تبلیغی سہ روزہ کی مختصر روداد

تبلیغی سہ روزہ کی مختصر روداد

گزشتہ چند سال سے استادِ محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کی یہ ترتیب ہے کہ وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک سالانہ سہ روزہ لگاتے ہیں۔ اس سال ۸ تا ۱۰ نومبر ۲۰۱۶ء کو سہ روزہ ترتیب پایا۔ گوجرانوالہ سے ۳۵ علماء کرام پر مشتمل قافلہ ۸ نومبر کی صبح تبلیغی مرکز میں جمع ہوا۔ امیر تبلیغی مرکز محترم حاجی محمداسحاق صاحب نے روانگی کی ہدایت فرمائیں اور مولانا اسرار صاحب کو امیر مقرر کرنے کے بعد تشکیل سرگودھا میں طے پائی۔ ہماری گاڑی میں استاد محترم مولانا زاہد الراشدی، مولانا طارق بلالی اور مولانا اسرائیل صاحب سوار تھے۔ امیر سفر مولانا محمداسرائیل صاحب منتخب ہوئے۔
دوران سفر میں استاد محترم سے سوال کیا کہ موجودہ دور میں بین المسالک ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ پر زور دیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں تقابل ادیان کا دائرہ کیا ہے اور تقابل ادیان کو تحقیق، تنقید یا فتنہ کہا جائے؟ استاد جی نے جواب دیا کہ تقابل ادیان کا اطلاق اسلام سے متصادم مذاہب عیسائیت، یہودیت، بدھ مت کے حوالے سے ہوتا ہے۔ بریلویت، اہلحدیث و غیرہ پر تقابل ادیان کا اطلاق غلط ہے۔ یہ مسلکی اختلافات ہیں اور ایسا اختلافات جو پبلک میں لڑائی اور شدت کا باعث بنے، وہ فتنہ ہے۔
میں نے امام اہل سنت رحمہ اللہ کی کتاب ارشاد الشیعہ کے بارے میں پوچھا کہ اس میں شیعہ کی تکفیر ہے اور کتاب لکھی ہی لوگوں کے لیے جاتی ہے تو کیا یہ لڑائی کا باعث نہیں ہے؟ استاد محترم نے کہا کہ تکفیر کا موقف اپنی جگہ، یہ ایک علمی اختلاف ہے جس کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ اگر یہ کتابی شکل میں ہے تو یہ اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ہے نہ کہ معاشرے میں منافرت پھیلانے کے لیے۔ اختلاف لڑائی کا باعث تب بنتا ہے جب جلسے، جلوس اور منبر پر منفی لہجے میں بیان کیا جائے۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ ’’و ما ھم بمومنین، و اللہ یشھد انھم لکذبون‘‘، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں۔ چودہ بندے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔ اللہ نے بچالیا، لیکن حضور ان کے نام بتانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ ہے معاشرت۔ معاشرتی احکام بالکل الگ ہیں۔ حضرت امام اہل سنت نے کبھی جلسے، جمعے میں اس طرح کا اختلافی بیان نہیں کیا۔ ہاں تحقیقی، تدریسی میدان میں جہاں محسوس کرتے، وہاں وضاحت کردیتے تھے اور خوب کرتے تھے۔
استاد محترم نے فرمایا: ایک دن میرے ساتھ کچھ احباب بیٹھے تھے۔ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ مولانا سرفراز صاحب بہت معتدل آدمی ہیں، کبھی اختلافی بیان نہیں کرتے۔ جب وہ آدمی چلا گیا تو ساتھی حیرانی سے پوچھنے لگے کہ ان سے بڑھ کر کون اختلاف کرتا ہے۔ ہر طبقہ کے خلاف مدلل، مسکت مؤقف رکھتے ہیں۔ تو میں نے ساتھیوں سے کہا کہ آپ بھی سچے ہیں اور وہ بھی سچا ہے۔ آپ نے تدریسی، تصنیفی، تحقیقی دنیا دیکھی ہے اور اس نے عمومی مجلس دیکھی ہے اور حضرت رحمہ اللہ عمومی جگہ میں اختلافی بیانات کے قائل نہیں تھے۔
بہرحال سرگودھا مرکز پہنچے۔ وہاں مقامی ترتیب کے مطابق گشتوں کی تشکیل ہوئی۔ پہلے دن یہ گشت بیسیوں مساجد میں بلاتفریق مسلک ہوا اور ائمہ و خطباء کو مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کے خصوصی خطاب میں شرکت کے لیے دعوت دی گئی۔ اگلے روزہ بدھ کے دن ضلع کی تحصیلوں کا گشت طے تھا اور بڑے بڑے مدارس میں گشت کی تربیت مولانا کے ساتھ طے پائی۔ دارالعلوم زکریا، مرکز اہل سنت سرگودھا، جامعہ دارالہدی چوکیرہ، ضیاء العلوم اشاعت التوحید و السنۃ کا سفر ہوا۔ تمام مدارس کے طلباء میں مولانا زاہدالراشدی صاحب کا خطاب اور تشکیلیں ہوئیں۔
راستے میں استاد محترم نے فرمایا: کہ یہ تبلیغ کی برکت ہے کہ ہم مولانا الیاس گھمن سے بھی مل رہے ہیں اور مولانا عطاء اللہ بندیالوی کو بھی وقت دیا ہے۔ اسی پر فرمانے لگے کہ ایک مرتبی اسی سلسلہ میں گجرات کے مولانا سیدضیاء اللہ شاہ صاحب کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا اس کام کا بھی کوئی فائدہ ہے؟ میں نے کہا کہ یہ تھوڑا فائدہ ہے کہ آپ اور میں اکٹھے بیٹھ کرچائے پی رہے ہیں۔ اس پر شاہ صاحبؒ ہنس پڑے۔
مولانا گلزار احمد قاسمی، مولانا گلزار احمد آزاد اور قاری محمد قاسم قاسمی کے ہمراہ چند علماء پر مشتمل قافلے کی تشکیل جھاوریاں اور ڈھڈیاں شریف کی طرف ہوئی۔ ڈھڈیاں شریف میں حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری کی قبر پر حاضری ہوئی اور موجودہ گدی نشین حضرت مولانا مظفر رائے پوری مدظلہ سے ملاقات ہوئی۔
ظہر کے بعد سرگودھا تبلیغی مرکز میں استاد محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کا فکر انگیز بیان ہوا جس میں علماء کے جم غفیر نے شرکت کی۔ عصر کے بعد ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد مولانا نے نماز مغرب نئے تبلیغی مرکز میں ادا کی اور جامعہ اسلامیہ محمودیہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں حضرت مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب کا خطاب تھا۔ مقصود تو ملاقات تھی، لیکن احباب نے کہا کہ نیت دعوت کی کرلیں تا کہ تقاضا بھی پورا ہوجائے اور ملاقات بھی ہوجائے۔ اسی پر استادِ محترم نے فرمایا کہ حضرت مولانا محمدزکریا رحمہ اللہ ایک مرتبہ نلکے کے نیچے نہا رہے تھے۔ ایک آدمی نلکا چلا رہا تھا۔ کافی دیر نہاتے رہے۔ ایک شخص آکر کہنے لگا کہ آپ ہمیں کہتے ہیں کہ پانی ضائع نہ کرو اور خود اتنی دیر سے نہا رہے ہیں؟ مولانا محمدزکریا رحمہ اللہ نے کہا: میرا ارادہ غسل کا، نہیں تبرید کا ہے۔ جس جسم ٹھنڈا ہوجائے گا، اٹھ جاؤں گا۔ اس میں پانی ضائع کرنے والی کون سی بات ہے؟
جامعہ اسلامیہ محمودیہ میں استاد محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب اور حضرت مفتی صاحب کا خطاب سن کر مرکز واپسی ہوئی۔
جمعرات کی صبح استادِ محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کا گشت مرکز آلِ محمد سلانوالی مولانا شاہ خالد گیلانی صاحب اور ساہیوال میں مولانا عبدالقدوس ترمذی صاحب کی طرف طے پایا۔ نماز فجر کے بعد ہم روانہ ہوئے۔ دورانِ سفر میں نے پوچھا کہ روایات میں آتا ہے کہ ہر صدی کا ایک مجدد ہوتا ہے، اس صدی کا مجدد کون ہے؟ استادِ محترم نے جواب دیا کہ اس پر مولانا سعیداحمد اکبر آبادی رحمہ اللہ نے ایک محاکمہ لکھا تھا جو بہت پسند کیا گیا۔ فرمایا کہ یہ اجتماعیت کا دور ہے، ہر کوئی اپنے شعبے کا مجدد ہے۔ اصلاح و سلوک میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ، دعوت و تبلیغ میں مولانا محمدالیاس رحمہ اللہ، علمی دنیا میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ، تحریکی جد و جہد میں مولانا مدنی رحمہ اللہ اور ان سب کا مجموعہ دارالعلوم دیوبند ہے۔
جامعہ حقانیہ ساہیوال میں پہنچنے کے بعد تخصص کے طلباء کو خطاب کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی صاحب نے فرمایا کہ مستفتی کے مقصد کو پہچاننا بھی ضروری ہے۔ عام طور پر کیا پوچھ رہا ہے پر غور تو کیا جاتا ہے، لیکن کیوں پوچھ رہا ہے پر غور نہیں ہوتا۔ اس لیے استفتاء کا جواب دیتے ہوئے کیا کے ساتھ ’کیوں‘ کو بھی شامل کیا جائے۔ اکابر کا یہی طریقہ ہے۔
مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ حرام مال میں زکوۃ ہے یا نہیں؟ مفتی صاحب سمجھ گئے کہ یہ فتویٰ کو بنیاد بنا کر مال کھا جائے گا۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہاں حرام مال میں زکوۃ ہے، لیکن چار شرائط کے ساتھ: حلال میں نصاب شرط ہے، حرام میں نہیں، حلال میں سال کا گزرنا شرط ہے، حرام میں نہیں۔ حلال کے لیے نصاب اڑھائی فیصد ہے اور حرام سارا دینا پڑے گا۔ حلال میں ثواب ہوگا، حرام میں ثواب کی نیت نہیں کرنی۔ اگر ’’کیا‘‘ کے ساتھ ’’کیوں‘‘ کو بھی شامل کیا جائے تو بہت سارے مسائل میں الجھن سے بچ کر صحیح رہنمائی ہوجاتی ہے۔
مولانا عبدالقدوس صاحب سے ملاقات کے بعد مرکز واپسی ہوئی۔ یہ ہمارا تیسرا دن تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد استادِ محترم مولانا زاہدالراشدی، مولانا آفتاب اور مولانا سعد صاحب کے ساتھ فیصل آباد روانہ ہوئے جہاں مغرب کے بعد مدینہ ٹاؤن میں درسِ قرآن کا پروگرام تھا جبکہ بقیہ جماعت نے گوجرانوالہ کا رخ کیا۔

بقلم: حافظ محمدشفقت اللہ
اشاعت: ماہنامہ الشریعہ ۔ دسمبر 2016ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں