مدینہ منورہ میں تصوف کی حقیقت پر تقریر

مدینہ منورہ میں تصوف کی حقیقت پر تقریر

ہمارے یہاں سے جو طلبہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں پڑھنے کے لیے جاتے تھے، ان کو وہاں صوفی اور حنفی کہہ کر پریشان کیا جاتا تھا۔ ہم جب گئے (مارچ 1963) تو انھوں نے ہم سے شکایت کی، ہم نے کہا آپ شیخ الجامعہ کے پاس جائیے (اس وقت شیخ الجامعہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز تھے) اور کہیے کہ ہمارے فلاں استاد آئے ہیں، ہم ان کی تقریر سننا چاہتے ہیں۔ آپ اجازت دیں، شیخ نے کہا: ہم خود جامعہ کی طرف سے اس کا انتظام کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے انتظام کیا، سارے طلبہ اور اساتذہ نے بھی شرکت کی، ہم نے اسی موضوع پر تقریر کی۔ ہم نے کہا: تصوف ہندوستان کے مزاج کے مطابق تھا۔ یہاں پہلے سے جو جوگ چلا آرہا تھا۔ اس کے مقابلے کے لیے اسلامی تصوف بہت ضروری تھا۔ پھر ہم نے بیان کیا کہ حقیقی تصوف کیا ہے اور صوفیہ کیسے ہوتے تھے؟

حضرت مجدد الف ثانی کی حمیت دینی اور اتباع شریعت
ہم نے مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کا ذکر کیا، ہم نے ذکر کیا کہ مجدد صاحب نے کس طرح فتنہ ¿ اکبری کا مقابلہ کیا۔ ہم نے ان کی وہ تاریخی عبارت بھی سنائی جس سے ان کی ایمانی قوت اور دینی حمیت پر پوری روشنی پڑتی ہے۔ شیخ عبدالکبیر یمنی(وفات: 869)کوئی بزرگ گزرے ہیں، ان کی کوئی بات مجدد صاحب کو خلاف شریعت معلوم ہوئی تو ایک خط میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“مخدوما! بندہ را تاب استماعِ این چنین کلام نیست، رگ فاروقیم بے اختیار در حرکت می آید، شیخ عبدالکبیر یمنی باشد یا محی الدین ابن عربی، ما را محمد عربی درکار اس نہ ابن عربی، ما را نصوص باید نہ فصوص، فتوحات مدنیہ از فتوحات مکیہ مستغنی کردہ است۔”
(مخدوما! بندے کو اس طرح کی باتیں سننے کی تاب نہیں، بے اختیار میری فاروقی رگ حرکت میں آجاتی ہے (حضرت مجدد صاحب حضرت عمر فاروق کی نسل سے تھے)، شیخ عبدالکبیر یمنی ہوں یا شیخ محی الدین ابن عربی، ہمیں محمد عربی سے مطلب ہے نہ کہ ابن عربی سے، ہمیں نص سے کام ہے (قرآن و حدیث سے) نہ کہ ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم سے، فتوحات مدنیہ (احادیث نبویہ) نے فتوحات مکیہ (ابن عربی کی کتاب) سے ہمیں مستغنی کردیاہے۔)
تقریر جب ہورہی تھی تو شیخ عبدالعزیز بن باز بے قابو ہوئے جاتے تھے اور باربار اللہ اللہ اکبر کہتے تھے، یہ تقریر ریکارڈ تھی، ان کے اللہ اکبر اللہ اکبر کہنے کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔

مجالس حسنہ ، مجلس ۴۴
از حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمه‌الله


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں