آیئے خود کو اللہ کی حفاظت میں دیں

آیئے خود کو اللہ کی حفاظت میں دیں

کل میری گیارہ ماہ کی بیٹی کے ساتھ ایک حادثہ رونما ہوا اور اللہ پاک نے اسے بال بال بچایا الحمدللہ! ہوا یوں کہ۔۔۔ بلکہ ذرا ٹھہریے! میں آپ کو دو سال پہلے کے واقعات سے بتانا شروع کرتی ہوں۔
ہمارے گھر کے قریب جمعرات کے روز ہفتہ وار تجوید کی کلاس ہوتی ہے۔ وہاں ہم تجوید کے ساتھ ساتھ مختلف مسنون دعائیں سیکھ رہے ہیں اور اجتماعی طور پر یاد کرنے کروانے کی برکت سے ماشاء اللہ سینکڑوں مسنون دعائیں جابی جان یاد کروا چکی ہیں۔
2013ء میں ہمارے حج پر جانے کی تاریخ آچکی تھی۔ ایک روز ہماری ساتھی مجھ سے کہنے لگیں: ’’حج پر جانے سے پہلے حادثات سے بچنے کی دعا ضرور یاد کرلو۔ ہر روز صبح و شام پڑھنا اور پھر دیکھنا اللہ پاک کس طرح حفاظت فرماتے ہیں۔‘‘ ان دنوں باجی جان غالباً دعائے حاجات یاد کروا رہی تھیں، دعائے حاجات بھی اپنی جگہ بہت اہم دعا ہے۔ چوں کہ ہر ہفتہ صرف ایک لائن یاد کرنے کا سلسلہ تھا، مجھے مناسب نہیں لگا کہ باجی سے بولوں کہ وہ دعائے حاجات چھوڑ کر دعائے حادثات یاد کروائیں۔ بہر حال گھر آکر میں نے حادثات سے بچنے کی دعا نکالی اور ہمارے ہاں قرآن مجید پڑھنے کے لیے آنے والے بچوں کو بھی یہ دعا یاد کروانے کا ارادہ کیا۔ مجھے یقین تھا کہ بچے چوں کہ ہفتہ میں پانچ روز پڑھنے آتے ہیں، ان کی برکت سے اللہ پاک مجھے بھی یہ دعا یاد کروا دیں گے۔
خیر پانچواں یا چھٹا دن تھا، ہمارے ساتھ ساتھ بچوں کی دعا بھی مکمل ہوئی۔ باقی بچے تو چلے گئے مگر ایک پڑوس سے پڑھنے آئی ہوئی بچی اپنی امی کا انتظار کررہی تھی۔ اس کے ساتھ میری بیٹی بھی بیٹھی تھی۔ میں انہیں وہیں ڈرائنگ روم میں چھوڑ کر باورچی خانے میں آئی اور سنک پر رکھے برتن دھونے لگی۔ کیبنٹ کھولی اور اس میں لگے جالی و تار کے ریک پر پہلا باؤل جو کہ وزنی اور کانچ کا تھا، رکھا۔ ریک شاید خستہ ہوچکا تھا، اس لیے باؤل رکھتے ہی الٹ گیا اور اس کے اندر رکھے کانچ کے درجنوں مگ، گلاس اور کچھ دوسرے برتن میرے دائیں بائیں کچھ میرے سامنے سے مجھے چھوئے بغیر ماربل کی شیلف سے ٹکرا کر فرش پر چکنا چور ہوگئے، میں حیران و پریشان تھی۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ کوئی میرے آگے پیچھے دائیں بائیں اوپر نیچے ہر طرف سے حفاظت کررہا ہے، ورنہ سر پھاڑنے کے لیے کانچ کا باؤل ہی کافی تھا۔
دونوں بچیاں بھاگی آئیں۔ ’’آپ کو چوٹ تو نہیں لگی؟‘‘ بچیوں نے پوچھا۔ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ میری بیٹی ماہ نور کہنے لگی: ’’ابھی ہم حادثات سے بچنے کی دعا پڑھ رہے تھے ناں! یہ اسی کی برکت ہے کہ آپ کو چوٹ نہیں آئی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘ میرے منہ سے نکلا کہ ’’ابھی تو صرف دعا پڑھی ہی تھی، تکرار کے ساتھ اہتمام سے مانگی نہیں تھی، اللہ پاک نے کیسے بچالیا!!‘‘ ٹوٹے ہوئے برتن جو ہماری پھوپھو یعنی ہماری ساس صاحبہ کی نشانی تھی، ان پر اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھا۔
دونوں بچیوں نے ٹوٹے برتن سمیٹے ۔ ہم تو ہکا بکا کھڑے تھے۔ بہرحال یہ دعا مانگنا ہمارا معمول بن گیا بلکہ گھر کے دیگر افراد اور آنے جانے والوں کو حادثات سے بچانے کے لیے ہم نے گھر سے باہر نکلنے والے راستے پر اس دعا کا پرنٹ نکلوا کر چسپاں کروادیا کہ ہر پڑھنے والے کو اللہ پاک محفوظ رکھے۔
پچھلے سال ہمارے نند کے بیٹے بیروں ملک سے پاکستان آئے۔ ہم نے ان کو دعوت کی۔ کھانے کے بعد میں قہوہ بنانے لگی۔ جو نہی ہینڈل دیگچی پر لگا کر اٹھایا اور کپ میں گرما گرم قہوہ انڈیلا، کئی سال پرانا ہینڈل ٹوٹ گیا اور قہوہ سے بھری گرما گرم دیگچی چھوٹ گئی۔ آپ اندازہ لگائیں کہ پھر کیا ہوا ہوگا؟ جی نہیں! بعض اوقات ہمارے اندازے بالکل غلط ہوتے ہیں۔ باورچی خانے میں ہر جگہ قہوہ پھیل گیا، اوون شیلف سب چیزیں قہوہ سے بھر گئیں ہمارے علاوہ!! نند صاحبہ کی بیٹی بھی حیران ہورہی تھیں۔ فوراً ’’اَللّٰھم اَجِرنَا مِنَ النّار‘‘ پڑھی اور دل سے دعا کی کہ ’’یا اللہ! ہماری جہنم کی آگ حفاظت فرما، ایک چھینٹ سے بھی بچانا۔‘‘ آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو جھر جھری سی آجاتی ہے۔
ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے میں نے پریشر ککر میں کابلی چنے چڑھائے۔ ویٹ لگایا، دعا پڑھی اور کمرے میں آکر بیٹی سے اس کا سبق سننے لگی۔ بڑے صاحب زادے حمزہ صاحب باورچی خانے سے سیب دھوکر لائے اور کہنے لگے: ’’اماں! ککر کو دیکھیں۔ عجیب عجیب سی آوازیں نکال رہا ہے۔‘‘ میں چوں کہ سبق سننے میں مشغول تھی، میں نے اس کی آواز سنی نہیں۔ تھوڑی دیر بعد محسوس ہوا کہ ککر میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ میں نے کمرے سے کچن میں نظر ڈالی۔ ککر کا پریشر ہوچکا تھا۔ یکا یک ککر کا ویٹ اور سیفٹی وال اپنی جگہ سے اڑے اور زمین پر آگرے۔ پھر ککر اوون سے اڑا، باورچی خانے کی چھت سے جو زیادہ اونچی نہیں ہے، ٹکرایا۔ خوف ناک دھماکا ہوا اور ککر فرش پر آکر اوندھے منہ زمین پر گرگیا۔ یااللہ خیر! ککر کا ڈھکن کھلا نہیں تھا۔ سارا پانی ویٹ رکھنے والے سوراخ سے نکل نکل کر فرش پر بہنے لگا جب اطمینان ہوا کہ سارا پریشر نکل گیا ہے تو جائے وقوعہ پر پہنچ کر جائزہ لیا۔ سارا باورچی خانہ، سار کیبنٹ، ہر چیز تیل اور مرچوں کی چھینٹوں سے بھر چکی تھیں۔ یااللہ! تیرا شکر ہے، بیٹا حمزہ جو ابھی دو منٹ پہلے یہاں سے باہر نکلے تھے، اللہ تعالی نے ان کی حفاظت فرمائی۔ حمزہ کہنے لگے: ’’اماں! میں آپ سے کہہ تو رہا تھا کہ ککر کو دیکھیں، کیسی آوازیں آرہی ہیں؟ آپ نے میری بات پر توجہ ہی نہیں دی۔‘‘ بیٹی ماہ نور کہنے لگیں:’’اماں! اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے بھائی کی بات اس وقت نہیں سنی ورنہ تو آپ فوراً باورچی خانے میں جاکر ککر سے چھیڑ چھاڑ شروع کردیتیں۔‘‘ اور فوراً یہ دعا پڑھی۔
’’فاللہ خیر حافظا و ھو ارحم الراحمین‘‘
بے شک وہی ذات حفاظت کرنے پر قادر ہے اور یہ اس کا رحم ہی ہے جو وہ ہمیں تکلیف دہ صورت حال سے محفوظ فرماتا ہے۔
ابھی چند دنوں پہلے کی بات ہے۔ کچھ مہمان گھر میں آئے ہوئے تھے۔ ان کو رخصت کرکے میں باورچی خانے میں آئی کہ چائے کے برتن ہاتھ کے ہاتھ دھولوں۔ اپنی گیارہ ماہ کی بیٹی کو جو بارہ سال بعد اللہ کی رحمت بن کر ہمارے ہاں اتری اور وہ ہمارے ساتھ ساتھ دونوں بڑے بہن بھائی کی بھی چہیتی ہے کہ ماہ نور کے حوالے کیا اور کچن میں آئی۔ غالباً دو یا تین منٹ کے بعد گھر کی سیڑھیوں سے شدت کے ساتھ دھڑ دھڑ کی آوازیں آئیں۔ ’’یا اللہ خیر!‘‘ یہ میرا تکیہ کلام ہے۔ میں سمجھی کی سیڑھیوں کے اوپر چھجے پر رکھی لوہے کی سیڑھی کوئی اتار رہا ہے۔ ساتھ ہی ننھی مریم کی چیخیں سنیں۔ ’’اللہ میری مریم!‘‘ میں کہتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف آئی۔ مریم کو ماہ نور نے مجھ سے لینے کے بعد واکر میں بٹھایا اور اسے خیال نہیں رہا کہ سیڑھیوں کا دروازہ کھلا ہے۔ مریم واکر لے کر سیڑھیوں میں گئی اور پوری بارہ عدد سیڑھیاں، ہر سیڑھی سے ٹکراتے ہوئے نیچے فرش پر واکر سمیت جاگری۔
مریم کی پھوپھو جنہیں چند منٹ پہلے میں نے رخصت کیا تھا، ابھی نیچے ہی تھیں۔ انہوں نے مریم کو واکر سے نکلا اور میرے پاس اوپر لائیں۔ مریم کو میں نے اپنے ساتھ چمٹالیا۔ میری ہمت نہیں ہورہی تھی کہ میں اسے اپنے سے علیحدہ کروں۔ اتنی سیڑھیاں وہ بھی پرانے وقتوں کی اونچی اونچی بنی ہوئی۔ اس سے گر کر مریم بالکل محفوظ ہوگی! خیال آرہا تھا کہ شاید اسے زبردست چوٹ لگ گئی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالی ایسا نہیں کرے گا کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی کہ جو شخص صبح کے وقت یہ کلمات:
’’اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ ، عَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ ، وَأَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ , مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ ، وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ , أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا , اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي ، وَمِنْ شَرِّ كُلِّ دَابَّةٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ، إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ‘‘
پڑھ لے شام تک اس کو کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی۔ میں نے صبح کے وقت یہ کلمات پڑھے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ میرا گھر نہیں جل سکتا۔ بس اللہ ہمیں بھی یقین کامل عطا فرمائے۔ آمین
ابومریم عصر کی نماز پڑھ کر آئے اور مریم کا واکر اٹھائے ہوئے مریم کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ مریم کو مجھ سے علیحدہ کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مرین کو بال بال بچایا تھا اور اسے خراش تک نہ آئی۔ میں نے کہا: ’’یہ حادثات کی دعا پڑھنے کی وجہ سے ہے۔‘‘ صدقہ نکالا اور اللہ کے حضور استغفار کی اور اللہ کا شکر ادا کیا، واکر بھی بالکل ٹھیک تھی۔
آج صبح دفتر اور اسکول جانے والوں کو گھر سے رخصت کیا۔ بڑی بیٹی ماہ نور کو کل جامعہ حفصہ للبنات جانا تھا، ااج اس کی چھٹی تھی۔ مریم کو واکر میں بٹھایا۔ حادثات سے بچنے کی دعا صبح فجر کے بعد دیگر دعاؤں کے ساتھ مانگی۔ منزل پڑھی، پھر اپنے اوپر دم کیا۔ ابوحمزہ مسجد سے آئے، ان پر اور تینوں بچوں پر دم کیا۔ کل کا واقعہ رہ رہ کر یاد آرہا تھا حادثات سے بچنے کی دعا آج بار بار لبوں پر آرہی تھی۔
یکایک کمرے سے باہر دھڑام سے گرنے کی آواز آئی۔ ’’یا اللہ خیر! اب کیا ہوا؟‘‘ میں باہر نکلی۔ مریم کی واکر بند ہوچکی تھی اور مریم جو واکر میں تھی، اس کی ٹانگیں واکر میں پھنس چکی تھی۔ مریم پھر زور زور سے رو رہی تھی۔ مجھ سے پہلے ماہ نور اٹھی اور اسے نکالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ میں نے آہستہ سے واکر کھول کر مریم کو باہر نکالا۔ اس کی ٹانگیں سہلائیں تو وہ ہنسنے لگی۔ میز کے سہارے کھڑے کیا تو وہ میز پکڑ پکڑ کر چلنے لگی۔ منہ سے فوراً ’’یا ربی لک الحمد ‘‘ادا ہوا مریم کو اللہ پاک نے پھر ایک مرتبہ ناگہانی تکلیف سے بچایا تھا۔
بہنو! مسنون دعاؤں کا اہتمام کرنے سے ہم اللہ پاک کی حفاظت کے حصار میں چلے جاتے ہیں۔ اللہ پاک نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے اتنے فرشتے مامور کیے ہوتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہو، تو شیاطین اور اَن دیکھی دوسری مخلوق ہمیں اچک کرلے جائے۔
حادثات سے بچنے کی دعا جو دعائے ابودردا رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہے، اس کا بھی بہت اہتمام کریں، مناجات مقبول کا کچھ حصہ پڑھ لیا کریں۔ اس کے علاوہ مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ اللہ کی مستند مجموعہ وظائف میں ایک دعا موجود ہے جو میں ضرور پڑھتی ہوں، اس کا بھی ضرور اہتمام کریں۔
’’ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَوْدِعُكَ الْيَوْمَ دِینی و نَفْسِي وَ أَهْلِي وَ مَالِي وَ وُلْدِي وَ مَنْ كَانَ مِنِّي بِسَبِيلٍ الشَّاهِدَ مِنْهُمْ وَ الْغَائِبَ ‘‘
کچھ لوگ دعا تو یاد کرلیتے ہیں، مگر موقع پر پڑھنا بھول جاتے ہیں۔ اس کے لیے میں نے جو طریقہ اپنایا تھا وہ حاضر خدمت ہے۔ موقع کی مناسبت سے دعائیں لکھ کر یا پرنٹ نکلوا کر اپنے گھر کے ان حصوں پر لگوائیں جہاں ان کی ضرورت ہے۔ بیت الخلا کے اندر اور باہر جانے کی دعا بیت الخلا کے دروازے سے ذرا دور باہر دیوار پر لگوائی۔ ہمارے باجی جان نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شریر مخلوق بیت الخلا میں ہوتی ہے۔ شیاطین و جنات سے بچنے کے لیے بیت الخلا میں جانے اور باہر آنے کی دعا ضرور پڑھیں۔ شروع میں جب ہم دعا پڑھنا بھول جاتے اور یاد آتی تو الٹے قدموں واپس لوٹتے اور ہر مرتبہ بھولنے پر ہم نے اپنے آپ کو یہ چھوٹی سی سزا دی۔ اب تو الحمدللہ قدم رکھتے ہی ہر دعا یاد آجاتی ہے (بے شک سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں)
گھر سے باہر اور اندر آنے کے لیے گھر کے دروازوں پر اندر اور باہر آنے کی دعائیں لگائیں۔ اسی طرح کھانا جہاں عام طور پر کھایا جاتا ہے وہاں کھانا شروع کرنے اور ختم کرنے کی دعا لگادی۔
اس کے ساتھ ایسا بھی کیا کہ گھر کے باہر اگر بہت ضروری جانا پڑجاتا تو نکلتے وقت تھوڑا زور سے دعا پڑھتے تا کہ ہمارے ساتھ جانے والا بھی دعا پڑھ کر نکلے جیسا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھاتے وقت کرتے تھے۔
اور بہنو! جہاں اللہ کی نورانی مخلوق ہمارے ساتھ ہے، وہاں خبیث ابلیس بھی تاک میں رہتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے بھی ہر روز دس مرتبہ ’اعوذ باللہ‘ صبح شام پڑھیں۔ قرآن کریم کی تلاوت، اذان کا جواب دینے سے اذان کی آواز سن کر شیطان ریح خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے۔ گھر میں سورۃ البقرہ پڑھنے یا پھر تلاوت لگا کر سننے کا بھی اہتمام کریں۔ جس گھر میں سورۃ البقرہ کی تلاوت ہو وہاں سے شیطان بھاگ جاتے ہیں۔
جھوٹ بولنے سے بچیں۔ بعض لوگ عادتاً جھوٹ بولتے ہیں اور ایسا بولتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! حالاں کہ سامنے والا جانتا ہے کہ جھوٹ بولا جارہا ہے۔ جھوٹ بولنے والے کی منہ کی بدبو سے فرشتے کوسوں دور چلے جاتے ہیں اس لیے عادتاً، اتفاقاً اور مذاقاً ہر حال میں بچنے کی کوشش کریں۔
اس کے علاوہ سلام کو عام کریں۔ گھر کے ہر فرد کو سلام کہنا سکھائیں اور کہلوائیں۔ شروع سے سلام کی عادت ڈلوادی جائے تو پھر بختہ ہوجاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو ٹاٹا اور بائے بائے کی بجائے آتے جاتے السلام علیکم کہنا سکھائیں کہ یہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ خداحافظ و غیرہ کہنا مسنون نہیں ہے۔
سلام کرنے کی اتنی عادت ڈالیں کہ گھر کی ملازمہ کو بھی چھوٹا نہ سمجھیں۔ وہ بھی اگر مسلمان ہے تو اسے بھی سلام میں پہل کریں۔ خالی گھر میں بھی سلام کرکے جائیں اور آکر قدرے بلند آواز میں السلام علینا و علی عباداللہ الصالحین‘‘ کہہ کر گھر میں دعا پڑھ کر داخل ہوں اور سلام کے بعد سورۂ اخلاص اور پھر درود شریف پڑھ لیں تو یہ نور علیٰ نور ہے۔ برکت رزق کے لیے یہ عمل بہت مفید ہے۔ اللہ پاک ہم سب کی زمینی و سماوی مصیبتوں سے حفاظت فرمائیں۔ آمین!

بقلم: ام محمد حمزہ عدنان
اشاعت: خواتین کا اسلام میگزین۔ نمبر715


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں