مولانا محمدعبیداللہ اشرفی رحمہ اللہ

مولانا محمدعبیداللہ اشرفی رحمہ اللہ

جامعہ اشرفیہ کے مہتمم، سراپا اخلاق و تبسم، زندہ دل، خندہ جبیں، علم و حلم کا حسین امتزاج، شکوہ علم کے بغیر کوہ علم اور زعم تقویٰ سے خالی زبدہ اتقیاء۔
اتنے بے تکلف کہ شاگرد سراپا حیرت رہ جاتے اور اتنے مودب کہ معاصرین کو اساتذہ کا سا درجہ دیتے۔ حدیث کے زیر سایہ منطق کلام تصوف یا فقہی مناظرہ آراء کی تدریس ایک الگ پہلو ہے، لیکن حدیث بحیثیت حدیث کی تدریس میں ان کو تفوق حاصل تھا۔ تا ہم نہ صرف یہ کہ کبھی بخاری پڑھانے کی خواہش نہیں کی بلکہ ہمیشہ اپنے کو شیوخ حدیث کے شاگردوں کی سطح پر رکھا۔
صبح صبح ہمیں ابوداود اور پھر طحاوی پڑھانے آتے تو کبھی اس نشست پر نہیں بیٹھے جو استاذ حدیث کے لیے مختص تھی۔ ایک کنارے پر ایک پاؤں مسند سے نیچے رکھ کر بیٹھ جاتے اور اپنی بے پناہ مترنم آواز میں حدیث کا مفہوم، معانی ، مطالب، توجیہات، تنقیحات، تعارض ، توافق، تطبیق، سب ایک ایک کر کے بیان کرتے لیکن نہ زعم تحقیق نہ علمی طنطنہ نہ بیاض نہ نوٹس نہ رٹا۔ اتنے دلآویز انداز میں ’’قال ابوداود‘‘ کہہ کر اس کی تشریح کرتے کہ اس وقت بھی ان کی مترنم آواز میری سماعت میں رس گھول رہی ہے۔
وہ اصل میں کیا تھے؟ فنون لطیفہ کے حسن امتزاج سے جو پیکر مجسم ہوسکتا ہو اسے نام دیا جائے تو وہ مولانا عبیداللہ تھے۔ سنا ہے جوانی میں انہوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی اور ریاض کرتے رہے تھے۔ جن احباب نے ان سے حماسہ پڑھی ہے، وہی ان کے جذب و شوق اور عشق و وارفتگی سے بخوبی آگاہ رہے ہوں گے۔
جب اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر تھے تو اتفاق سے میں کونسل کے دفتر گیا تو وہاں نیاز حاصل ہوئے۔ انہیں کمیٹی چوک پنڈی اپنے کسی عزیز کے ہاں جانا تھا۔ میری درخواست پر میرے ساتھ بیٹھ کئے۔ راستے میں مجھے مزے مزے کے اشعار بھی سناتے رہے جن میں سے ایک ابھی تک حافظے میں محفوظ ہے:

رکھ کے لب سو گئے ہم آتشیں رخساروں پر
دل کو تھا چین کہ نیند آگئی انگاروں پر

اسی دوران میں میرے سوال پر کہ دیگر مدارس کے برعکس فضلائے جامعہ اشرفیہ میں شدت پسندی نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ بانی جامعہ حضرت محمدحسن صاحب کے مزاج کا اثر ہے۔ پھر اس پر واقعہ بھی سنایا کہ لاہور کے چند جید علماء دیوبند و اہل حدیث نے جن میں مولانا احمدعلی لاہوری اور مولانا داود غزنوی شامل تھے، ایک فتویٰ تیار کیا جس کا مفادیہ تھا کہ عید میلاد النبی کا جلوس نکالنا بدعت ہے اور ایک وفد کی شکل میں مولانا مفتی محمدحسن بانی جامعہ اشرفیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا کہ ’’میرے خیال میں جس طرح کوئی اللہ رسول کا نام لے، اسے لینے دیا جائے۔‘‘
آج کی بات نہیں، میں ہمیشہ سے یہ سوچتا ہوں کہ انسان اتنا متوازن کیسے ہوسکتا ہے جس قدر استاذ گرامی قدر متوازن تھے۔ اہل علم اپنے احساس علم کے طمطراق کے اسیر ہوجاتے ہیں اور اہل دل عزت نفس برقرار رکھنا بھی عجب (عین کی پیش) سمجھتے ہیں۔ نہ معلوم انہوں نے کس طرح اپنے آپ کو پیکر توازن میں ڈھال لیا تھا۔ تھانوی مکتب خیال سے متعلق ہونے کے باوجود اس مکتب فکر کی منفی خصوصیات سے کوسوں دور۔ حدیث پڑھانا یقیناً بہت بڑی سعادت ہے اور حاصل نہیں ہوسکتی تا نہ بخشب خدائے بخشندہ، لیکن شخصیت کو سنت کے قالب میں اس طرح ڈھال لینا کہ ہر دیکھنے اور ملنے والا دام محبت میں اسیر ہوجائے، کاروان اصحاب رسول کا امتیاز تھا۔ نہ معلوم آج کے دور میں کچھ شخصیات پر ایسی محبوبیت کا نزول کیسے ہوتا ہے۔
مجھے زیادہ موقع نہیں ملا، لیکن ایک دوبار مولانا خیرمحمد جالندھری اور مولانا محمدعلی جالندھری کی مجالس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ نہ معلوم ان کی شخصیات کنن سے مقناطیسی قوت اور کس نوع کی کشش ثقل لے کر آئی تھیں کہ ان کی طرف دل کھنچا چلا جاتا تھا۔ مولانا عبیداللہ اسی قافلے کے آخری مسافر تھے اور بقول آغا شورش کا شمیری

القصہ ایک عہد صحابہ کی یادگار
ان کا وجود نغمہ طرز حجاز تھا

(ڈاکٹر محمدطفیل ہاشمی)

_______________________________

حضرت مولانا عبیداللہ صاحب بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، اناللہ و انا الیہ راجعون۔مولانا واقعی ان شخصیات میں سے تھے جن کے معاصرین میں سے کسی کو ان کا مماثل نہیں کہا جاسکتا۔ علامہ انورشاہ کشمیری اور مرشد تھانوی سے نیاز حاصل کرنے والی پاکستانی کی شاید آخری شخصیت۔
علم و فطانت، ذہانت ، حاضر جوابی، بڑوں کی نسبتوں کے باوجود امتیاز پسندی کا نام و نشان تک نہیں۔ خشکی قریب سے نہیں گذری تھی۔ خود کو متقی، عابد و زاہد ثابت کرنے کے لیے بھی کبھی خشک بننے کا تکلف نہیں کیا ہوگا۔ آخر عمر تک دورہ حدیث میں طحاوی کی شرح معانی الآثار کا درس دیتے رہے، حالانکہ بخاری جیسی کوئی معروف کتاب بھی لے سکتے تھے۔
مولانا کو یہ خاص امتیاز حاصل تھا کہ انہوں نے فارسی کی ابتدائی کتب سے لے کر صحیح بخاری تک ساری درسی کتب کا پہلا سبق حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ سے پڑھاتھا۔ اس طرح سے اس وقت مولانا تھانوی کی وہ واحد شاگرد تھے۔ ان کے والد ماجد مفتی محمدحسن حضرت تھانوی کے عاشق زار مرید و خلیفہ تھے، لیکن فرمایا کرتے تھے کہ حضرت تھانوی کے ساتھ مجھے بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں جو میرے والد صاحب کو بھی حاصل نہیں، اور یہ بات وہ خود اپنے والد ماجد سے بھی کہا کرتے تھے۔ ایک بات تو وہی ہر کتاب ان سے شروع کرنے والی۔ ایک یہ کہ میں نے حضرت تھانوی سے بچپن میں ایک تھپڑ بھی کھایا تھا۔
شعر و شاعری سے بے تحاشا شغف تھا۔ بہت سے اشعار بڑھاپے میں بھی یاد تھے۔ کرکٹ جیسے کسی زمانے میں مکروہ سمجھے جانے والے کھیل بھی لگاؤ رکھتے تھے۔
اپنے اور اپنے بزرگوں کے بہت سے واقعات سنایا کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد مفتی حسن صاحب لاہور آگئے۔ حکومت میں آپ کے خاصے تعلقات تھے۔ مولانا تھانوی کے کئی متعلقین کو ان کی ہندوستان کی جائیدادوں کے claim میں یہاں پراپرٹیز الاٹ کروائیں، لیکن خود کچھ حاصل نہیں کیا۔ بتاتے تھے کہ مولانا تھانوی کہ اہلیہ (جنہیں چھوٹی پیرانی صاحبہ کہا جاتا تھا، مفتی جمیل احمد تھانوی کی ساس اور مولانا اشرف علی تھانوی و غیرہ کی نانی) کو ماڈل ٹاؤن میں ایک بڑی کوٹھی الاٹ کروائی۔ مولانا عبیداللہ بتایا کرتے تھے کہ کئی لوگوں نے مفتی صاحب سے خود بھی کہا اور میرے ذریعے بھی کہلوایا کہ آدھی مفتی صاحب خود رکھ لیں اور آدھی پیرانی صاحبہ کو دلوادیں، لیکن مفتی صاحب نہیں مانے۔
اللہ تعالی نے آواز میں عجیب ترنم اور سوز دیا تھا۔ بچپن میں کچھ عرصہ جامعہ اشرفیہ میں صوفی صاحب کے گھر رہنے کا اتفاق ہوا۔ جب کبھی فجر کی نماز پڑھاتے تو مزا آجاتا۔ ’’و عباد الرحمن الذین یمشون علی الارض‘‘ کثرت سے تلاوت کرتے۔ خطبہ جمعہ بھی سننے کے قابل ہوتا تھا۔ کئی لوگوں نے نقل اتارنے کی کوشش کی، لیکن نقل اور اصل میں فرق برقرار رہا۔ غفراللہ لہ و رفع درجتہ
ّ(مولانا مفتی محمد زاہد)

ماہنامہ الشریعہ، اپریل ۲۰۱۶ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں