قندیل بلوچ کے قتل میں میڈیا کا کردار

قندیل بلوچ کے قتل میں میڈیا کا کردار

قندیل بلوچ کو قتل کر دیا گیا۔ قتل کا اعتراف بھائی نے کیا جس کا کہنا ہے کہ اُس نے یہ قتل غیرت کے نام پر کیا۔
بھائی کی ’’غیرت‘‘ جگانے میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم تھا لیکن ہمارا میڈیا بھی کیا خوب ہے، سب کچھ کر کے بڑی عیاری سے اپنے ہر کیئے کو بھلا کر سارے کا سارا الزام دوسروں پر ڈال دیتا ہے۔ قندیل بلوچ کی جو بھی طرزِ زندگی تھی وہ کوئی نئی بات نہیں اور اس بارے میں اُس کے خاندان کے افراد کو بخوبی علم تھا۔ خبروں کے مطابق قندیل بلوچ کو ملتان میں اُس کے ماں باپ کے گھر میں اُس کے چھوٹے بھائی نے قتل کیا جہاں وہ کبھی کبھار اُن سے ملنے آتی رہتی تھی۔
قندیل کی زندگی کے قابل اعتراض معاملات خاندان کے افراد کے علم میں تھے اور اس کے باوجود وہ نہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ پہلے سے بھی رابطہ میں تھی بلکہ انہیں کبھی کبھار ملنے بھی آتی تھی۔ اب کی بار جب وہ اپنے ماں باپ کے گھر انہیں ملنے آئی تو اُسے کیوں قتل کیا گیا یہ وہ سوال ہے جس کے جواب میں میڈیا کا وہ کردار سامنے آتا ہے جو قندیل بلوچ کے قتل کا سبب بنا۔
قندیل کے باپ نے اس قتل کے بعد ٹی وی چینلز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قندیل بلوچ اُس کی بیٹی نہیں بلکہ بیٹا تھی لیکن اُسے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ چھوٹے بھائی نے اپنے بیان میں یہ تسلیم کیا یہ غیرت کے نام پر کیا گیا قتل ہے۔
خبروں کے مطابق قاتل بھائی ڈی جی خان میں موبائل فون کا کاروبار کرتا ہے جہاں اُسے اُس کی بہن قندیل بلوچ کے بارے میں طعنے دیئے جاتے تھے جس کے نتیجے میں اُس نے یہ جرم کیا۔ حقیقت یہ تھی کہ حالیہ مفتی قوی اسکینڈل سے قبل قندیل بلوچ کی اصل پہچان سے حتیٰ کہ اُس کے علاقہ کے بہت سے لوگ بھی آگاہ نہ تھے۔ اُس کا اصل نام کیا تھا، وہ کس کی بیٹی اور کس کی بہن تھی اس بارے میں بھی کم ہی لوگوں کو علم ہو گا۔ قندیل نے بھی اپنی اصل پہچان کو ہمیشہ خفیہ رکھا ۔
مقتولہ سوشل میڈیا کی توجہ کا تو پہلے سے حصہ رہی لیکن ٹی وی چینلز اور اخبارات نے اُس کو حالیہ مفتی قوی اسکینڈل کے بعد خوب فوکس کیا ۔ اُس کی متنازعہ سیلفیوں کے علاوہ اُس کی زندگی کے دوسرے ’’بولڈ‘‘ پہلوئوں کو اپنی ریٹنگ کے لیے خوب اجاگر کیا۔ قندیل کے ساتھ خصوصی پروگرام بھی ریکارڈ کیے جس میں اُسے ایسے ہی انداز میں دکھایا گیا جسے معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس کے بعد مقتولہ کی اصل پہچان کو دنیا کے سامنے اجاگر کر دیا۔ یہ بتا دیا کہ اُس کا اصل نام کیا ہے، وہ کہاں کی رہنے والی ہے، باپ کون ہے، شادی کس سے ہوئی، بیٹے کی عمر کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی پہلے اپنی ریٹنگ کے لیے مقتولہ کی زندگی کے منفی پہلوئوں کو خوب اجاگر کیا اور پھر جب ہر ایک کو قندیل بلوچ کا کردار ذہن نشین ہو گیا تو پھر اُس کی ذاتی زندگی اور اُس کے نام، سابقہ شوہر وغیرہ سب کچھ دنیا کے سامنے کھول کررکھ دیا۔
اس سے کیا اس بات کی توقع نہ تھی کہ معاشرہ قندیل بلوچ کے خاندان کے لوگوں کو ہر طرف سے طعنہ سازی کا نشانہ بنائے گا۔ حقیقت میں یہی ہوا جس کے نتیجہ میں یہ قتل ہوا جسے اب صرف ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ’’غیرت ‘‘ کو جگانے والے میڈیا کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں۔ ایک انگریزی اخبار نے اتوار کے روز میڈیا کے اس کردار پر ’’Sharing the blame: Revealing Qandeel’s real identity put her life at risk‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا لیکن عمومی طور پر اپنے اس منفی کردار پر میڈیا خاموش ہے۔
میڈیا اور خصوصاً ٹی وی چینلز اپنی ریٹنگ کے لیے عورت اور تنازعات کی تلاش میں رہتے ہیں جس کے لیے انہیں قندیل بلوچ کی صورت میں ایک ایسا کیس ملا جسے انہوں نے خوب بیچا پیسہ کمایا لیکن نہ یہ احساس کیا کہ اس کا معاشرہ پر کیا اثر پڑتا ہے اور نہ ہی یہ سوچنے کی فرصت ہوئی کہ اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ صحافت کے نتائج کسی کی بھی زندگی کے لیے کتنے سنگین ہو سکتے ہیں ۔

تحریر: انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ (18 july 2016)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں