محرم الحرام اور عاشورہ کا روزہ

محرم الحرام اور عاشورہ کا روزہ

محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے، جنہیں الله تبارک وتعالی نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔

حرمت والے مہینے یہ ہیں
ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام او رجب۔ ان مہینوں کو حرمت والا اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام سے جو فتنہ وفساد، قتل وغارت اور امن وسکون کی خرابی کا باعث ہو، بالخصوص منع فرمایا گیا ہے۔ ان چار مہینوں کی حرمت وعظمت پہلی شریعتوں میں بھی مسلّم رہی ہے، حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا۔

محرم الحرام سے ہجری سال کی ابتدا کیوں؟
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، یعنی محرم سے ہجری سال کا آغاز اور ذوالحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی سال کی ابتداء ماہِ محرم الحرام سے ہی کیوں کی گئی؟ جب کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ منورہ کی طرف ماہِ ربیع الاول میں ہوئی تھی۔ جواب سے پہلے چند ایسے امور کا ملاحظہ فرمائیں، جن کے متعلق تقریباً تمام مؤرخین متفق ہیں۔

ہجری سال کا استعمال نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں نہیں تھا، بلکہ حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں صحابہٴ کرام کے مشورے کے بعد17 ہجری میں شرو ع ہوا۔

ہجری سال کے کیلنڈر کا افتتاح اگرچہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں ہوا تھا، مگر تمام بارہ اسلامی مہینوں کے نام او ران کی ترتیب نہ صرف نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے، بلکہ عرصہٴ دراز سے چلی آرہی تھی۔ اوران بارہ مہینوں میں سے حرمت والے چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام، رجب) کی تحدید بھی زمانہٴ قدیم سے چلی آرہی تھی۔ الله تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے، مہینوں کی گنتی الله کے نزدیک کتاب الله میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ (سورہٴ التوبہ:36)

اسلامی کیلنڈر (ہجری) کے افتتاح سے قبل، عربوں میں مختلف واقعات سے سال کو موسوم کیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے عربوں میں مختلف کیلنڈر رائج تھے اور ہر کیلنڈر کی ابتدا محرم الحرام سے ہی ہوتی تھی۔

اب جواب عرض ہے:
حضرت عمر فاروق کے زمانہٴ خلافت میں جب ایک نئے اسلامی کیلنڈر کو شروع کرنے کی بات آئی، تو صحابہ کرام نے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت یا نبوت یا ہجرت مدینہ سے شروع کرنے کے مختلف مشورے دیے۔ آخر میں صحابہٴ کرام کے مشورہ سے ہجرتِ مدینہ منورہ کے سال کو بنیاد بنا کر ایک نئے اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیا گیا۔ یعنی ہجرت مدینہ منورہ سے پہلے تمام سالوں کو زیرو(Zero) کر دیا گیا او رہجرت مدینہ منورہ کے سال کو پہلا سال تسلیم کر لیا گیا۔ رہی مہینوں کی ترتیب، تووہ عربوں میں رائج مختلف کیلنڈر کے مطابق رکھی گئی، یعنی محرم الحرام سے سال کی ابتدا۔ غرض یہ ہے کہ عربوں میں محرم الحرام کا مہینہ قدیم زمانے سے سال کا پہلا ہی مہینہ رہتا تھا، لہٰذا اسلامی سال کو شروع کرتے وقت اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اس طرح ہجرت مدینہ منورہ سے نیا اسلامی کیلنڈر تو شروع ہو گیا، مگر مہینوں کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

عاشورہ
محرم کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ یہ دن الله تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔ اس دن کے مقدس ہونے کے مختلف اسباب بیان کیے جاتے ہیں، جن میں سے کچھ صحیح ہیں، جب کہ بعض اسباب کی کوئی دلیل اور بنیاد نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اس دن کو الله تعالیٰ نے اپنی رحمت وبرکت کے نزول کے لیے منتخب کیا ہے۔ اسی دن بنی اسرائیل کو الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ فرعون سے نجات دی تھی اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ غرق ہوا تھا۔

اسی مبارک دن میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے وفات کی تقریباً50 سال بعد61 ہجری میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے چہیتے نواسے حضرت حسین اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ کربلا کے میدان میں شہید ہوئے تھے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات میں حضرت حسن او رحضرت حسین  کے بے شمار فضائل ملتے ہیں مثلاً: حضرت حسن اور حضرت حسین جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں (ترمذی)۔ جو حضرت حسین سے محبت کرتا ہے الله اس سے محبت کرتا ہے۔ (ترمذی)

عاشورہ کا روزہ
جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے، اُس وقت تک عاشورہ کا روزہ رکھنا فرض تھا، بعدمیں جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت تو منسوخ ہو گئی، مگر حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کو سنت او رمستحب قرار دیا ہے۔
٭…رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے الله تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہو جائے گا۔ (صحیح مسلم)
٭…رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ماہِ رمضان کے بعد افضل ترین روزے الله کے مہینے ماہِ محرم الحرام کے روزے ہیں۔ ( مسلم)

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا، آپ صلی الله علیہ وسلم روزہ رکھتے، لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ 10 محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے تھے اور یہود بھی روزہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے ساتھ ہلکی سے مشابہت پیدا ہو جاتی ہے اس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ 9یا11 محرم الحرام کو رکھوں گا، تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم جائے۔ لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے ہی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں ، صحابہ ٴ کرام نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ 9 اور11 محرم الحرام کا ایک روزہ ملا کر رکھنے کا اہتمام فرمایا اور اسی کو مستحب قرار دیااورصرف عاشورہ کا روزہ رکھنا خلافِ اولیٰ قرار دیا۔ یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اس کو عاشورہ کا ثواب ملے گا، لیکن چوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خواہش2 روزے رکھنے کی تھی، اس لیے اس خواہش کے تکمیل میں بہتر یہی ہے کہ ایک روزہ او رملا کر دو روزے رکھے جائیں۔

اس طرح عاشورہ کے روزے رکھنے کی چار شکلیں بنتی ہیں:
1… 9،10 اور11 تینوں دن روزے رکھ لیں۔
2… 9 اور10 دون دن روزہ رکھ لیں۔
3… 10 اور11 کا روزہ رکھ لیں۔
4… اگر کسی وجہ سے 2 روزے نہیں رکھ سکتے تو صرف ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھ لیں۔

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، یعنی محرم سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ نیز محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔ اس ماہ کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ تعالیٰ کے مہینہ محرم کا روزہ ہے ۔ (ترمذی ج1ص 157) حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ماہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے ماہ محرم الحرام کے روزے ہیں ۔ (صحیح مسلم)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک صاحب نے آکر پوچھا یا رسول اللہ! رمضان کے مہینہ کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟ تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر رمضان کے مہینہ کے بعد تم کو روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو، اس لیے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے ۔اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی ج1 ص157) جس قوم کی توبہ قبول ہوئی وہ قوم بنی اسرائیل ہے، جیساکہ اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ عاشورہ کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی تھی۔

عاشورہ کے روزہ سے متعلق احادیث
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور عاشورہ کے دن بیت اللہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔جب رمضان فرض ہوا تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری / 217)

دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی روزہ رکھا اور اس روزہ کا بھی حکم دیا ۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشورہ (کے روزے کا حکم) چھوڑ دیا گیا، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے ۔ (صحیح بخاریث/ 254وا/268)

حضرت رُبیع بنت مُعوِذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس نے صبح کو کھاپی لیا ہو وہ بقیہ دن پورا کرے (یعنی رکا رہے )اور جس نے ابھی تک کھایا پیا نہیں ہے وہ روزہ رکھے ۔ فرماتی ہیں کہ وہ بھی یہ روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتی تھیں اور ان کے لیے اون کا کھلونا بناتی تھیں۔ جب کو ئی بچہ کھانے کے لیے روتا تویہ کھلونا اس کو دے دیتیں، یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوتا۔ (صحیح بخاری ج1 ص 263، صحیح مسلم ج1 ص 360)

حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن ایک آدمی کو بھیجا، جو لوگوں میں یہ اعلان کررہا تھا کہ جس نے کھالیاوہ پورا کرے یا فرمایا بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہیں کھایا وہ نہ کھائے ( یعنی روزہ رکھے )۔ (بخاری ج1 ص 257)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے کہا یہ اچھا دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کام یابی عطافرمائی، ہم اس دن کی تعظیم کے لیے روزہ رکھتے ہیں۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج1 ص 268)

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ یہودی عاشورہ کی تعظیم کررہے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں، اس کو عید بنارہے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہم اس روزہ کے زیادہ حق دار ہیں۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص 268، 562)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو کسی دن کے روزہ کا اہتمام اور قصد کرتے ہوئے نہیں دیکھا، سوائے عاشورہ کا روزہ اور رمضان کے مہینے کا۔ (بخاری ج1 ص 268) یعنی ان روزوں کا آپ صلی الله علیہ وسلم بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حج کے لیے تشریف لائے تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے منبر پر عاشورہ کے دن (کھڑے ہوکر) فرمایا: اے اہل مدینہ! کہاں ہیں تمہارے علما؟ میں نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ یہ عاشورہ کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا ہے، میں روزے سے ہوں، جو چاہے روزہ رکھے، جوچاہے روزہ نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ج1 ص262)

عاشورہ کے روزہ کا ثواب
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کے بدلے سال گزشتہ کے گناہ معاف فرمادیں گے۔ (ترمذی ج1 ص151) ان احادیث میں گناہ سے صغائر گناہ مراد ہے، کبائر گناہ کے لیے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

عاشورہ کا روزہ رکھنے کا طریقہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہودونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر آئندہ سال زندہ رہا تو ان شاء اللہ نویں کو (بھی) روزہ رکھوں گا، لیکن آئندہ سال آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوگیا۔ (مسلم ج1 ص 359)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے روزہ رکھو یا ایک دن بعد۔ (مسند احمد ج1 ص 241) یہ حدیث بعض نسخوں میں او کی جگہ پر و اوکے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ اگر واو (یعنی اور) کے ساتھ روایت ثابت مان لی جائے تو پھر تین روزہ رکھنا ثابت ہوگا۔ اس طرح عاشورہ کے روزے رکھنے کی 4 شکلیں بنتی ہیں : 9 ،10 اور 11 تینوں دن روزے رکھ لیں۔ 9 اور 10دو دن روزے رکھ لیں۔ 10اور 11 دو دن روزہ رکھ لیں۔ اگر کسی وجہ سے 2 روزے نہیں رکھ سکتے تو صرف ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھ لیں۔

خلاصہٴ کلام
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا، آپ صلی الله علیہ وسلم روزہ رکھتے ، لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ10 محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے ساتھ ہلکی سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے، اِس لیے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ 9 یا 11 محرم الحرام کو رکھوں گا، تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔ لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے ہی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوگیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں‘ صحابہٴ کرام نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ 9 یا11 محرم الحرام کا ایک روزہ ملاکر رکھنے کا اہتمام فرمایا اور اسی کو مستحب قرار دیا اور صرف عاشورہ کاروزہ رکھنا خلافِ اولیٰ قرار دیا ۔ یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اس کو عاشورہ کا ثواب ملے گا، لیکن چوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خواہش 2 روزے رکھنے کی تھی، اس لیے اس خواہش کے تکمیل میں بہتر یہی ہے کہ ایک روزہ اور ملاکر دو روزے رکھے جائیں۔

وضاحت
بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً 50 سال بعد 61 ہجری میں نواسہ ٴرسول صلی الله علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس دن کی اہمیت ہوئی ہے حالاں کہ اس دن کی فضیلت واہمیت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وعمل کی روشنی میں پہلے ہی سے ثابت ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وعمل کی روشنی میں ذکر کیا گیا، ہاں! حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت کے لیے اللہ تبارک نے اس بابرکت دن کا انتخاب کیا جس سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کی مزید اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

مولانا محمدنجیب قاسمی (ریاض)

ماہنامه الفاروق (جامعہ دارالعلوم فاروقیہ کراچی)
محرم الحرام 1437


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں