میرا برقع

میرا برقع

جی ہاں میرا برقع؟ قاریات بہنیں حیران ہو رہی ہوں گی کہ یہ کیسا عنوان دیا ہے۔

تو بہنو! گزارش یہ ہے کہ جب ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے نئے نویلے برقعے کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا تو بے ساختہ ہمارے منہ سے ’میرا برقع میرا برقع‘ نکلنے لگا۔ ہوا یہ کہ میرے پاس جو برقع تھا، اسے دوسال کا عرصہ گزرچکا تھا۔ کافی خستہ اور پرانا ہوچکا تھا۔ ہم اپنے میاں جی سے بار بار گزارش کررہے تھے۔ مہربانی فرما کر ہمیں عیدالفطر کے موقع پر نیا برقع دلوا دیجیے۔ ہماری روتی سی معصوم سی شکل دیکھ کر انہیں ہم پر ترس آگیا اور اس عیدالفطر سے تقریباً تین دن قبل یعنی ستائیس شب کو ختم القرآن سے فارغ ہوکر میاں جی ہمارے ساتھ حیدری مارکیٹ تشریف لے گئے اور پورے سولہ سو روپے کا برقع لے کردیا۔ ہم بے ساختہ خوش ہوکر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے لگ گئے، مگر ہماری یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ بس بہنو! کس طرح آپ کے سامنے حال دل رکھیں کہ ہم موبائل کی نئی سم نکلوانے ان کے دفتر جارہے تھے کہ یکدم ہمیں اپنا گلا گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ یا الہی یہ کیا ہوا؟ ہم سمجھے کہ شاید ملک الموت صاحب تشریف لے آئے اور آکر اپنا کام بھی شروع کردیا ہے۔اللہ کا خاص کرم اور گھر سے نکلتے وقت آیۃ الکرسی پڑھنے کی برکت ایسی ظاہر ہوئی کہ عین انہی لمحات میں آگے سنگل بند ہوگیا اور موٹر سائیکل روکنا پڑگئی۔ اب جو دیکھا تو ہمارابرقع موٹرسائیکل کی چین میں آچکا تھا اور اس کا نچلا حصہ ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا تھا۔ بے اختیار ہم بول اٹھے: ’’ہائے میرا برقع، ہائے میرا برقع!‘‘
جب بار بار یہی جملہ بولنے لگی تو میاں جی نے زور سے ڈانٹا کہ یہ کیا بولے جارہی ہو؟ اللہ تعالی کا شکر ادا کرو کہ جان بچ گئی اور کوئی بڑا نقصان بھی نہیں ہوا۔ ہم جو روتی شکل بنا کر کھڑے تھے۔ اب میاں جی کی ڈانٹ سن کر باقاعدہ رونے لگے اور روتے ہوئے کہا: ’’ہمارا سولہ سو کا برقع اور آپ کہتے ہیں بڑا نقصان نہیں ہوا۔‘‘
یہ سن کر میاں جی ہمیں غصے سے دیکھتے ہوئے فرمانے لگے۔ ’’تمہاری حالت دیکھ کر میرا دل بھی یہ چاہ رہا ہے کہ تمہارے ساتھ رونا شروع کردوں۔‘‘
اب آگے سنیے، برقع تو عین چورا ہے میں موٹرسائیکل کی چین میں پھنس گیا، مگر نکالیں کیسے اصل مسئلہ تو یہ تھا!؟ اسی دوران سگنل کھل گیا اور گاڑیوں کی جو پاں پاں، ٹیں ٹیں شروع ہوئی۔ یقین کریں بہنو! ہمیں اپنی حالت و کیفیت اس وقت ایسے لگ رہی تھی کہ جیسے ہم چڑیا گھر کے کسی پنجرے میں بند ہیں۔ اس دوران دو تین موٹر سائیکل والے ہمارے قریب آکر ہماری مظلومانہ حالت دیکھ کر رک گئے۔ ایک بولا:
’’پاگلوں نے اتنے بڑے بڑے برقع بنادیے کہ بالکل پاؤں تک پہنچ جاتے ہیں۔‘‘
اس سے پہلے کہ میاں جی کچھ غصے سے کہتے، وہ یہ جا وہ جا!
اچانک جو نظر پڑی تو دیکھا سامنے سے ایک شخص بڑی سی چھری لیے ہماری طرف چلا آرہا ہے۔ ’’ڈاکو! ہم نے مریل سی آواز میں اپنے میاں جی سے کہا۔
’’بدھو ڈاکو نہیں ہے ہماری مدد کے لیے آیا ہے۔‘‘
اتنے میں چھری والے بھائی نے ایک دم ہمارے برقعے کو اس طرح کاٹ کر رکھ دیا جس طرح کہ قصائی بکرے کو کاٹ دیتا ہے۔ بس تکبیر کی جگہ ہم نے اناللہ پڑھ لیا تھا۔
تو بہنو! یہ تھی ہمارے نئے نویلے مرحوم برقع کی اچانک موت۔ مگر اللہ تعالی نے خاص کرم یہ فرمایا کہ ہمارے میاں کو ہم پر ترس آگیا اور وہ ہمیں واپس گھر لے جانے کی بجائے سیدھا اسی مارکیٹ لے گئے جہاں سے پہلا برقع خریدا تھا۔ بالکل ہو بہو ویسا ہی نیا دلوادیا۔ جس پر ہم اپنے رب کے ساتھ اپنے میاں جی کے بھی دل سے مشکور ہوئے۔ تو یہ روداد سنا کر اب اصل مقصد کی بات کرکے آپ بہنوں سے اجازت چاہتی ہوں۔
ایک گزارش تو یہ ہے کہ جب کبھی موٹرسائیکل پر بیٹھیں تو گھر سے نکلنے کی دعا،آیۃ الکرسی کا پورا اہتمام کریں۔ اسی کی برکت سے اللہ تعالی نے ہماری حفاظت فرمائی، ورنہ تو ایک بار ہماری پھوپھو جان کا برقع اس طرح موٹرسائیکل میں اچانک پھنس گیاتھا۔ وہ یکدم منہ کے بل گریں اور کافی دور تک موٹرسائیکل کے ساتھ گھسٹتی چلی گئیں۔ سرپھٹ گیا، گھنٹے باز و شدید زخمی ہوگئے اور اس طرح کی صورت حال کو دیکھ کر لوگ بھی فوراً جمع ہوجاتے ہیں۔ ان کے سامنے جو بے پردگی ہوتی ہے، وہ خجالت اور شرمندگی تو مار ڈالتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ اپنا برقع ہمیشہ خوب سمیٹ کر اچھی طرح بیٹھیے۔۔۔ مگر جتنی ضرورت ہو، اتنا۔۔۔ کیوں کہ بہنوں کو موٹرسائیکل پر بیٹھے دیکھتی ہوں، برقع سمیٹنے کی بجائے اتنا اوپر کھینچ لیتی ہیں کہ آدھی ٹانگیں واضح طور پر نظر آرہی ہوتی ہیں۔
بہنو! اس طرح تو پردے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے جبکہ کچھ موٹرسائیکل پر بیٹھی خواتین بہنوں کا برقع اس طرح پاؤں سے نیچے بلکہ موٹرسائیکل کے ٹائر سے بھی نیچے لٹک رہا ہوتا ہے۔ کئی بار دوسرے لوگ آواز بھی دے دیتے ہیں کہ بہن! برقع ٹھیک کرلیں۔ یہ صورت حال کس قدر خطرناک ہوتی ہے؟ اس کا پتا ہماری طرح کی صورت حال سے دوچار ہوجانے کے بعد لگتا ہے۔
اگر بہنیں ناراض نہ ہوں تو میں اپنی اور سب کی اصلاح کے لیے یہ بھی عرض کردیتی ہوں کہ آج کل بازار میں ایسے فیشن والے برقعے آچکے ہیں جو بہت چست یا بہت باریک ہیں۔ ایسا برقع اگر ڈھیلی ڈھالے لباس پر بھی پہنا جائے تو پورے جسم کی ساخت کو نمایاں کردیتا ہے۔
عزیز قاریات! ہمارا مقصد کسی پر بھی تنقید کرنا ہرگز نہیں بلکہ ہم تو خود محتاجِ اصلاح ہیں۔ صرف اتنا عرض کرنا چاہتی ہوں کہ برقع کا مقصد تو پردہ ہے، خود کو مکمل طور پر چھپانا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم برقع پہن کر بھی اور ظاہراً پردہ کرکے بھی حضور ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کا مصداق نہ بن جائیں۔
«رُبَّ نِسَاءٍ كَاسِيَاتٍ عَارِيَاتٍ مَائِلاَتٍ مُمِيلاَتٍ لاَ يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلاَ يَجِدْنَ رِيحَهَا» {مشکوة: ج2 ص 10346}
’’بہت سی عورتیں لباس پہن کر بھی برہنہ رہنے والی ہیں جو دوسروں کو مائل کرتی ہیں، خود مائل ہوتی ہیں، ایسی عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوں گی نہ انہیں اس کی ہوا لگے گی۔‘‘
اللہ تعالی ہم سب مسلمان خواتین کو اس وعید میں داخل ہونے سے بچائے، آمین۔

بقلم بلقیس احمد حسن فاروقی۔ کراچی
بشکریہ خواتین کا اسلام میگزین، نمبر 668، ۱۸ ربیع الاول ۱۴۳۷ھ مطابق ۳۰ دسمبر ۲۰۱۵ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں