تراویح کا مسئلہ آئندہ سطور میں درج کیا جاتا ہے اور اس مسئلہ کے متعلقات ذکر کرنے سے قبل ہم یہاں تحریر مدعی کے درجہ میں چند سوالات ناظرین کی خدمت میں ذکر کرتے ہیں۔ اس طریقہ سے مسئلہ ہذا کے قابل وضاحت پہلو سامنے آسکیں گے۔
کیا:
(۱) بیس رکعات تراویح پڑھنا مسنون ہے یا بدعت؟؟
(۲) خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور میں بیس رکعات پڑھی گئی ہیں یا نہیں؟؟ اور اس مسئلہ میں تعامل صحابہ کس طرح تھا؟؟
(۳) قرونِ ثلاثہ میں کسی معتمد عالم دین، نامور امحدث یا فقیہ نے بیس رکعات کو بدعت قرار دیا ہے؟ یا اس دوامی عمل پر نکیر فرمائی ہے؟؟ یا اسے بخوشی قبول کرلیا ہے؟؟
اب اس مسئلہ کے متعلقہ معروضات پیش کیے جاتے ہیں، بغور ملاحظہ فرماویں۔ تمام بحث پر نظر غائر کرلینے سے اطمینان قلب ہوجائے گا اور مندرجہ بالا سوالات کے جوابات بھی پائے جائیں گے۔
عہد نبوت
اہل علم پر واضح ہے کہ عہد رسالت کے دوران مسئلہ تراویح میں متعدد صورتیں پائی جاتی ہیں۔ دورِ نبوت (علی صحبھا الصلوۃ والسلام) میں جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲ھ میں رمضان شریف کے روزوں کی فرضیت کے بعد شب ہائے رمضان المبارک میں صلوۃ رمضان کی ترغیب دلائی اور ارشاد فرمایا:
’’عن ابی ھریرہ من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔‘‘
(۱) مشکوۃ شریف ص۱۱۴ باب قیام شہر رمضان، الفضل الاول، طبع دہلی، بحوالہ مسلم شریف۔
(۲ ) السنن الکبریٰ ص۴۹۲، جلد ثانی مباحث صلوۃ التراویح، الامام البیہقی۔
(۳) ریاض الصالحین ص۴۵۰، ۴۵۱ باب استحباب قیام رمضان و ھو التراویح۔
یعنی جو شخص رمضان کی راتوں میں ایمان اور ارادہ ثواب کے ساتھ قیام کرے گا تو اس کے لیے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔
پہلی صورت
قیام رمضان کے سلسلہ میں یہ ابتدائی مراحل تھے اور بطور ترغیب کے اس پر عمل ہوتا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب کی بنا پر شب ہائے رمضان میں اپنے طور پر مختلف جماعتوں کی شکل میں مسجد نبوی کے اندر اطراف و جوانب میں تراویح ادا کرتے تھے۔
چنانچہ متعدد محدثین نے اس چیز کو اپنی تصانیف میں با سند ذکر کیا ہے۔ مثلا: “عن العلاء بن عبدالرحمن عن ابیہ عن ابی ھریرہ انہ قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة في رمضان فرأى ناسا في ناحية المسجد يصلون فقال ما يصنع هؤلاء قال قائل يا رسول الله هؤلاء ناس ليس لهم من معه قرآن وأبي بن كعب يقرؤهم معه يصلون بصلاته قال قد أصابوا أو نعم ما صنعوا۔”
(صحیح ابن خزیمہ ص۳۳۹، جلد ثالث، باب امامتہ القاری الامیین فی قیام شہر رمضان (المتوفی ۳۱۱ھ)، الصحیح لابن حبان ص۱۰۷، جلد خامس، تحت فصل فی التراویح، روایت نمبر ۲۵۳۲، ابوداؤد شریف ص۲۰۲، جلد اول، باب فی قیام شہر رمضان، طبع دہلی)
روایت مندرجہ بالا کا مفہوم یہ ہے کہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف میں ایک رات اپنے خانہ مبارک سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ مسجد نبوی کے مختلف اطراف و جوانب میں لوگ رمضان المبارک میں متفرق جماعتوں کی شکل میں نمازیں ادا کررہے ہیں تو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟ تو جواب میں عرض کیا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو پورا قرآن مجید یاد نہیں اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ قرأت کررہے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں تو اس موقعہ پر جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ ان لوگوں نے بالکل ٹھیک کیا یا یوں فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا، عمدہ کیا اور بعض روایات کے الفاظ اس طرح منقول ہیں کہ: ’’قال قد احسنوا و قد اصابوا و لم یکرہ ذالک لھم‘‘ یعنی ارشاد فرمایا کہ انہوں نے اچھا کیا یا فرمان دیا کہ انہوں نے درست کیا اور ان لوگوں کے اس عمل کو ان کے حق میں ناپسند نہیں جانا اور ان کو اس فعل سے منع نہیں فرمایا بلکہ ان کے عمل کی تصویب فرمائی۔
نتیجہ کے اعتبار سے یہاں ذکر کرنا مناسب ہے کہ:
اول تو یہ ’’سنت قبولی‘‘ ہے جو ظاہر الفاظ حدیث سے ثابت ہو رہی ہے اور پھر اگر اس سے صرف نظر کرلی جائے اور کم درجہ دیا جائے تو کم از کم ’’سنت تقریری‘‘ ہونے میں کوئی شبہہ نہیں رہتا۔
حاصل یہ ہے کہ تراویح کے لیے یہ ایک مرحلہ تھا کہ دور نبوی میں جماعت کے ساتھ تراویح مسجد نبوی میں ادا کی جاتی تھی اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ فعل جاری تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس عمل کو تصویب و تائید نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حاصل تھی۔
قابل توجہ
اور یہ چیز اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ اس مضمون کی دیگر روایات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی ہیں۔ ان میں سے بطور مضمون کی تائید کے ایک روایت ہم عنقریب ذکر کررہے ہیں اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت صحیح ابن خزیمہ جلد ثالث اور الصحیح لابن حبان جلد خامس اور ابوداؤد شریف جلد اول و غیرہ میں مروی ہے۔ پھر ابوداؤد رضی عنہ نے خود ہی اس کی سند پر درج ذیل الفاظ میں نقد کیا ہے کہ:
’’لیس ھذا الحدیث بالقوی و مسلم بن خالد ضعیف‘‘ یعنی مسلم بن خالد راوی ضعیف ہیں اور یہ حدیث قوی نہیں ہے۔
اس مقام میں علماء نے نقد ہذا کے متعلق جوابات ذکر کیے ہیں۔ ان کے بیانات کی روشنی میں یہاں مختصرا معروضات پیش کی جاتی ہیں۔
راوی مذکور مسلم بن خالد الزنجی الملکی پر اگرچہ بعض علماء نے ناقدانہ کلام کیا ہے اور اس کی تضعیف کی ہے لیکن اس کے باوجود دیگر کبار علماء نے اس کی توثیق بھی ذکر کی ہے چنانچہ اس راوی کی توثیق کے متعلق علماء کرام کے چند کلمات پیش کیے جاتے ہیں، مثلا:
یحیی بن معین نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ:
’’ثقة و ھو صالح الحدیث‘‘۔ یعنی مسلم بن خالد قابل اعتماد ہے صالح حدیث والا ہے۔ (اس کی روایت قابل قبول ہے)۔
(تاریخ یحیی بن معین ص۵۶۱۔۵۶۲، جلد ثانی تحت مسلم بن خالد الزنجی)
اور ابن حبان نے ’’کتاب الثقات‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ:
’’و کان مسلم بن خالد یخطئ احیانا‘‘ یعنی مسلم بن خالد بعض دفعہ خطاء کرتا تھا۔
لیکن ساتھ ہی اس کی توثیق بھی ذکر کی ہے کہ:
’’کان من فقھاء الحجاز۔۔۔ و روی عنه عبداللہ بن المبارک و الشافعی و الحمیدی و غیرھم و منه تعلم الشافعی الفقه۔۔۔ الخ‘‘
(کتاب الثقات لمحمد بن حبان، ص۴۴۸، جلد سابع، تحت مسلم بن خالد)
اور ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں درج کیا ہے کہ:
’’قال ابن عدی حسن الحدیث، و کان فقیه مکة و کان من فقهاء اهل الحجاز، قال الساجی صدوق، قال الدار قطنی ثقة۔۔۔ الخ‘‘
(تہذیب التہذیب لابن حجر ص۱۲۹۔۱۳۰ جلد عاشر تحت مسلم بن خالد، طبع دکن)
مندرجہ حوالہ جات کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلم بن خالد اہل حجاز کے فقہاء میں شمار ہوتے تھے، مکہ والوں کے لیے فقیہ تھے اور ان سے ابن المبارک امام شافعی رحمہ اللہ ۔ الحمیدی رحمہ اللہ و غیرہ کبار علماء نے روایت حاصل کی ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ نے فقہ کا علم ان سے بھی لیا ہے۔ ابن عدی نے کہا ہے بہتر حدیث لاتے ہیں اور الساجی نے کہا ہے کہ یہ شخص صادق اور سچے ہیں اور دارقطنی نے فرمایا ہے کہ یہ معتمد آدمی ہیں۔
مختصر یہ ہے کہ مسلم بن خالد الزنجی المکی پر تنقید و نقد پائی جاتی ہے تا ہم اس کے ساتھ اس کی توثیق بھی علماء نے ذکر کی ہے جو ہم نے کلام بالا میں پیش کردی ہے۔ اس کے پیش نظر اس کی روایت بہمہ وجوہ اور بالکلیہ قابل رد نہیں ہے بلکہ اس کی توثیق کی وجہ سے قابل قبول ہے۔
تائید
اس کے بعد یہ ذکر کر دینا مناسب ہے جیسا کہ سابقاً ذکر ہوا ہے مذکورہ بالا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے ہم مفہوم و ہم معنی ایک دیگر روایت امام بیہقی نے السنن الکبری و غیرہ تصانیف میں درج کی ہے۔
بیہقی کی یہ روایت جنات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت کی موید ہے اور اس کے مفہوم کی پوری طرح توثیق و تائید کرتی ہے۔
فلہذا مندرجہ بالا روایت تائید پائی جانے کی وجہ سے قابل قبول ہوجائے گی اور اپنے مقام میں درست ثابت ہوگی اور قابل ترک نہ رہے گی، چنانچہ ذیل میں بیہقی کی موید روایت ذکر کی جاتی ہے:
’’عن ثعلبة بن أبي مالك القرظي قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة في رمضان فرأى ناسا في ناحية المسجد يصلون فقال ما يصنع هؤلاء قال قائل يا رسول الله هؤلاء ناس ليس لهم من معه قرآن وأبي بن كعب يقرؤهم معه يصلون بصلاته قال قد أحسنوا أو قد أصابوا ولم يكره ذلك لهم قال ابن وهب وأحدهما يزيد على صاحبه الكلمة ونحوها۔‘‘
)السنن الکبری مع الجواہر النقی ص۴۹۵، جلد ثانی باب من زعم انھا بالجماعة افضل لمن لا یکون حافظا)
یعنی ایک رات جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے۔ رمضان المبارک تھا۔ دیکھا کہ مسجد کے کونہ میں کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں تو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟ تو ایک شخص نے عرض کیا کہ جن لوگوں کو قرآن مجید یاد نہیں وہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں تو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے اچھا کیا اور درست کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو مکروہ نہیں جانا۔
اور فاضل النیموی نے آثار السنن میں اس روایت کے تحت لکھا ہے کہ “رواہ البیھقی فی المعرفة و اسنادہ جید“۔
فاضل بیہقی نے مذکورہ مندرجہ روایت کے متعلق سنن الکبری میں بحث کی ہے، وہاں درج کیا ہے کہ ’’قال الشیخ ھذا مرسل حسن‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ چونکہ ثعلبہ راوی صحابی نہیں بلکہ تابعی ہے، اس بنا پر حکم لگایا ہے کہ یہ روایت مرسل ہے لیکن درجہ حسن میں ہے اور ضعیف نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اور ثعلبہ کی روایت ہذا دونوں مقبول ہیں اور ان سے ثابت ہوا کہ سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جماعت کے ساتھ تراویح مسجد نبوی میں ادا کی جاتی تھی اور آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اس فعل کو تصویب حاصل تھی اور اس کو منع نہیں فرمایا۔
معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں تراویح کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا، دورِ نبوت میں ثابت ہے اور سنت کے مطابق ہے۔
دوسری صورت
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز تراویح کی ادائیگی کے متعلق ایک وہ صورت تھی جو سابقہ صفحات میں ذکر کی گئی ہے۔
دوسری صورت اس مسئلہ میں مندرجہ ذیل پائی جاتی ہے جس کو متعدد صحابہ کرام (مثلاً ابوذر غفاری اور نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما و غیرہم) نقل کرتے ہیں کہ:
’’عن أبی ذر رضی اللہ عنه قال صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رمضان ، فلم يقم بنا شيئاً من الشهر حتى بقي سبع فقام بنا حتى ذهب ثلث الليل ، فلما كانت السادسة لم يقم بنا ، فلما كانت الخامسة قام بنا حتى ذهب شطر الليل ، فقلت : يا رسول الله ! لو نفّلتنا قيام هذه الليلة ، فقال : ” إن الرجل إذا صلى مع الإمام حتى ينصرف حسب له قيام ليلة ” فلما كانت الرابعة لم يقم ، فلما كانت الثالثة جمع أهله ونساءه والناس ، فقام بنا حتى خشينا أن يفوتنا الفلاح ، قال : قلت : وما الفلاح ؟ قال : السحور۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے رمضان المبارک میں روزے رکھے۔ اس دوران آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ رات کی نماز (تراویح) میں نہیں کھڑے ہوئے حتی کہ اس مہینہ کے سات یوم رہ گئے (یعنی وہ مہینہ ۲۹ یوم کا شمار تھا) پھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ثلث شب تک نماز پڑھائی۔ پھر چوبیسویں شب کو آپ تشریف نہیں لائے اور پچیسویں شب کو پھر تشریف لائے اور نصف شب تک نماز پڑھائی۔۔۔ پھر آپ نے نماز نہ پڑھائی۔ حتی کہ تین یوم رہ گئے تو اس وقت آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے ستائیسویں شب ہمیں نماز پڑھائی اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی جمع فرمایا اور اس رات دیر تک نماز پڑھائی حتی کہ ہم نے سحری کے فوت ہوجانے کا خوف کیا۔
روایت نعمان بن بشیر
اسی طرح النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ صحابی نے بیان کیا کہ:
’’ قمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في شهر رمضان ليلة ثلاث وعشرين إلى نصف الليل ثم قمنا معه ليلة سبع وعشرين، حتى خفنا أن لا ندرك الفلاح ، وكنا نسميه السحور۔۔۔ الخ‘‘
یعنی رمضان المبارک میں تئسویں شب میں ہم جناب اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ثلث لیل تک کھڑے ہوئے پھر ہم جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف میں پچیسویں شب میں نصف شب تک کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد پھر ستائیسویں شب میں (نماز تراویح) کے لیے کھڑے ہوئے حتی کہ ہم نے کافی تاخیر کی وجہ سے اپنی جگہ گمان کیا کہ فلاح (یعنی سحری) کو ہم نہ پاسکیں گے۔
(صحیح ابن خزیمہ، ص۳۳۶، جلد ثالث، باب الصلوۃ جماعۃ فی قیام رمضان۔۔۔ الخ، طبع بیروت، السنن الکبری للنسائی جلد اول، ص۴۱۰۔۴۱۱، روایت نمبر ۱۲۹۹ تحت قیام شہر رمضان، طبع بیروت)
یہ روایت نعمان بن بشیر صحابی نے حمص شہر کے منبر پر بیٹھ کر بیان کی۔ یہ روایت مذکورہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی روایت کے ہم معنی و ہم مفہوم ہے اور بطور تائید کے پیش کی گئی ہے اور اہل علم کو معلوم ہے کہ اس مضمون کی روایت صحاحِ ستہ کی کتابوں میں دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے۔
پس ان روایات میں جناب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھانا ثابت ہے۔ اگرچہ ان روایات میں تعداد رکعات مذکور نہیں لیکن نماز تراویح کا شب ہائے رمضان میں جماعت سے پڑھانا اور ان میں کافی وقت لگانا اور رات کا ایک حصہ صرف کرنا سنت صحیح سے ثابت ہوتا ہے۔
رمضان شریف کی راتوں میں تراویح کے لیے سب خیزی کا عمل جاری رہا۔ پھر بعض دفعہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم قصداً جماعت کرانے کے لیے نہیں تشریف لائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے تقاضا بھی ہوا، اس کے باوجود نہیں پہنچے۔ پھر اس روز صبح کو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیزی کی حکمت بیان فرمائی کہ:
’’ اما بعد فانه لم یخف عليّ شأنکم و لکنّی خشیت أن تفرض علیکم صلاۃ اللیل فتعجزوا عنھا۔۔۔ الخ‘‘
یعنی فرمایا کہ تمہارے تقاضے کا حال مجھ پر مخفی نہیں تھا لیکن میں نے اس بات کا خوف کیا کہ رمضان کی راتوں کی نماز تم پر واجب کردی جائے، پھر اس کی ادائیگی سے تم عاجز آجاؤ۔۔۔ الخ۔
(صحیح ابنِ خزیمہ ص۳۳۹۔۳۳۸، جلد ثالث، طبع بیروت، باب اللیل علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم انما ترک قیام لیالی رمضان۔۔۔ الخ، مشکوۃ شریف ص۱۱۴، باب قیام شہر رمضان، الفصل الاول، متفق علیہ)
یعنی اس نماز کے وجوب کے خوف سے ناغہ کردیا۔ یہ ایک عظیم مصلحت تھی جس کی وجہ سے امت پر شفقت فرمائی اور اس فعل پر دوام نہیں فرمایا۔ گویا کہ عدم دوام کی علت اور وجہ ظاہر فرمادی۔
خلاصہ یہ ہے کہ نماز تراویح کی ادائیگی کی یہ دوسری صورت تھی جو اس شکل میں عہد نبوت میں پائی گئی۔
تیسری صورت
اب یہاں مسئلہ ہذا کے لیے نماز تراویح کے حق میں ایک تیسری روایت پیش کی جاتی ہے جو جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’عن ابن عباس أن رسول اللّه – صلى الله عليه وسلم – كان يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر‘‘۔
(۱) المصنف لابن ابی شیبہ (المتوفی ۲۳۵ھ) ص۳۹۴، جلد ثانی، تحت “کم یصلی فی رمضان من رکعة”، حیدرآباد دکن۔
’’عن مقسم عن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعة و یوتر بثلاث‘‘۔
(۲) المنتخب مسند عبد حمید (التوفی ۲۴۹ھ) ص۲۱۸ روایت نمبر ۶۵۳، طبع بیروت۔
(۳) مجمع الزوائد لنورالدین الهیثمی ص۱۷۲، جلد ثالث باب قیام رمضان بحوالہ الطبرانی فی الکبیر و الاوسط و فیه ابوشیبة ابراهیم و ھو ضعیف، طبع اول، مصری)
مذکورہ روایت کا مفہوم یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف میں بیس رکعتیں پڑھتے تھے اور وتر تین رکعات میں ادا فرماتے تھے۔
روایت ہذا کی رو سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعات نماز تراویح ادا فرمایا کرتے تھے۔
نماز تراویح کی یہ تیسری صورت ہے اور عہد نبوت میں اس کا ثبوت موجود ہے۔ اب اس سے انکار کرنا زیغ عن الحق ہوگا۔
مطلب یہ ہے کہ عہد نبوت میں ان متعدد صورتوں میں صلوۃ التراویح ادا کی جاتی تھی۔
اس مقام میں چند ایک چیزیں قابل وضاحت ہیں:
۔۔۔(۱) ۔۔۔
روایت ہذا جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بظاہر اس کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے ساتھ تعارض معلوم ہوتا ہے جس میں گیارہ رکعات نماز ادا کرنے کا ذکر پایا جاتا ہے تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ آخر بحث میں ’’مستقل عنوان‘‘ قائم کرکے ان دونوں روایات کا رفع تعارض کردیا ہے۔ وہاں آپ اس کی تفصیل بقدر کفایت ملاحظہ فرما سکیں گے۔
۔۔۔۲۔۔۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ یہاں محدثین نے اس روایت کے ایک راوی ’’ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ‘‘ پر کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’و ھو ضعیف‘‘ یعنی یہ راوی کمزور ہے۔ اب اس مقام میں راوی مذکور کے ضعف کی تصریح کی ہے لیکن اس روایت کا مداوا اور ازالہ ہوسکتا ہے۔ پھر اس طریقہ سے روایت قابل قبول ہو جاتی ہے اور متروک نہیں رہتی۔
قرائن
* ایک بات تو یہ ہے کہ اس روایت کی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے عمل اور دیگر کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل سے تائید پائی جاتی ہے اور اس دور میں بیس رکعات تراویح کا پڑھا جانا اس روایت کے صحیح ہونے کا قرینہ ہے۔ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے تعامل کی تفصیل ہم عنقریب ذکر کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالی۔
چنانچہ علماء کرام نے لکھا ہے کہ:
’’و مواظبة الصحابة علی عشرین قرینة صحة ھذہ الروایة‘‘
یعنی بیس رکعات ادا کرنے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مواظبت اور دوام کرنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے صحیح ہونے پر قرینہ ہے۔
(رسائل الارکان از بحرالعلوم مولانا عبدالعلی لکھنؤی رحمہ اللہ، ص۱۳۸، تحت فصل صلوۃ التراویح فی رمضان، طبع قدیم)
۲) اسی طرح کبار تابعین اور جمہور علمائے امت کے بیس رکعات ادا کرنے کے تعامل سے بھی روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے صحیح ہونے کی تائید پائی جاتی ہے اور متعدد آثار قویہ اس روایت کی توثیق و تائید میں دستیاب ہوتے ہیں۔
۳) نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت مذکورہ اگرچہ خبر واحد ہے، لیکن اس کی صحت کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ اس روایت کے مضمون کو ’’تلقی امت‘‘ حاصل ہے اور جس روایت کے مضمون کو تلقی امت حاصل ہوجائے اور امت اس کو عملا قبول کرلے اور تصدیق کردے تو وہ جمہور علماء کے نزدیک علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے، ظنی نہیں رہتی۔
چنانچہ ’’شرح عقیدۃ الطحاویة فی عقیدۃ السلفیة‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’و خبر الواحد اذا تلقته الامة بالقبول عملا بة و تصدیقا له یفید العلم الیقینی عند جماھیر الامة۔ و ھو احد قسمی المتواتر و لم یکن بین سلف الامة فی ذلک نزاع‘‘
(۱) شرح الطحاویہ ص۳۲۰، تحت بحث ہذا قاضی علی بن علی بن ابی الغر الحنفی التوفی ۹۲ھ۔
(۲) احکام القرآن للجصاص الحنفی ص۴۵۶، جلد اول، تحت الطلاق مرتان، الخ۔
پس اس قاعدہ کے اعتبار سے بھی جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت مذکورہ متروک نہیں بلکہ قابل قبول ہے اور اس کے صحیح ہونے پر امت نے یقین کیا ہے۔ فلہذا اس کے ضعف کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور مندرجہ قرائن کے پیش نظر اسے رتبہ قبولیت حاصل ہوگا۔
ایک وہم کا ازالہ
روایت ہذا کی بحث میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ صغار صحابہ میں سے ہیں، اس مسئلہ پر کسی کبیر صحابی کی روایت پیش کی جائے. تو اس وہم کے ازالہ کے لیے اتنا قدر ذکر کردینا کافی ہے کہ ام المومنین حضرت میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خالہ ہیں (یعنی ان کی ماں ام الفضل کی بہن ہیں) اپنی خالہ جان کی خدمت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی آمد و رفت رہتی تھی اور کئی بار اپنی خالہ کے خانہ مبارک میں شب باشی بھی ان کو نصیب ہوتی تھی۔ پس ان ذرائع کی بنا پر ان کو مسئلہ ہذا (یعنی بیس رکعات تراویح ادا ہونے کا) علم حاصل تھا، جسے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مذکورہ روایت میں بیان کیا ہے اور وہ بالکل صحیح ہے۔
پھر اس روایت کی صحت کے لیے متعدد قرائن پائے جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ سطور میں ہم نے ان کو مختصراً ذکر کردیا ہے، پس ان حالات کے پیش نظر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حق میں صغر سنی (کم عمری) کا اعتراض اٹھانا بالکل بے وزن ہے اور حق بات سے اعراض کرنے کے مترادف ہے۔ و الحق احق ان یتبع
جاری ہے۔۔۔
دوسری قسط
تیسری قسط
آخری قسط
فوائد نافعہ، ص۲۲۰۔۲۳۳
از مولانا محمدنافع جهنگوی رحمة الله علیه
دوباره اشاعت: سنی آن لائن اردو
آپ کی رائے