بس اتنی تمنا ہے

بس اتنی تمنا ہے

حاجی بابا ایک طرف زینے پہ بیٹھے بے یقینی کے عالم میں ایک ہی رخ پر دیکھے جا رہے تھے، آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے، وہ ایک دم اٹھتے اور دیوانگی کے عالم میں چکر لگانا شروع کردیتے اور پھر اپنی جگہ آبیٹھتے اور اسی رخ پر تکنے لگتے۔ سوچوں میں گم ان کے لب حرکت کرنے سے محسوس ہوتے تھے۔ اس دوران ایک لمحے کو بھی آنکھوں کی نمی خشک نہ ہو پائی تھی۔
وہ شہر کے ایک معزز آدمی کے گھر چوکیدار تھے، آمدنی اتنی کہ گھر کا خرچ ہی پورا ہوتا۔ اس کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے وہ اپنی آمدن میں سے کچھ نہ کچھ پیسے جوڑتے رہے تھے، ان کے دل میں بس ایک ہی خواہش تھی۔ اسی خواہش کی تکمیل کے لیے وہ گزشتہ بائیس سال سے اپنی آمدن میں سے ایک قلیل حصہ محفوظ کررہے تھے، لیکن اب تک کی جمع پونچی اس کے لیے ناکافی تھی، ناامیدی نہ ہونے کے با وجود وہ امید کا دامن اپنے ہاتھوں سے چھوٹنا محسوس کررہے تھے۔ رب سے گریہ و زاری اور دعائیں کرتے عرصہ ہوچکا تھا، لیکن خواہش کے پورا ہونے کی کوئی راہ دکھائی نہ دیتی تھی۔
ایک رات معمول کے مطابق وہ اپنے رب کے حضور گریہ و زاری کرکے مصلےٰ سے اٹھے اور اپنے بستر سے جالگے، بستر پر لیٹے وہ مسلسل مولا کے حضور اپنی خواہش پیش کررہے تھے، رات کے سناٹے میں ان کی اپنی رب سے سرگوشی صاف سنائی دیتی تھی۔
’’میرے مولا زندگی کا آخری حصہ ہے، کب سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے، تیرے سوا کوئی نہیں جانتا، کب روح جسم کا ساتھ چھوڑ جائے تو ہی جانتا ہے۔ میرے مولا بالوں کی سیاہی سفیدی میں بدل گئی، آنکھوں کا نور بھی ماند پڑتا جارہا ہے، کھال کھنچ کرسکڑچکی، ہڈیاں کھر کے بے گودا ہوگئیں، ہاتھوں کی کپکپاہٹ باوجود کوشش کے نہیں جاتی، امیدوں کا دیا بھی اب بجھنے کو ہے، لیکن یہ خواہش دن بدن جوان ہوتی جارہی ہے۔ میرے مالک تیرے سوا کون ہے جو میری بات سنے اور عطا کرے! کوئی ہے جسے فریاد سناؤں! کون ہے جس کے در پر جاؤں، کس کے دروازے پر دستک دوں! میرے رب تجھ سے نہ مانگوں تو کس سے مانگوں؟ تیرے سامنے جھولی نہ پھیلاؤں تو کس کے سامنے پھیلاؤں! تجھ سے نہ فریاد کروں تو کس سے کروں؟ کس کے در پہ جاؤں؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹاؤں؟ تو ہی ت وہے جو میری فریاد سنے! تو ہی تو ہے جو میری جھولی بھرے! تو ہی تو ہے جو میری مراد پوری کرے! تو ہی تو ہے جو سب کو عطا کرے! توہی بس تو ہی ہے مولا! سن لے مولا! مولا سن لے! سن لے مولاسن لے۔‘‘ رات یوں ہی بیت گئی۔
صبح فجر پڑھ کر نوکری پہ جا پہنچے ، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ بڑے صاحب کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہے، وہ اس وقت تشویشناک حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں، ڈاکٹر نے بہتر گھنٹے کا وقت دیا ہے، اگر حالت سنبھل گئی تو بچنے کی امید ہے، ورنہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بس دعا کا کہا ہے، بیگم صاحبہ نے ان کی جان کا صدقہ نکالنے کی غرض سے اعلان کیا ہے کہ جس ضرورت مند کی جو ضرورت اور حاجت ہو، وہ بتائی جائے، تا کہ اس کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ بابا! اگر کوئی ضرورت یا حاجت ہے تو بیگم صاحبہ کے سامنے پیش کردو، وہ پوری کردی جائے گی، حاجی بابا (نام تو ان کا خدا جانے کیا تھا، لیکن وہ اپنے آپ کو حاجی کہلواتے تھے) کی غیرت نے گوارہ نہ کیا کہ وہ اپنی ضرورت و حاجت کو اپنے رب کے علاوہ کسی کے سامنے پیش کریں۔
بڑے صاحب کی حالت کچھ زیادہ بگڑی تو بیگم صاحبہ نے منت مانی کہ اللہ نے صحت دی تو وہ ہر سال حج کے موقع پر بڑے صاحب کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہوکر اس کا شکر بجا لائیں گی اور کسی ایسے خواہش مند کو بھی ساتھ لے کر جائیں گی جو وسائل کی کمی کے باعث اللہ کے گھر کے دیدار کو نہ جاسکا ہو۔
دو ماہ بعد بڑے صاحب صحت یاب ہوکر گھر لوٹ آئے، شکرانے کے طور پر خلق خدا کو خوب نوازا گیا اور منت پوری کرنے کے لیے ایسے شخص کی تلاش شروع ہوئی کہ جو باوجود بے انتہا شوق اور خواہش کے وسائل کی کمی کی وجہ سے بیت اللہ نہ جاسکا ہو، خوب تلاش کے بعد جب ایسا شخص نہ ملا تو فیصلہ ہوا کہ گھر کے کسی ملازم کو حج کروادیا جائے، مگر کس کو؟ آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ قرعہ نکالا جائے، جس کا نام نکلے، اسے حج پر بھیج دیا جائے۔
قرعہ ڈالا گیا جس ملازم کا نام نکلا، وہ دو دن پہلے ملازمت چھوڑ کر جاچکا تھا۔ اسے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ نہ ملا، بالآخر دوبارہ قرعہ نکالا گیا، پچھتر سالہ ملازم کی مراد اس بار بر آئی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آج ایک پچھتر سالہ بزرگ کی ہڈیوں میں جوانوں سی مضبوطی لوٹ آئی تھی، آنکھوں میں بائیس سال پہلے جیسی چمک تھی، ناامیدی کی گھٹا سے امید کی کرن جھانک رہی تھی، جوش و جذبہ جوانوں کو شرمندہ کیے دیتا تھا، یوں لگتا تھا، جوانی لوٹ آئی ہے۔
آج وہ ایک طرف زینے پر بیٹھے بے یقینی کے عالم میں ٹکٹکی باندھے بیت اللہ کو دیکھ رہے تھے، آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے، وہ ایک دم اٹھتے اور دیوانگی کے عالم میں بیت اللہ کا طواف شروع کردیتے، طواف مکمل کرکے واپس اپنی جگہ آبیٹھتے اور بیت اللہ کو تکنا شروع کردیتے، سجدہ شکر بجالاتی نگاہیں جو اب تک اپنے رب کے دیدار کے لیے بے تاب تھیں ، ان کے جینے کا مقصد پورا ہونے کا اشارہ دے رہی تھیں۔

بقلم زبیراحمد محمدی۔ کراچی
بچوں کا اسلام میگزین شمارہ 705


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں