حقیقتِ بندگی

حقیقتِ بندگی

انابیہ نے گلی میں جھانک کردیکھا تو ہر طرف سناٹا تھا، وہ ایک ہی جست میں رافعہ کے دروازے پر پہنچ گئی۔
’’امی سے ایک گھنٹے کی اجازت ملی ہے، اب جلدی سے چلاؤ ٹی وی۔‘‘
وہ پر مسرت لہجے میں رافعہ سے کہہ رہی تھی کہ اس کی ماں بول پڑی۔
’’ارے تمہیں اتنا شوق ہے تو باوا سے کہہ کر منگوالونا۔‘‘
’’امی! کیا ہوا اگر ہمارے یہاں دیکھ لے گی تو، اس کے ابو پسند نہیں کرتے۔‘‘
رافعہ اس کی طرف داری میں بولی تو اس کی ماں تنک کر بولی۔
’’جوان لڑکیوں کا اس طرح گلیوں میں پھرنا اچا فعل تھوڑی ہے، میں تو رفو کو اس طرح کبھی جانے نہ دوں، جانے اس کے ماں باپ کیسے اجازت دے دیتے ہیں اور پھر دعویٰ بھی کہ اچھا شغل نہیں ہو نہہ۔ بیٹی کو روک نہیں سکتے اور بنتے ہیں بڑے پارسا!‘‘
وہ طنز یہ لہجے میں بولیں تو رافعہ نے شرمسار نظروں سے انابیہ کی طرف دیکھا جواب بجھی دکھائی دے رہی تھی، پھر کچھ ہی دیر بعد وہ گھر لوٹ آئی۔ اماں اس کی روتی شکل دیکھ کر الجھ سی گئیں۔ ان کے استفسار پر وہ بلک بلک کر رودی۔
’’اماں! مجھے ایک ٹی وی لاکردو بس میں اور کچھ نہیں جانتی۔‘‘ ہاجرہ بی بی سوچ میں پڑگئیں۔

’’جوان لڑکی ہے محلے کے گھر میں جا کر ٹی وی دیکھتی ہے، اب کس کس بات پر سختی کروں؟ آپ اس کی یہ ضد مان لیں، کم از کم رافعہ کسی دوسرے گھر جانے سے تو روک جائے گی۔‘‘
دلیل بونگی تھی پر ابا خاموش ہوگئے، پھر اگلے ہی دن ایک چھوٹی اسکرین والا ٹی وی ان کے ہمراہ تھا۔
’’ہاجرہ! اس کی ضد پر ہم نے ہار مان لی، پر اسے سمجھا دینا کہ نماز وقت نماز، تلاوت کے وقت تلاوت ہوگی اور معمولات میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے، ورنہ جس طرح یہ آیا ہے اسی طرح واپس چلا بھی جائے گا۔‘‘
وہ بیگم سے مخاطب تھے۔ جبکہ انابیہ کو اپنی خوشی میں باپ کے سخت لہجے کی بھی آج پروا نہ تھی۔ وہ ٹی وی کی سیٹنگ میں لگی تھی اور ساتھ ہی باپ کی نصیحتوں کو پلو سے باندھ لیا تھا۔

مغرب کی اذانیں فضاؤں میں گونجیں۔ انابیہ نے چادر کی بقل ماری اور ٹی وی بند کرکے نماز پڑھنے لگی۔ اس نے فرض و سنت ادا کیے اور ایک بار پھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی۔ پروگرام کے چکر میں وہ اب اکثر نفل چھوڑدیا کرتی تھی۔ ہر گناہ دوسرے گناہ کو کھینچتا ہے۔ وہ اپنی دانست میں باپ کے حکم کی تعمیل کر رہی تھی، پر اس بات سے بے خبر کہ وہ رب کے کتنے احکامات کو توڑ رہی تھی۔ اماں اس کے طرز عمل پر پریشان تھیں، مگر سمجھانے کا کوئی راستہ انہیں سمجھائی نہ دے رہا تھا، آخر کو وہ خود ہی تو ذمہ دار تھیں، اب دلائل کہاں سے لاتیں۔ رمضان المبارک میں اب گنتی کے چند دن ہی رہ گئے تھے کہ ابانے بوا کے آنے کی اطلاع دی۔ صالحہ آپا کی آمد کا سن کر ان کی پریشانی دو چند ہوگئی، کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ بھائی کے گھر اس خرافات کو وہ ہرگز برداشت نہ کریں گی۔ انہوں نے بیٹی کی ہدایت کی دعا مانگی اور معاملہ اللہ کے سپرد کردیا، پھر صالحہ آپا آئیں، ساتھ ہی رمضان المبارک کا مہینہ بھی سایہ فگن ہوگیا۔ انابیہ ابتداً تھوڑی جھجکی، پھر ان کے سامنے بھی دیکھنے لگی۔ گناہ دلوں کو ایسے ہی بے حس کردیا کرتا ہے۔ انہیں بھتیجی کے اس طرز پر دکھ ہوا، مگر وہ مناسب موقع کی تلاش میں تھیں۔۔۔ انہوں نے اس سلسلے میں پہلے بھا بھی سے بات کی۔
’’ہاجرہ! یہ کیا گند گھر میں لاکر رکھ دیا؟‘‘
’’آپا مجبوری تھی، انابیہ پڑوس میں جا جا کر دیکھنے لگی تھی۔‘‘
’’ارے تم ماں ہو، اسے روک نہیں سکتی تھیں؟ اگر وہ پڑوس میں جا کر زہر چاٹنے لگ جاتی تو تم اماں باوا وہ بھی گھر لاکر رکھ دیتے کہ پڑوس میں نہ جائے۔ کچھ عقل اور شعور کا استعمال کرلیا ہوتا، یہ تو زہر سے زیادہ مہلک ہے، جو اخلاق کو تباہ اور کردار کو کھوکھلا کر رہا ہے، لڑکیوں کو گھروں سے بھاگنے کے طریقے سکھائے جارہے ہیں، کورٹ میرج کے راستے دکھائے جارہے ہیں۔ مندروں کی گھنٹیاں اس منحوس کے ذریعے ہم مسلمان گھروں میں بجنے لگی ہیں۔ سب سے بڑھ کر آنکھوں کا زنا ہے، جوان لڑکیاں غیرمردوں کو دیکھتی ہیں، تمہاری لڑکی بالکونی میں کھڑی کسی مرد کی جانب دیکھ لے تو گلا کاٹ کے رکھ دو، مگر گھر میں ہر دم ان نامحرموں کو دیکھ رہے ہیں۔ جانتی ہو، حدیث ہے کہ نظربازی آنکھوں کا زنا ہے اور دیکھنے والوں اور دکھانے والوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘
’’آپا! اب میں کیا کروں؟‘‘
وہ بے بسی سے بولیں تو صالحہ آپا ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گئی۔
’’ٹھیک ہے، میں اسے سمجھاتی ہوں، مگر اللہ سے مانگو، دلوں میں ڈالنے والی ذات تو اسی کی ہے۔‘‘

آپا سارا دن اس کے معمولات کو غور سے دیکھتی رہیں۔ چاشت، اشراق، ذکر و اذکار، تلاوت اوابین، فرائض کی مکمل پابندی، پھر طویل تراویح اور اس کے بعد دعا۔۔۔ گویا تمام مقویات تھیں جو اس کی روح کو طاقت ور بنانے کے لیے کافی تھیں، پر ہائے نادانی کہ اس پر تھوڑا سا زہر بھی چاٹے جارہی تھی جو ان تمام مقویات کے اثر کو زائل کرنے والا تھا، چاہے چٹکی بھر کیوں نہ ہو۔
’’انابیہ!‘‘ وہ دعا کے بعد جیسے ہی ٹی وی کی جانب بڑھی، آپا نے اسے پکارا۔
’’جی بوا جی!‘‘
’’اِدھر آؤ میرے پاس۔‘‘ وہ شفقت سے بولیں۔ ’’تھکی ہوئی لگ رہی ہو۔‘‘
’’جی بوا جی! لیکن اگلے سال کا کیا پتا کہ یہ رمضان ملے نہ ملے۔‘‘
اس کی بات پر آپا نے گہری سانس لی۔
’’ہاں بیٹا! لیکن یہ بات ہماری زبانوں پر ہے۔ دل میں اس کا یقین ہوتا تو گناہ نہ کرتے۔ کوئی مشقت اٹھا کر کوئی کام کرلے اور پھر اپنے ہی ہاتھوں اسے ضایع کر ڈالے تو اسے کیا کہوگی؟‘‘
’’لیکن کوئی عقل مند ایسا کیوں کرنے لگا، بوا جی؟‘‘
’’بیٹا! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسی ہی ایک عورت تھی، سارا دن سوت کا تتی پھر شام کو اسے توڑ ڈالتی۔‘‘
’’باؤلی جو ٹھہری بوا جی!‘‘
وہ بے ساختہ بولی تھی۔
’’ہم بھی تو ایسے ہی باؤلے ہیں بیٹا بلکہ اس سے زیادہ۔۔۔ وہ دنیاوی نقصان کرتی تھی اور ہم اخروی نقصان کررہے ہیں۔‘‘
’’وہ کیسے بوا جی؟‘‘
’’جاؤ ذرا پانی کی موٹر چلاؤ۔‘‘ ان کے حکم پر وہ میکانکی انداز میں اٹھ کر موٹر چلانے لگی۔
’’دیکھو پانی کتنے پریشر سے ٹنکی میں جمع ہورہا ہے۔ اب سارے نل کھول دو۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہی ہیں بوا جی! پھر پانی جمع کیسے ہوگا، سارا تو نلوں سے بہہ نکلے گا۔‘‘
ان کے اس حکم پر وہ حد درجہ حیران ہوئی تھی۔
’’یہی تو مثال ہے بیٹا ہمارے اعمال کی، سارا دن مشقت اٹھا کر کتنے کاموں کو پس پشت ڈال کر اعمال کیے، ان کا نور دل میں جمع کیا، پھر آنکھوں، کانوں، زبان اور دیگر اعضا جن کی مثال ٹونٹیوں کی مانند ہے، غلط استعمال کرکے ان کے نور کو ضایع کردیا، بہادیا۔ رمضان کے روزوں کو اللہ تعالی نے کیوں فرض کیا؟۔۔۔ تا کہ تم متقی بن جاؤ اور متقی وہ ہے جو شبہ گناہ سے بھی بچتا ہو۔ اسی لیے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ بہت سارے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوائے بھوک و پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں جنہیں ان کی شب بیداری سے سوائے تھکاوٹ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اعمال کرنا آسان ہے اس کے نور کو سنبھالنا اور آخرت کی طرف منتقل کرنا مشکل ہے۔ ایک گناہ کو چھوڑدینا ہزار نوافل سے افضل ہے۔ اب بتاؤ ہم محنت بھی کریں اور ہاتھ بھی کچھ نہ آئے تو کیا فائدہ؟ جس چیز کی محبت تمہارے دل میں رچ بس گئی ہے وہ تو گناہوں کا ڈھیر ہے۔ بیٹا، اس خبیث نے ہماری آنکھوں سے غیرت شرم و حیا کا جنازہ نکال دیا اور اخروی خسارہ تو میں نے بتا ہی دیا۔‘‘
’’بوا جی! کیا میرے اعمال ضایع ہوگئے؟‘‘
وہ یاسیت سے بولی تھی۔
’’بیٹا! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیے، توبہ کا دروازہ کھلا ہے مگر توبہ اپنی شرائط کے ساتھ ہو تب قابل قبول ہے۔ پہلے تو یہ کہ اس گناہ سے فوراً الگ ہوجاؤ، دوسرے دل سے شرمندہ ہو اور پھر آیندہ نہ کرنے کا عزم کرو۔‘‘
’’اور بوا جی! اگر توبہ کے بعد پھر توبہ ٹوٹ جائے؟‘‘
’’ہر وقت باوضو رہنا مشکل ہے لیکن کیا جب وضو ٹوٹ جائے تو ہم مایوس ہوجاتے ہیں؟ نہیں، دوبارہ وضو کرکے باوضو ہوجاتے ہیں۔ توبہ توڑنا نہیں ہے، اگر ٹوٹ جائے تو دوبارہ کرلینا ہے۔ بس اللہ سے مانگنا ہے، اس کے دامن کو چھوڑنا نہیں ہے۔ کیوں کہ گناہ گاروں کی آہ و زاری اللہ رب العزت کو فرشتوں کے سبحان اللہ کہنے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ تم نے کہا تھا بیٹا کہ اگلا رمضان ہمارے نصیب میں ہو نہ ہو، اب معلوم ہوا کہ یہ بات صرف زبانوں پر ہے جس دن زبان سے ایک بالشت نیچے دل میں اترگئی، تب شاید نہیں یقیناً ہم اس طرح کبھی اسے ضایع نہ ہونے دیں گے۔ ہمارا دل آرزوؤں سے پر ہے۔ گناہ میں بظاہر لذت ہے، دل گناہ کی طرف مائل کرے گا مگر دل کے ان تقاضوں پر عمل نہ کرکے اپنے دل کو بے آرزو کرکے اللہ کی مرضی کے تابع ہونا ، یہی بندگی کی حقیقت ہے۔ جو اللہ کی مان کر چلتے ہیں ان کا انجام بھی موت ہے، جو خواہشات کی پیروی میں لگے رہتے ہیں، ان کا انجام بھی موت ہے۔۔۔ مگر انجام کے اعتبار سے کامیاب کون ہے؟‘‘
’’وہی جو اللہ کی مان کر چلتے ہیں بوا جی!‘‘
’’پھر بیٹا! تمہارا کیا فیصلہ ہے؟ اعمال تمہارے پاس ہیں، ان کی حفاظت کرنا ہے، نور کو آخرت کی طرف منتقل کرنا ہے اس کے لیے ہر ہر عضو پر اللہ کے خوف پہرہ بٹھانا ہے۔ تم ارادہ کرتی ہونا!‘‘
’’جی بوا جی ان شاء اللہ!‘‘
وہ نم آنکھوں سے پر عزم لہجے میں بولی تو آپا کے ساتھ اماں کی آنکیں بھی بھیگ گئیں۔ وہ رب کی جانب قدم بڑھا چکی تھی اور جو رب کی جانب چلتے ہوئے جاتا ہے، وہ کریم مالک دوڑتے ہوئے اسے اپنی رحمت کے آغوش میں لے لیتے ہیں۔

تحریر: ہمشیر شیرمحمد۔ ملیر سٹی کراچی
’خواتین کا اسلام‘ میگزین۔ نمبر 673


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں