’’ماہنامہ ’صدق‘ لکھنؤ کے شمارہ نمبر: ۳۳، صفحہ نمبر:۲ پر ’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘ کی روایت پر وضع حدیث کا حکم لگایا گیا تھا، محدث العصر حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ نے اس پر ’’استدراک‘‘ کرتے ہوئے مذکورہ روایت کی حدیثی و اسنادی حیثیت پر کلام فرمایا تھا، جو آج سے تقریباً پچھتر سال قبل (۱۹۴۰ء کے لگ بھگ) ماہنامہ ’صدق‘ لکھنؤ میں شائع ہوا تھا، مضمون کی افادیت کے پیش نظر ماہنامہ ’بینات‘ میں قندِ مکرر کے طور پر پیش خدمت ہے۔‘‘ (ادارہ ماہنامہ بینات)
استدراک
ابھی یاد آیا کہ ماہ رمضان کے کسی پرچہ میں حدیث ’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘ پر کسی سائل نے ’’اتفاقی موضوع ہونے‘‘ کا حکم لگایا تھا۔ اسنادی حیثیت سے قطع نظر کرکے آپ نے جو توجیہ فرمائی تھی وہ پسند آئی تھی۔ اُس وقت خیال آیا کہ حدیث مذکور کے متعلق کچھ عرض کیا جائے، لیکن یاد نہیں رہا۔ آج یاد آنے پر اجمالاً اتنا عرض کیے دیتا ہوں کہ بالکل یک طرفہ فیصلہ نہ ہو اور کسی قدر اسنادی اعتبار سے بھی حقیقت سامنے رہے:
۱: ’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘ کے لفظ سے تو حدیث نہیں ہے، البتہ اس کے ہم معنی الفاظ سے کتب حدیث میں موجود ہے:
الف: (مستدرک حاکم، ج:۲، ص: ۶۱۵) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے:
’’قال: أوحی اللہ الی عیسی علیہ السلام: یا عیسی! آمن بمحمد و امر من أدرکتہ من أمتک أن یومنوا بہ فلو لا محمد ما خلقت آدم و لو لا محمد ما خلقت الجنۃ و لاالنار۔‘‘
’’حاکم ابوعبداللہ رحمہ اللہ روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ھذا حدیث صحیح الاسناد و لم یخرجاہ‘‘ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اگرچہ فرماتے ہیں: ’’أظنہ موضوعاً علی سعید‘‘ لیکن کوئی وجہ اپنے گمان کی تائید میں بیان نہیں فرماسکے۔
حافظ تقی الدین سبکی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’شفاء السقام‘‘ میں اور شیخ سراج الدین بلقینی رحمہ اللہ اپنے فتاویٰ میں حافظ ابوعبداللہ حاکم رحمہ اللہ کی تائید میں اس کی تصحیح فرماتے ہیں: ’’و مثلہ لایقال رأیا فحکمہ الرفع‘‘
ب: (نیز مستدرک حاکم، ج:۲، ص: ۶۱۵) میں اور ’’مجمع الزوائد، ج:۸، ص: ۲۵۳ میں بحوالہ طبرانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک طویل اثر ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام کو یوں خطاب ہوا ہے: ’’و لو لا محمد ما خلقتُک‘‘ حاکم رحمہ اللہ نے اس کی بھی تصحیح فرمائی ہے۔ اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی ضعیف ہے، موضوع ہونے کا حکم پھر بھی مشکل ہے۔ عبدالرحمن بن زید ‘ ترمذی، ابن ماجہ کے رجال سے ہے۔
ج: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک اثر ’’زرقانی شرح مواہب‘‘ میں ہے:
’’ان اللہ قال لنبیہ: من أجلک أسطح البطحاء و أموج الموج و أرفع السماء و أجعل الثواب و العقاب۔‘‘
۲: ان وجوہ کی بنا پر حدیث مذکور پر یہ حکم لگانا کہ موضوعی ہے اور اتفاقی موضوعی ہے، کیوں کر صحیح ہے؟! بیہقی رحمہ اللہ، ابوالشیخ اصبہانی رحمہ اللہ و غیرہ نے بھی پہلی حدیث کی روایت کی ہے۔
غرض حدیثی اور اسنادی اعتبار سے مطلقاً موضوعی کا حکم نہایت مشکل ہے، خصوصاً اتفاقی موضوعی کا حکم۔ بہر حال یہ دونوں دعوے تحقیق و واقعیت کے خلاف ہیں۔ مزید بحث و تحقیق کے بعد ابھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، اس وقت صرف اجمال ہی عرض کرنا مقصود تھا۔
۳: عقلی حیثیت سے تو حدیث مذکور کی تصحیح و تائید میں بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہے، جس کی اس وقت حاجت نہیں۔ محدثین کی کتابوں میں کتنی حدیثیں ملتی ہیں کہ اسنادی اعتبار سے یا کسی خاص لفظ کے اعتبار سے یا مرفوع ہونے کے اعتبار سے ضعیف و ساقط ہوتی ہیں، لیکن معنوی حیثیت سے اور دوسری جہات سے وہ صحیح ہوتی ہیں جس کی تحقیق و تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ والسلام
بشکریہ ماہنامہ بینات۔جمادی الأولی ۱۴۳۸ھ
آپ کی رائے