایک فرد کی برائی ختم ہوجائے گی، اور تجربہ یہ ہے کہ معاشرے میں ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلتا ہے، اور ایک فرد کی اصلاح کسی دوسرے کی اصلاح کا بھی ذریعہ بن جاتی ہے، معاشرہ درحقیقت افراد ہی کے مجموعے سے عبارت ہے، اور اگر افراد میں اپنی اصلاح کی فرک عام ہوجائے تو دھیرے پورا معاشرہ بھی سنور سکتا ہے۔
لہذا مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم معاشرے اور اس کی برائیوں کو ہر وقت کوستے ہی رہیں، اس سے نہ صرف یہ کہ کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، بلکہ بسا اوقات لوگوں میں مایوسی پھیلتی ہے، اور بدعملی کو فروغ ملتا ہے، اس کے بجائے مسئلے کا حل قرآن و سنت کے مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے حالات کا جائزہ لے اور اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کی عادت ڈال کر یہ دیکھے کہ اس کے ذمے اللہ اور اس کے بندوں کے کیا کیا حقوق و فرائض ہیں؟ اور کیا وہ واقعۃً ان حقوق و فرائض کو ٹھیک ٹھیک ادا کر رہا ہے؟ معاشرے کی جن برائیوں کا شکوہ اس کی زبان پر ہے، ان میں سے کن کن برائیوں میں وہ خود حصہ دار ہے؟
چونکہ ہم نے کبھی اس نقطۂ نظر سے اپنا جائزہ لینے کی کوشش ہی نہیں کی، اس لئے یہ اجمالی بہانہ ہم دن رات پیش کرتے رہتے ہیں کہ چارسو پھیلی ہوئی بدعنوانیوں میں ایک اکیلا شخص کیا کرسکتے ہے؟ حالانکہ اگر انصاف کے ساتھ اس طرح جائزہ لے کر دیکھیں تو یہ پتہ چلے گا کہ ان گئے گذرے حالات میں بھی ایک اکیلا شخص بہت کچھ کرسکتا ہے، جائزہ لینے سے معلوم ہوگا کہ ہماری بہت سی غلطیاں اور کوتاہیاں ایسی ہیں جن کا ہم فوری طور پر تدارک کرسکتے ہیں، اور کوئی نہیں ہے جو اس تدارک کے راستے میں رکاوٹ بن سکے۔
اور بہت سی غلطیاں ایسی ہیں جن کا اگر فوری تدارک ممکن نہیں ہے تو کم ازکم ان کی مقدار اور سنگینی میں فوری طور سے کمی کی جاسکتی ہے، اور بہت سی ایسی بھی ہیں جن کی تلافی اور تدارک میں کچھ دشواریاں ہیں، لیکن وہ دشواریاں ایسی نہیں ہیں جو حل نہ ہوسکیں، ان دشواریوں کو دور کرنے کی راہیں سوچی جاسکتی ہیں، آخر اسی گئے گذرے معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو برائیوں کی اس بھڑکی ہوئی آگ میں بھی اپنا دامن بچا کر زندگی گذار رہے ہیں، ایسے لوگ اپنی پاکباز زندگی کی وجہ سے مر نہیں گئے، وہ بھی اسی معاشرے میں زندہ ہیں، بلکہ اگر حقیقت شناس نگاہ ہو تو بہت اچھی طرح زندہ ہیں۔
لیکن ان ساری باتوں کا احساس اسی وقت جاگ سکتا ہے جب دل میں اصلاح کی فکر پیدا ہوجائے، اور اس فکر کے نتیجے میں اپنا جائزہ لینے کی عادت پڑ جائے، جس دن ضمیر کی یہ طاقت بیدار ہوگئی اور اس کی آواز سننے کے لئے قلب و ذہن کے دریچے کھل گئے اس دن صحیح معنی میں اس حقیقت کا انکشاف ہوگا کہ معاشرے کی خرابی کا جو ہوّا ہم نے اپنے سروں پر مسلط کر رکھا تھا، اور جس نے ہمیں اپنی صحت کی ہر تدبیر سے روکا ہوا تھا، وہ کتنا بے حقیقت اور کتنا بے وزن تھا؟ بیمار کا سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنی بیماری کا احساس ہو، اور اس بات کا یقین اس کے دل میں پیدا ہو کہ اس کی بیماری ناقابلِ علاج نہیں ہے، اور آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم اس احساس اور اس یقین سے مسلح ہو کر اپنی بیماری کا علاج تلاش کرنے کی فکر کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں