میں خوب صورت ہوں!

میں خوب صورت ہوں!

اَللّہُمَّ اَنتَ حَسَّنتَ خَلقِی……
سب لڑکیاں ایک آواز میں پڑھ رہی تھیں صرف ربیعہ خاموش تھی۔
’’پڑھو ربیعہ!‘‘ استانی ثوبیہ نے ربیعہ کو ٹوکا۔
انہوں نے دہرایا لیکن وہ بدستور خاموش رہی۔
’’بہت بری بات ہے۔‘‘وہ تاسف سے سر ہلا کر رہ گئیں۔ پھر دوسری لڑکیوں کو پڑھانے لگیں۔
*
’’کیا اتنا منہ بنا کے بیٹھی ہوئی تھیں؟‘‘
ربیعہ اور اس کی جڑواں بہن عینا مدرسے سے گھر واپس جارہی تھیں۔
’’میری مرضی!‘‘ وہ ابھی بھی اداس تھی۔
’’دعا کیوں نہیں پڑھ رہی تھیں؟‘‘ عینا نے گھر کی گھنٹی پر ہاتھ رکھا۔
’’جب مجھے پتا ہے کہ میں بدصورت ہوں تو کیا تب بھی میں اللہ تعالی سے یہ کہوں کی میری سیرت بھی ویسی ہی کردیں، جیسی میری صورت ہے؟ یعنی خود اپنے آپ کو بد دعا دوں‘‘
عینا ہکا بکا رہ گئی۔
’’بولو عینا!‘‘
جیسے ہی دروازہ کھلا، ربیعہ اپنے گالوں پر پھسلتے موٹے موٹے آنسو لیے اندر داخل ہوگئی۔
’’استغفراللہ! اس لڑکی کی سوچ۔۔۔ اس کی باتیں اف۔۔۔ اللہ تعالی معاف فرمائے۔‘‘
عینا افسوس سے سر ہلاتے دروازہ بند کرنے لگی وہ اور ربیعہ ہو بہو ایک سی ہی تھیں، اسے تو کبھی نہیں لگا تھا کہ وہ بدصورت ہے۔
*
’’میرا اے گریڈ؟۔۔۔ ربیعہ اسماعیل کا اے گریڈ؟ ربیعہ اسماعیل کے 73 فیصد نمبرز! کتنی غلط مارکنگ ہے یہ۔‘‘
ربیعہ کے ہاتھ میں مارک شیٹ تھی اور وہ دکھ سے نفی میں سر ہلاتی اسے دیکھے جارہی تھی۔
’’ویسے واقعی ظلم ہوا ربیعہ کے ساتھ! ہر کلاس میں ٹاپ کرنے والی ربیعہ اور اے گریڈ!‘‘
یہ ربیعہ کی کلاس فیلو تھی جو قریب کھڑی اپنی کسی سہیلی کو بتا رہی تھی۔
’’خیر ویسے اے گریڈ اتنا برا بھی نہیں، اللہ کا شکر ہی کرنا چاہیے۔۔۔ ویسے مس مہرین کہہ رہی تھیں کہ بہت دھوکا ہوا ہے اس دفعہ! سب کے نتائج یو نہی آئے ہیں۔ کارکردگی کے برعکس!‘‘
’’تم کہتی ہو اے گریڈ برا نہیں۔‘‘ ربیعہ اس کی طرف پلٹ کر دکھ سے بولی۔ ’’تمہیں پتا ہے میرے لیے یہ کیا ہے؟ موت!۔۔۔‘‘ وہ دونوں حیرت سے ربیعہ کو دیکھے گئیں۔
’’اور تمہیں پتا ہے کہ اس دفعہ دھوکا کیوں ہوا ہے؟ کیوں کہ اس دفعہ امیدواروں میں، میں بھی شامل تھی اور میں وہ بدنصیب ہوں کہ جہاں ہوتی ہوں، وہاں سونا بھی مٹی ہوجاتا ہے۔‘‘
وہ آنکھوں میں آنسو لیے تیزی سے پلٹ گئی اور وہ دونوں اس عجیب و غریب منطق پر حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئیں۔
’’واؤ بیوٹی فل!‘‘
ربیعہ اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔ برابر والے گھر سے ایک لڑکی نکلی تھی۔ حسین ترین، مسحور کن حسن رکھنے والی اور اس کے پیچھے وہ مرد۔۔۔ یقیناًاس کا شوہر تھا۔ وہ برابر والے محل نما بنگلے میں سفٹ ہونے والے ان کے نئے پڑوسی تھے۔
وہ لڑکی اپنی لینڈکروزر میں بیٹھتے ہوئے شاید شوہر کی کسی بات پر کھل کے مسکرائی تھی اور ربیعہ دیکھتی رہ گئی۔
’’کاش! یہ میں ہوتی خوب صورت، خوش نصیب!‘‘ دل بجھنے لگا تھا۔ وہ گھر کی طرف پلٹنے ہی لگی تھی کہ دفعتاً اس کی نظر سامنے ایک غریب سی لڑکی پر پڑی جو شاید کوئی بھکارن تھی۔ لنگڑاتی چال، پھٹے پرانے برقع کی ہوا میں لہراتی آستین۔۔۔ گرد و غبار میں اٹا چہرہ جسے وہ بمشکل نقاب میں چھپائے ہوئے تھی۔ اسے کراہیت سی محسوس ہونے لگی۔
وہ فوراً گھر میں داخل ہوگئی لیکن اس وقت اس نے یہ نہیں سوچا کہ اللہ کا شکر، یہ میں نہیں ہوں۔
*
’’السلام علیکم نسرین آنٹی!‘‘
ربیعہ اپنے تایا کے بیٹے کی شادی میں آئی ہوئی تھی۔ چاچو کی ساس، اس کی والدہ سے ملنے آئیں تو اس نے دیکھا۔ عینا مسکراتے ہوئے بڑی گرم جوشی سے انہیں سلام کررہی تھی۔
’’ہر ایک کی چاپلوسی میں لگی رہتی ہے بے وقوف عینا۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔
نسرین آنٹی کی نظر ربیعہ پر پڑی تو اس نے دھیمے سے سر ہلا کر انہیں سلام کردیا۔۔۔ چاچو کی سالی عینا کے برابر بیٹھ گئی تھی اور اس سے کچھ کہنے لگی تھی۔ عینا مسکراتے ہوئے نپے تلے سے انداز میں اس سے بات کررہی تھی۔
’’ویسے اچھی لگ رہی ہے کافی!‘‘ وہ سوچنے پر مجبور تھی۔
ناقابل یقین حدتک ہم شکل بہنوں میں عینا کی مسکراہٹ اسے ربیعہ سے ممتاز کردیتی تھی۔
’’اور صبا! کیسی ہیں آپ؟‘‘
نسرین آنٹی امی کی طرف متوجہ ہوگئیں اور پھر اِدھر اُدھر کی روایتی باتیں، وہ اچھی خاصی بور ہو رہی تھی۔
’’ماشاء اللہ! وقار ڈاکٹر بن گیا ہے اور بس اب تو بہو لانی ہے مجھے، تمہید کیا باندھنی مجھے تو بس آپ کی بیٹی عینا بہت پسند ہے اپنے وقار کے لیے۔‘‘ انہوں نے روانی سے کہا تو ربیعہ چونک اٹھی۔ نجانے کیوں اس کے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا۔
’’عینا کیوں پسند ہے، ربیعہ کیوں نہیں پسند؟ جب دونوں ایک جیسی ہیں تو ربیعہ کیوں نہیں پسند؟‘‘ اس کے اندر کوئی چیخ رہا تھا۔
’’اوہ۔۔۔ میں کتنی بدنصیب ہوں!‘‘ اس نے کرب سے سوچا۔
’’اے ربیعہ موٹو! کیا حال ہیں؟‘‘ اس کی تایا کی بیٹی حنا اس کے برابر والی کرسی کھینچ کر آبیٹھی تھی۔
’’لگتا ہے خوب ٹھونسا ٹھانسی چل رہی ہے آج کل!! رنگ بھی کم لگ رہا ہے تمہارا آج۔‘‘
اس نے ربیعہ کا بازو دبایا۔
’’حنا! تنگ نہیں کرو، میرے سر میں درد ہے۔‘‘
اس نے حنا کا ہاتھ اپنے بازو پر سے جھٹکا اور ٹیبل پر سرٹکالیا۔ ’’میری کالی موٹی ہوں۔‘‘ دکھ پر دکھ۔
’’بدنصیب اور بدصورت ربیعہ!‘‘
وہ آنسو ٹیبل کے کپڑے میں جذب ہوگئے اور اندر چھپے آنسوؤں کے سیلاب پر تو اس بے بڑی مشکل سے بند باندھ رکھا تھا، جسے گھر جا کر توڑنا تھا۔
*
وہ اپنے پر تعیش بیڈروم میں اپنے پلنگ پر آڑھی ترچھی اوندھے منہ گری پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی، ایئرکنڈیشنر کمرے کے ماحول میں ایک خوشگوار سی ٹھنڈک چھائی ہوئی تھی۔
’’کیا فرق تھا مجھ میں اور عینا میں جو انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے عینا کو پسند کیا؟ میرے ایسے نصیب کیوں ہیں؟! اللہ شانزے اور کتنے آرام سے حنا نے مجھے کالا موٹا کہہ دیا، پاگل چڑیل جس کا دل چاہتا ہے جو بھی کہہ دیتا ہے، میں ایسی کیوں ہوں اللہ!‘‘
وہ چلانے کے سے انداز میں بولی تھی۔
اپنا کمرہ لاک کر کے قدرے بلند آواز میں آہ و بکا کرتی ربیعہ اگر یہ سمجھتی تھی کہ اسے کوئی نہیں سن رہا تو وہ غلط تھی! یہ در و دیوار، یہ عیش و عشرت کا سامان جو اس نے کمرے میں سجا رکھا تھا۔۔۔ سب گواہ تھے اس کی ناشکریوں پر۔۔۔ کیا وہ جان سکتی تھی کہ اس دیوار کے پارمکان میں موجودہ حسین نازک سی لڑکی، جیسا وہ بننا چاہتی تھی، وہ حقیقت میں کتنی محروم تھی! کیا وہ جان سکتی تھی؟
*
اتنا بڑا میدان اس نے کبھی خواب میں نہیں دیکھا تھا، تا حد نگاہ نہ ختم ہونے والا اور اتنے سارے لوگ اتنے سارے اور جیسے سب کسی چیز کے منتظر ہوں!
بے چین، مضطرب چہرے، اس کے آس پاس کچھ اس کے جاننے والے بھی تھے۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتی رہی پھر اس کی نظر ٹھہر گئی۔ وہی خوب صورت، خوش نصیب لڑکی۔۔۔ مگر وہ بھی جیسے بہت بے چین تھی اس وقت، اس سے کچھ دور رہی اپاہج لڑکی، اسے تو اس نے پہلے بھی مضطرف سا ہی دیکھا تھا سو وہ تو اب بھی ویسی ہی تھی، اسے ڈر لگنے لگا تھا۔ ہر چہرہ ہراسان بے شمار انسانوں کا ہجوم۔۔۔‘‘
’’آخر یہ سب کیا ہے؟‘‘ وہ خود سے بولی۔
’’میں بتاؤں؟‘‘ اسے اپنے عقب سے دھیمی سی آواز آئی۔ پر وہ پلٹی نہیں۔ وہ پلٹ نہیں سکتی تھی، اسے اس محسور کن ماحول نے جیسے پتھر کردیا تھا۔
’’ہاں بتایئے!‘‘ اس کے لہجے میں خوف کی حدت تھی۔
’’یہ سب کل بنی آدم ہیں، ازل سے ابد تک پیدا ہونے والے۔‘‘
’’انہیں کس کا انتظار ہے؟‘‘
’’اس کائنات کی سب سے قیمتی شے کا۔‘‘
وہ آہستہ سے بولی: ’’وہ کیا ہے؟‘‘
’’چلو تم بتاؤ وہ کیا ہوگی؟‘‘ عقب سے آتی آواز دوستانہ سی تھی، اس کا خوف کچھ کچھ کم ہونے لگا تھا۔
’’آں ں۔۔۔ بب۔۔۔ بہت مشکل سوال ہے یہ۔‘‘
’’اچھا چلو یہ بتاؤ انسان کی زندگی میں وہ کون سی چیز ہے جو اسے سچی خوشی سے ہمکنار کردے؟؟‘‘
’’خوب صورتی، خوش نصیبی‘‘ اس کے منہ سے جیسے بے ساختہ نکلا تھا۔
’’خوبصورتی تو خیر بالکل بھی نہیں ہے اور خوش نصیبی تم کسے کہتی ہو؟ کھل کے بتاؤ۔‘‘
’’یہی حسن، دولت، زندگی کے ہر موڑ پر کامیابی، زندگی کا ہر لمحہ خوشگوار، بس سب کچھ جو انسان چاہے کہ اس کے پاس ہو۔‘‘
’’بہت دکھ ہوا جان کر، بہت مادی سوچ ہے تمہاری، وہی عام انسانوں والی، بہر حال یہ سب کسی بہت بہت خاص چیز کے منتظر ہیں اور وہ ہے۔۔۔ ایمان!‘‘
’’اوہ!۔۔۔‘‘ وہ شرم سے پانی ہوگئی، واقعی وہ کتنی مادہ پرست تھی۔ دل کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو یہ بہت شرمناک بات ہے۔۔۔ فانی دنیا کی فانی چیزوں پر مرنا۔
’’ابھی دیکھنا ربیعہ اسماعیل! اس جم غفیر میں ہوں گے کچھ خوش نصیب، جنہیں ایمان کا نور عطا کیا جائے گا۔‘‘
’’کیا مجھے ملے گا وہ؟‘‘
اس نے بڑی ہی حیرت سے سوال کیا تھا مگر اس بار جواب نہیں آیا تھا، شاید وہ آواز چلی گئی تھی اور پھر کتنے ہی اذیت ناک منتظر لمحات اس نے گزارے تھے۔ پھر اچانک اسے لگا جیسے وہ بے وزن سی ہونے لگی ہے۔ اس نے خوف سے آنکھیں موندلیں۔ نجانے ایمان سے نواز دی گئی تھی یا محروم کردی گئی تھی؟ پھر ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ وہ زمین سے کافی اوپر اٹھ چکی تھی اور اس کے اطراف میں اور بھی کئی لوگ یونہی دھیرے دھیرے اوپر اٹھتے چلے جارہے تھے۔
اس نے اوپر دیکھا وہ اپاہج لڑکی اس سے کافی بلند مقام پر پہنچ چکی تھی۔ اس کا پورا وجود پر نور تھا، چہرہ حسن کی تابناکیوں اور مسرت سے چمک رہا تھا، اسے اس پر رشک آنے لگا تھا۔ اس نے نیچے دیکھا، نیچے بڑھتی ظلمتوں میں رہ جانے والے بدنصیبوں میں وہ خوب صورت لڑکی تاریک پڑتھا چہرہ لیے بڑی حسرت سے اوپر اٹھتے خوش نصیبوں کو تک رہی تھی۔ اس کے تاریک پڑتے ماتھے پر صلیب کا نشان واضح تھا!
ربیعہ کی روح کانپ گئی۔
’’الحمدللہ! یہ میں نہیں ہوں۔‘‘
اس کا رواں رواں پکار اٹھا تھا۔ اس نے اپنے گریبان میں جھانکا، نور کی کرنیں پھوٹ رہی تھی۔ ایمان عطا کردیا گیا تھا، وہ نواز دی گئی تھی۔ وہ خلاؤں میں ہی سجدہ ریز ہوگئی، وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ کتنے۔۔۔ کتنے سارے انسانوں میں اس کے رب نے اسے ایمان کے لیے چنا ہوا تھا اور وہ کن فانی چیزوں پر مر رہی تھی۔
اب دنیا کی ہر راحت او ر ہر غم اس کے لیے ثانوی تھے، اس کے پاس کائنات کی سب سے قیمتی شے ’ایمان‘ تھا۔
’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘ کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی تھی۔ اپنی ناشکریوں پر استغفار کرتی سوہنے رب کا شکر ادا کرتی وہ وضو کرنے اٹھ گئی، وضو کرتے ہوئے سامنے لگے آئینے پر جو اس کی نظر پڑی تو دل بے اختیار کہہ اٹھا تھا۔
’’الحمدللہ! میں خوب صورت ہوں، میرے رب نے میرا چہرہ بنایا ہے اور یقیناً بڑے پیار سے بنایا ہے جبھی تو ایمان سے نوازا ہے۔ اپنی اس قدر بڑی خلقت میں، مجھے ایمان کے لیے چن لیا میرے رب نے! الحمدللہ! میں بہت بہت بہت زیادہ خوش نصیب ہوں۔‘‘
اس کی آنکھوں میں آنسو گئے تھے مگر یہ شکرگزاری کے آنسو تھے اور چہرے پر ایک حسین مسکراہٹ تھی۔

تحریر: اہلیہ احسن احمد شریف
خواتین کا اسلام میگزین۔ نمبر670


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں