شیخ الحدیث حضرت مولانا مطلع الانوار رحمہ اللہ کی رحلت

شیخ الحدیث حضرت مولانا مطلع الانوار رحمہ اللہ کی رحلت

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کے شاگرد رشید، دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل، مدرسہ ہدایت الاسلام تخت آباد پشاور کے شیخ الحدیث حضرت مولانامطلع الانوار رحمہ اللہ اس دنیائے رنگ و بو کی ستانوے بہاریں دیکھنے کے بعد ۲۱؍صفرالمظفر؍۲۰۱۶ء بروز پیر بعد نمازِ عشاء راہی عالم بقاء ہوگئے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون، ان للہ ما أخذ و لہ ما أعطی و کل شیء عندہ بأجل مسمّیٰ
قرآن کریم کا اعلان ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، موت سے کسی کو مفر نہیں، یہاں جو بھی آیاجانے کے لیے ہی آیا ہے۔ لیکن وہ لوگ جن کے دم قدم اور یادِ الہی سے اللہ تعالی کی زمین سکون پاتی تھی، راستے، ہوائیں، فضائیں اور بر و بحر اُن کی وجہ سے رحمت حق سے فیض یاب ہوتے تھے، ان کی رحلت کے بعد اللہ تعالی کی مخلوقات ان کی برکات سے محروم ہوجاتی ہیں، خصوصاً ایسے حضرات کا جانا بعد والوں کے لیے علم وحی سے محرومی کا باعث ہوتا ہے۔
حضرت مولانا مطلع الانوار رحمہ اللہ اکابر کی نشانی، عظیم علمی شخصیت، زہد و تقویٰ کے پیکر، اکابرکی نشانی، متواضع منکسر المزاج شخصیت تھی، آپ جس محفل میں ہوتے تو آپ ہی صدرنشین ہوتے۔ دوسال قبل آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت چناب نگر کی سالانہ کانفرنس میں تشریف لائے تو آپ رحمہ اللہ کی زیارت ہوئی اور جتنی دیر مجلس رہی، آپ اپنی تعلیمی زندگی کے حالات، اس راہ میں مشکلات اور خصوصاً دارالعلوم دیوبند میں اپنی تعلیم اور وہاں سے پاکستان کا سفر بڑے دل چسپ پیرائے میں سنارہے تھے۔
آپ کی پیدائش حضرت مولانا عبدالواحد المعروف بہ ’’صاحب حق کوٹ‘‘ بن قطب دوران حضرت غندل رحمہ اللہ کے ہاں ۱۹۱۹ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے شروع کی، وسطانی مکتب اپنے اعزہ اور اہل علاقہ کے نامور علماء سے حاصل کی، جن میں مولانا عبدالرحمن کامل پوری رحمہ اللہ کا نام نامی بھی آتا ہے۔
اعلی تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رُخ کیا، آپ رحمہ اللہ نے سنایا کہ: تقسیم ہند کے سال شعبان میں طلبہ نے چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے اپنے وطن کا رُخ کیا، لیکن حضرت مرحوم کے دل میں یہ بات راسخ ہوگئی تھی کہ میں اس سال وطن نہیں جاؤں گا۔ جمعہ کی صبح ایک بنگالی طالب علم نے انہیں پاکستان بننے کی خبر سنائی۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے، فرمایا کہ ہم نے اس زمانے میں ’’حزب اللہ‘‘ کے نام سے ایک حفاظتی تنظیم بنائی، جس کے سپہ سالار احمد یارخان تھے اور ان کے ساتھ چارعلم دارمقرر ہوئے، جن میں ایک میں بھی تھا، ہر علم دار کے ماتحت پچیس مجاہد تھے، ان کا کام تمام رات مدرسہ کی حفاظت کرنا تھا۔ فرمایا کہ عیدالاضحی کی رات بارہ بجے فوج دارالعلوم کا محاصرہ کرکے پچیس جانور قربانی کے زبردستی لے گئی۔ وہ عید ہم پر بہت کٹھن گزری، نماز عید بھی ہم نے عیدگاہ کی بجائے دارالعلوم میں پڑھی۔ اس سال حضرت شیخ الاسلام مدنی صاحب رحمہ اللہ تقسیم کی وجہ سے ایک گونہ سیاست سے فارغ تھے اور فسادات کی وجہ سے دیوبند ہی میں مقیم رہے، اس لیے ہمیں ان سے خوب استفادے کا موقع ملا۔ فراغت کے بعد بھی دیوبند میں رہے، اس دوران جو کتابیں طالب علمی میں پڑھنے سے رہ گئی تھیں، ان کی تکمیل کی۔ تقریباً دو سال تک ہندوستان میں موت و حیات کی کچھ بھی خبرگاؤں اور گھروالوں کو دیے بغیر رہے۔
اپریل ۴۹ء میں مولانا شبیراحمدعثمانی رحمہ اللہ کا کتب خانہ پاکستان منتقل کرنے کے لیے تین ٹرک آئے تو اس میں بڑی مشکلات کے ساتھ لاہور پہنچے۔ زمانۂ طالب علمی ہی میں دیوبند میں مطول اور جلالین شریف طلبہ کو پڑھانا شروع کیا۔ وطن واپس لوٹنے پر اپنے گاؤں کی مسجد میں درس و تدریس کا آغاز کیا اور یہاں مختصر المعانی تک کی کتابیں پڑھاتے رہے، پھر شدید بیماری کی وجہ سے معالج نے ٹھنڈی جگہ جانے کا مشورہ دیا تو پارہ چنار منتقل ہوگئے۔ بعد ازاں دارالعلوم اسلامیہ چارسدہ قائم ہوا تو اٹھارہ سال تک وہاں تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ ابتدائی کتب سے لے کر طحاوی شریف اور مسلم شریف تک کتابیں زر درس رہیں۔ اوکاڑہ پنجاب میں مدرسہ حنفیہ میں بھی ایک سال تک پڑھایا، پھر علاقہ دوآبہ میرزو میں دارالعلوم احناف میں تقرر ہوا، چھ سال تک وہاں دورہ بھی پڑھاتے رہے، پھر علاقہ داؤدزئی کے دارالعلوم ہدایۃ الاسلام تخت آباد کو اپنی تدریسی خدمات سے نوازا۔ ۱۹۹۲ء میں مردان میں پڑھانا شروع کیا اور عرصہ بارہ سال تک یہ سلسلہ رہا، پھر دوبارہ تخت آباد کے قدیم مدرسے والوں کے اصرار پر وہاں درس شروع کیا اور مرتے دم تک یہ سلسلہ قائم رہا۔ اپنے والد محترم سے ہی بیعت تھے۔ آپ کی نماز جنازہ چارسدہ کے سلیم شوگر مل میں بعد از ظہر ۲؍بجے آپ کے صاحبزادے مولانا اسجد صاحب فاضل حقانیہ کی اقتداء میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں علماء، صلحاء اور عوام الناس نے شرکت کی۔
اللہ تبارک و تعالی آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے، آپ کے تلامذہ، معتقدین، متوسلین اور اعزہ و اقرباء کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ ادارہ بینات باتوفیق قارئین سے حضرت کے لیے ایصال ثواب کی درخواست کرتا ہے۔

تحریر: مفتی محمداعجاز مصطفی
اشاعت: ماہنامہ بینات۔ربیع الاول ۱۴۳۸ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں