قدیم و جدید صحافت

قدیم و جدید صحافت

مقصود صاحب نے پوچھا: انگریزوں نے تعلیم و صحافت کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا، اس کی وجہ حضرت کی نظر میں کیا ہے؟ فرمایا: جی ہاں، انھوں نے تعلیم و صحافت کو اپنے ہاتھ میں لیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم سے بنیاد ہی سے بچوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے، اور صحافت سے بھی عام لوگوں کی بہ نسبت یہی کام لیا جاتا ہے، اس دور میں یہ تمام چیزیں ان کے ہاتھ میں تھیں، مگر اس وقت کی صحافت اس سے زیادہ خطرناک ہے۔ انگریزوں میں یہ بات تھی کہ وہ اپنے لوگوں کو حقائق سے بھی آگاہ کرنا اور صحیح معلومات پہنچانا چاہتے تھے، اب اس کا نام و نشان تک نہیں۔

مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمدعلی جوہر
مولانا عتیق احمد صاحب بستوی نے کہا: یہ لوگ مولانا ظفر علی، مولانا محمدعلی و غیر انگریزی پڑھ کر بھی مولانا ہوگئے؟ فرمایا: ہاں، اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے خالص انگریزی تعلیم پائی تھی، مولانا ظفر علی خان نے علی گڑھ سے ایم۔اے کیا اور مولانا محمدعلی نے علی گڑھ کے بعد آکسفورد میں بھی تعلیم پائی، مگر کس طرح نکلے، ان کی دینی حس کتنی بیدار تھی، مولانا محمدعلی کی قبر بیت المقدس میں مسجد اقصی کے پاس ہے، لندن میں وفات ہوئی اور قبر بیت المقدس میں، ان کی قبر پر کسی نے (۱) انھی کا یہ شعر لکھ کر آویزاں کیا ہے:
جیتے جی تو کچھ نہ دکھلائی بہار
مرکے جوہر آپ کے جوہر کھلے
جو بلکل حقیقتِ حال ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ:
(۱) پرانے چراغ حصہ دوم میں مولانا محمدعلی کے تذکرے میں لکھا ہے کہ یہ شعر ہمارے ہندوستانی بزرگ دوست فاروقی صاحب مقیم قاہرہ نے آویزان کیا ہے (ص:۱۹)۔

مجالس حسنہ، مجلس ۱۲، ص:۱۶۲ (۲۷؍۲؍۱۴۱۷ھ مطابق ۱۴؍۷؍۱۹۹۶ء)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں