عافیہ اور امریکی انصاف… یہ جرم کافی ہے تیرا کہ تو مسلمان ہے

عافیہ اور امریکی انصاف… یہ جرم کافی ہے تیرا کہ تو مسلمان ہے

تمام کفر کی دنیا کھڑی ہے اک جانب
تو ایک عافیہ تنہا کھڑی ہے اک جانب

میں کیا کہوں تجھے اے عافیہ! تو نادان ہے
یہ جرم کافی ہے تیرا کہ تو مسلماں ہے

یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے
کہ ایک شخص یہاں لشکروں پر بھاری ہے

عافیہ صدیقی جس نے جرأت اور حوصلے کا مظاہرہ کر کے مغرب کے انصاف کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا، وہ انہی کا حصہ ہے۔ سعد اللہ شاہ کی ایک نظم سے لیے گئے یہ اشعار عافیہ کے جرم کی حقیقت کو نہ صر ف بیان کررہے ہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی بھی واضح کر رہے ہیں۔ عافیہ صدیقی کون ہیں، ایک مختصر سا جائزہ لے لیتے ہیں۔
عافیہ ۲ مارچ ۱۹۷۲ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ۸ سال کی عمر تک زیمبیا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں ثانوی تعلیم مکمل کی، اس کے بعد ہوسٹن ٹیکساس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میسا چوسٹس ادارہ ٹیکنالوجی سے ۲۰۰۱ء میں تعلیم کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ۲۰۰۲ء میں پاکستان آئیں، ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے دوبارہ ملازمت کی تلاش میں امریکا گئیں۔ میری لینڈ میں ڈاک وصولی کے لیے پوسٹ بکس نمبر (کرائے پر) لیا۔
۲۰۰۳ء میں واپس کراچی آگئیں۔ ایف بی آئی نے شک ظاہر کیا کہ یہ پوسٹ بکس کسی ایسے شخص نے کرائے پر لیا ہے جس کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ اس کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ میں عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی۔ اس مہم کا سنتے ہی عافیہ کراچی میں ہی روپوش ہوگئیں۔ ۳۰ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنے تین بچوں کے ساتھ راولپنڈی جانے کے لیے کراچی ایئرپورٹ کی جانب ٹیکسی میں روانہ ہوئیں مگر راستے میں ہی لاپتا ہوگئیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں امریکیوں نے اغوا کرلیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر ۳۰ سال، بڑے بچے کی ۴ سال اور سب سے چھوٹے بچے کی عمر ایک ماہ تھی۔ اخبارات میں ان کی گرفتاری کی خبریں شائع ہوتی رہیں مگر وزراء نے ان کی گرفتاری سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس دوران ان کی والدہ کو خاموش رہنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ برطانوی صحافی جو طالبان کی قید میں رہیں اور بعد میں مسلمان ہوگئیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بگرام میں قائم امریکی جیل میں قیدی نمبر ۶۵۰ شاید عافیہ صدیقی ہیں، جو انتہائی بری حالت میں قید اور تشدد جسمانی اور جنسی تک کا شکار ہیں۔
ذرائع ابلاغ خصوصاً پرنٹ میڈیا میں شور مچا تو امریکیوں نے اچانک اعلان کردیا کہ عافیہ صدیقی کو ۲۷ جولائی ۲۰۰۸ء کو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا، تا کہ ان پر دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جائے۔ امریکی کہانی کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے ناقابل یقین قرار دیا۔ رفتہ رفتہ معلوم ہوا کہ دوران گرفتاری عافیہ کو امریکی فوجیوں نے گولیوں کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کردیا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ امریکی فوجیوں پر بندوق اٹھانے کی کوشش کر رہی تھیں جس کی وجہ سے ان پر گولیاں چلائی گئیں، وہ قریب مرگ تھیں اور پھر انہیں گلاسکو میں طبی امداد دی گئی اور کافی وقت کے بعد وہ صحت یاب ہوئیں۔ دسمبر ۲۰۰۹ء میں کراچی پولیس نے عافیہ اور ان کے بچوں کے اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا۔ ستمبر ۲۰۱۰ء میں حکومت پاکستان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے امریکی حکام سے بذریعہ خط عافیہ صدیقی کی ’’باعزت‘‘ وطن واپسی کا مطالبہ کیا۔
اسلام آباد اور لاہور کی عدالتوں میں دائر درخواستوں میں پرویز مشرف پر ڈالروں کے عوض عافیہ کو امریکا کے ہاتھوں فروخت کرنے کا الزام لگایا۔ یوسف رضا گیلانی جو اس وقت وزیر اعظم تھے، انہوں نے اگست ۲۰۰۹ء میں کہا کہ حکومت نے ۲ ملین ڈالر عافیہ کے وکلاء کے لیے مختص کیے ہیں لیکن لاہور ہائی کورٹ نے یہ رقم خرد برد ہونے کے خدشے کے پیش نظر (درخواست گزار کی جانب سے) امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کے بجائے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرنے پر خرچ کرنے کا حکم دیا، مگر اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ۲۳ ستمبر ۲۰۱۰ء کو نیویارک میں امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی پر ’’جرم بے گناہی‘‘ مین ۸۶ سال قید کی سزا سنائی۔ اس کے بعد بھی عافیہ کو نہیں بخشا گیا۔ جون ۲۰۱۳ء میں امریکی مورٹ ورتھ کے قید خانے میں عافیہ پر امریکی فوجی نے حملہ کیا، جس کے باعث وہ کئی دن تک بے ہوش رہیں، بالآخر وکیل کی مداخلت پر عافیہ کو طبی امداد دی گئی۔ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ان کی رہائی کے لیے ملک گیر تحریک چلائی، ہر سیاست دان اور حکمران نے ان سے رہائی کے وعدے کیے، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
عافیہ ایک ماہر تعلیم تھیں اور ساتھ میں تقابل ادیان و مذاہب کا مطالبہ کیا کرتی تھیں، وہ غریبوں اور نادار لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتیں، وہ اپنی خوش اخلاقی اور سخاوت کے باعث کیا اسکول، کیا کالج، کیا یونیورسٹی ہر جگہ مرکز نگاہ بن جاتیں، امریکی الزامات کے بے بنیاد ہونے کا عالم یہ ہے کہ امریکی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ تسلیم کیا کہ عافیہ کا دہشت گردی یا کسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ انہیں ’’اقدام قتل‘‘ پر سزا دی جارہی ہے اور یہ اقدام قتل بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکا۔ امریکی عدالت کے انصاف پر عافیہ کی مخالفت کرنے والا وکیل اور تجزیہ کار عافیہ صدیقی کو ’’انسانیت کی ماں‘‘ کہہ کر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوگیا ۔ اسٹیون ڈاؤنز کے الفاظ یہ تھے: ’’میں ایک مردہ قوم کی بیٹی کی سزا کا مشاہدہ کرنے چلا گیا لیکن میں انسانیت کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اعلیٰ ترین خراج تحسین پیش کرکے باہر آیا۔‘‘ ان ریمارکس سے امریکی انصاف اور ہماری بحیثیت قوم مردہ ہونے کی قلعی کھل جاتی ہے، امریکا کا بھیانک انصاف اور ہمارے حکمرانوں کا بھیانک رویہ دونوں ہمارے سامنے ہیں، جس کی سزا امریکا کے ساتھ ہمیں بھی بھگتنی ہے۔ امریکی دھمکیاں اور فری بلوچستان مہم اس کی مثال ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے گور باچوف ثابت ہوں گے، خدا ہمارے حکمرانوں کو بصیرت عطا کرے، وہ بھی بھگت رہے ہیں، مگر احساس کسے ہے؟


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں