اولاد سے محرومی

اولاد سے محرومی

جب تک بیٹی ماں باپ کے گھر ہوتی ہے، وہ گھر ماں باپ کا ہی کہلاتا ہے۔ بچپن سے جوانی تک یہی سننے کو ملتا ہے کہ بیٹی پرائی ہے، دوسرے گھر جانا ہے۔
پھر جب بیاہ کرچلی جاتی ہے تو وہ گھر شوہر کا ہوتا ہے، پھر بھی یہی کچھ کہ پرائے گھر سے آئی ہے، جب تک اولاد نہیں ہوتی، کچھ سکون رہتا ہے، اگر اولاد ہونے میں ہی کچھ عرصہ بیت جائے تو طنزیہ باتیں صبح شام سننے کو ملتی ہیں۔ اس وقت کیوں یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ اس میں قصور وار کون ہے؟ بیٹیاں ہی ہوتی رہیں تو بھی قصوروار عورت؟ اولاد نہ ہو تو بھی سزاوار عورت؟ جبکہ قرآنِ پاک میں واضح طور پر اللہ پاک نے فرمادیا کہ وہ جس کو چاہے بیٹیاں دے، جس کو چاہے بیٹے۔۔۔ اولاد دینا نہ دینا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
جب تک شوہر سلامت رہے وہ گھر شوہر کا، بچے بڑے ہوئے تو وہ پھر وہ گھر بیٹوں کا، تو عورت کا گھر کون سا ہے؟ ذرا گہرائی میں جاکر سوچیں تو کس قدر دکھ ہوتا ہے ناں؟ اللہ پاک تمام مردوں کی سوچ کو دینی بنادے۔ ہمارے میاں جی نے جب گھر خریدا، الحمدللہ 12سال قبل خریدا تھا۔ جب اس کے کاغذات بنوانے کا وقت آیا تو بچوں کو بھی صاف کہہ دیا کہ یہ گھر نہ میرا نہ تمہارا۔۔۔ یہ صرف تمہاری ماں کا ہے۔ عورت کو گھر کا لالچ نہیں ہوتا، بلکہ مان ہوتا ہے۔ اللہ کا بہت کرم کہ میاں جی نے مان رکھا۔۔۔ عورت جب ماں ہوتی ہے تو اسے اولاد سے بڑھ کر تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ یہ الفاظ ہی تو ہوتے ہیں کہ سیروں خون بڑھا بھی دیں اور اتنا ہی نچوڑ بھی لیں۔
ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ پاک ہر شادی شدہ بچی کو اولاد کی نعمت سے ضرور بالضرور نوازے۔ آمین۔ ویسے تو گھر میں الحمدللہ فروٹ، مٹھائی سب ہی آتی ہے، مگر میاں جی اکثر کلینک سے بھی جب مٹھائی لاتے ہیں تو ہمیں حیرانی ہوتی ہے، یہ کس بات کی؟ فلاں مریضہ کے ہاں اولاد ہوئی، فلاں کے ہاں اتنے سالوں بعد اللہ نے کرم کیا۔ ابھی پچھلے کچھ ماہ پیشتر ایک ایسی مریضہ کا بھی علاج کی اکہ جس کی شادی کو بیس سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا تھا۔ سچی بات ہے کہ ہمیں بہت حیرانی ہوئی، کیوں کہ اس طرح خاتون کی عمر چالیس کے لگ بھگ تو ضرور ہوگی۔ ہم اسی تجسس میں رہے کہ اگر ایسی ادویہ ہیں تو ان کو اپنی بہنوں تک ضرور پہنچانا چاہیے، ہوسکتا ہے کہ اس طرح کسی کا بھلا ہوجائے۔ کم سے کم دعائیں ملنے کا ایک ذریعہ تو بنے گا۔
کسی نہ کسی طرح وقت نکال کر ہم نے اپنے میاں سے تفصیلی گفتگو اس موضوع پر کرہی لی، جس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک دوا ہوتی ہے ’’اشوکا‘‘ نام کی، یہ زیادہ تر ہندوستان میں ہی بنتی ہے۔ اس کے درخت کی باقاعدہ پوجا تک کی جاتی ہے اور ہندوؤں میں یہ بات مشہور ہے کہ کوئی عورت چاہے بانجھ ہی کیوں نہ ہو، اس کے استعمال سے صاحبِ اولاد ہوجاتی ہے۔ بے شک اولاد اللہ پاک کی ہی دین ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گجائش ہی نہیں، مگر علاج بھی سنت ہے، اگر کوئی نقص ہے تو اس کی دوا لینے میں حرج تو نہیں۔
آپ تمام بہنیں بھی یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ ہمارے یہاں جب بھی اولاد میں تاخیر ہوتی ہے تو عورت کو ہی تختۂ مشق بنایا جاتا ہے، تو کیا یہ بہترین نہیں کہ ایک بار اس دوا کو بھی استعمال میں لایا جائے۔ اس دوا کے علاوہ بھی دو تین ایسی ادویہ ہیں کہ جن کے استعمال سے اولاد کی خوشخبری جلد مل جاتی ہے، جن میں ’’الیٹرس فاری نوسا‘‘ (ALETRIS.FARINOSA)، بوریکس (BOREX) و غیرہ بھی ہیں۔ ادویہ کے ساتھ آپ روحانی علاج بھی کائیں، یہاں روحانی علاج سے مراد وہ دعائیں ہیں جو اولاد کے حصول میں کارآمد ہیں۔ ہماری ڈھیروں دعائیں ان تمام بہنوں کے لیے جو اولاد سے محروم ہیں۔ اللہ پاک آپ کو اولاد جیسی نعمت سے محروم نہ رکھے، آمین۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا!

تحریر: اہلیہ ڈاکٹر ناصرالدین سید
اشاعت: خواتین کا اسلام میگزین۔ نمبر 728


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں